Rueat Se Pehle Tulo
Abdullah Tariq Sohail78
اس بار جشن آزادی کی تقریب بھی خوب رہی۔ دو اہم باتیں ہوئیں۔ ایک تو اس میں نگران وزیر اعظم ناصر الملک بھی شریک ہوئے جن کے بارے میں کئی ہفتوں سے طرح طرح کی قیاس آرائیاں چل رہی تھیں اس حوالے سے کہ کہاں گئے۔ کچھ بدزبانوں، بد شگونوں نے تو یہاں تک چھوڑی کہ لاپتہ ہو گئے۔ صد شکر کہ انہوں نے تقریب میں آ کر اپنے خیر خیریت سے ہونے کا عملی مظاہرہ، معاف کیجئے گا عملی ثبوت دے دیا۔ دوسری بات صدر کا خطاب تھا۔ انہوں نے الیکشن کے حوالے سے شکوے شکایات کا ذکر کیا۔ ذکر اتنا "گرافک"نہیں تھا لیکن کسی صدر کے منہ سے اس طرح انتخابی دھاندلی کا ذکر بجائے خود ایک گرافک بات ہے۔ اس سے پہلے کبھی ایسا دیکھنے سننے میں نہیں آیا۔ صدر نے الیکشن کمشن کو ایک طرح سے ذمہ دار قرار دیدیا اور شکایات کا ازالہ کرنے کو کہا۔ کچھ زیادتی نہیں کر دی؟ یہ تو کرے کوئی بھرے کوئی والی بات ہو گئی۔ الیکشن کمشن بے چارے نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ اسے تو رزلٹ بھی ٹی وی دیکھ کر معلوم ہوئے۔ ایسے راضی برضا الیکشن کمشنر کو تو گنگا جل سے دھوکر کسی چبوترے پر سجا دینا چاہیے۔ گلے میں پھولوں کی مالا، سامنے پھلوں کی آرتی۔ ایسا ماضی میں بھی ہوا لیکن ذرا ہلکے پیمانے پر۔ یہ 1977ء کی بات ہے الیکشن کمشن بالکل بے خبر اور بے بس تھا، 37سیٹوں کے نتیجے بدلے گئے۔ بعد میں چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہم نے تو ٹھیک کھیر پکائی تھی کوئی اور آکے کھا گیا میں کیا کرتا۔ اس بار تو کھانے والوں نے کھیر بھی خود ہی پکائی۔ حتیٰ کہ بے دