Picnic Manane Walay
Abdullah Tariq Sohail100
وزیر داخلہ کا بیان چھپا ہے۔ فرمایا، بھارت نے افغانستان میں پنجے گاڑ لیے۔ کوئی انکشاف نہیں۔ سب کو پہلے ہی پتہ ہے لیکن آپ نے یاد دلایا تویاد آیا والا معاملہ ہوگیا۔ ایک سوال بہت پہلے سے بہت ساروں کے دل میں ہے کہ افغانستان کو اپنی سٹریٹجک ڈیپتھ بناتے بناتے ہم افغانستان کو کیا بنا بیٹھے۔ بھارت نے پنجے گاڑ لیے ہیں تو بزور طاقت تو نہیں گاڑے ہوں گے۔ ہم نے ہر طرح سے افغانوں کو اتنا ناراض کرلیا کہ وہ بھارت کے سہولت کار بن گئے۔ سقوط ڈھاکہ پر مولانا مودودیؒ نے ایک تاریخی فقرہ کہا تھا جو کتابوں میں دفن ہو کر رہ گیا، اس لیے کہ خود ان کی جماعت نے اسے قبول نہیں کیا، وہ بدستور ریاستی بیانیہ کی قائل ہے کہ بھارت نے سازش کر کے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا اور اکیلی جماعت اسلامی کیا، ہمارے ہاں بیشتر کا یقین بھی اسی بات پر ہے لیکن مولانا مودودی کا خیال کچھ اور تھا۔ انہوں نے فرمایا "مشرقی پاکستان ہم سے الگ نہیں ہونا چاہتا تھا، ہم نے دھکے دے دے کر اسے بنگلہ دیش بنا دیا۔"افغانستان کی کہانی کا سچ بھی کچھ اسی قسم کا ہے۔ ہمارے ہاں سچ مقبول نہیں ہے۔ چنانچہ خیریت اسی میں ہے کہ وزیر موصوف کے "انکشاف" کی تشریح ان الفاظ میں کی جائے کہ امریکہ نے سازش کر کے بھارت کے پنجے افغانستان میں گڑوا دیئے۔ ٭٭٭٭٭ٹی وی پر بیٹھے اکثر ریٹائرڈ بزرگ یہ فرمایا کرتے ہیں کہ امریکہ ہمارا بھلا نہیں چاہتا، وہ ہمیں کمزور کرنا چاہتا ہے۔ حسن اتفاق سے ریٹائرڈ بزرگوں کی پسندیدہ جماعت ان دنوں برسراقتدار ہے اور اس کا بھی پالیسی بیان یہی ہے کہ ہم اپنا مفاد دیکھیں گے، امریکہ کا نہیں۔ صدر ٹرمپ نے جب بتایا کہ امریکی امداد اب پاکستان کو نہیں ملے گی تو وزیراعظم نے اسے "کرارا" جواب دیا۔ لیکن یہ کرارا جواب بس ٹویٹر پر ہی رہا۔ معاملہ وہی ہے کہ بعض کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ کرارا جواب تو یہ ہوتا ہے کہ ٹھیک ہے میاں، تم نے اپنا پاندان اٹھا لیا، اب تشریف کو بھی اٹھا رکھو اور چلتے بنو۔ لیکن ہمارے کرارے جواب میں اس کی گنجائش کہاں۔ سو سب کچھ جیسے تھا، ویسے ہی ہے اور ویسے ہی رہے گا۔ دنیا میں امریکہ کا سب سے بڑا سفارتی کمپلیکس اسلام آباد میں ہے اور یہ اعزاز ہمارے پاس ہی رہے گا، کسی اور کے حصے میں نہ آئے گا۔ جہاں تک امریکی امداد بند ہونے کا معاملہ ہے تو اخباری دنیا کا ایک "سچا لطیفہ" سن لیجئے۔ گمان یہی ہے کہ آپ میں سے اکثر نے پہلے ہی سن رکھا تھا۔ لطیفہ یہ ہے کہ ایک نو آموز صحافی کسی نئے اخبار میں نوکری کے لیے گئے اور رکھ لیے گئے۔ ملازم ہوتے ہی موصوف نے پوچھا کہ تنخواہ کتنی ملے گی۔ مالک نے فرمایا، کیسی تنخواہ، ہمارے اخبار میں تنخواہ نہیں ہوتی۔ یہ لو ہمارا کارڈ، خود کمائو اور ہمیں بھی کھلائو۔ پاکستان کاامریکہ سے معاملہ بھی ایسا ہی ہوتا ہوا لگ رہا ہے۔ امریکہ نے تنخواہ بند کردی لیکن نوکری سے نہ نکالا تو ہمارا استعفیٰ دینے کا ارادہ ہے۔ حالانکہ "نجات" کا بہت اچھا موقع تھا ؎بھلا ہوا موری گگری پھوٹیمیں پنیا بھرن سے چھوٹیارے میرے سر سے ٹلی بلالیکن ہم تو نوکری کئے جائیں گے اور امریکی جنگ اپنے پلے سے لڑتے رہیں گے اور ساتھ میں گاہے گاہے "کرارے جواب" بھی دیتے رہیں گے۔ ٭٭٭٭٭اپوزیشن لیڈر نے ایوان میں حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ اب سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ ظاہر ہے، یہ درست نہ نہیں، دشمنانہ مشورہ ہے اور مزید ظاہر ہے کہ بہت ہی سیانے عمران خان اس پر عمل کرنے کا سوچیں گے بھی نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سنجیدہ ہونے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ یہی کہ کبھی اقامہ نکل آتا ہے، کبھی نام لکھی گولی چل جاتی ہے اور کبھی پھندا فٹ ہو جاتا ہے۔ تختے سے تخت بھلا۔ چنانچہ تحریک انصاف کی حکومت جس طرح سو دنوں سے پکنک منا رہی ہے، آنے والے دنوں میں بھی پکنک مناتی رہے گی اور پس پردہ احباب حکمرانی کرتے رہیں گے۔ سو دنوں میں پکنک کے نمونے سارا ملک دیکھ کر لطف اٹھا چکا ہے۔ تادم تحریر آخری پکنک کا مظاہرہ کراچی میں چینی قونصلیٹ پر دشمن کے حملے کے بعد ایک وفاقی وزیر نے کیا۔ جب سب کچھ نمٹ نمٹا چکا تو موصوف کمانڈو وردی اور پستول سے لیس ہو کر منظر عام پر آئے، خیالی دشمن کو للکارا، وڈیو بنوائی، تصویریں کھنچوائیں اور چلتے بنے۔ پکنک کا انداز اپنی جگہ لیکن موصوف عین واردات کے وقت تشریف لے آئے یعنی اتنا لیٹ نہ ہوتے تو دہشت گردوں کی تو سٹی ہی گم ہو جاتی، گولی چلا پاتے نہ گولہ اور مارے دہشت کے سڑک پر لمبے لمبے لیٹ جاتے۔ ٭٭٭٭٭سی ڈی اے نے اپنے مراسلے میں کہا ہے کہ بنی گالہ رہائش گاہ کی دستاویزات مصدقہ نہیں ہیں، وزیراعظم مصدقہ دستاویزات جمع کرائیں۔ حیرت ہے، جب ایک شخص مصدقہ صادق و امین ہے تو اس کی جمع کرائی گئی، غیر مصدقہ دستاویزات کو مصدقہ مان لینے میں کیا چیزمانع ہے۔ سی ڈی اے کے حکام اپنے برے انجام کو دعوت دے رہے ہیں۔ ان سے سیانا تو محلے کا چوکیدار کرم علی ہے۔ کوئی صاحب بات کر رہے تھے کہ بنی گالہ کی جائیداد کا ایک حصہ ملکیتی ہے، دوسرا تجاوزات، پھر ان تجاوزات والے حصے کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہورہی۔ کرم علی بولا کہ چودھری صاحب، وہ صادق و امین تجاوزات ہیں، کارروائی ناجائز تجاوزات کے خلاف ہوتی ہے، صادق امین تجاوزات کے خلاف نہیں۔ ٭٭٭٭٭سٹیٹ بینک نے وضاحت کی ہے کہ سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر صرف "ڈپازٹ" کے طور پر دیئے ہیں، ہم انہیں خرچ نہیں کرسکتے۔ یہ بات تو پہلے ہی دن سامنے آ گئی تھی، پھر وضاحت کی ضرورت کیوں ہوئی؟ شاید بینک نے کسی کو یاد دہانی کرائی ہے کہ میاں، اسے بھی اپنی اے ٹی ایم مشین نہ سمجھ لینا۔ یہ سوال البتہ اپنی جگہ کہ جب اس "ڈالری پیکیج" سے ہمیں دھیلے کا بھی فائدہ نہیں تو ہم نے لیا کیوں؟ اور سعودی عرب نے دیا کیوں؟ اس ایک ارب ڈالر سے اچھا تھا کہ وہ ہمیں ایک دھیلا ہی دے دیتا، کم از کم ہم اس ایک دھیلے سے دھیلے بھر کا فائدہ تو اٹھا لیتے۔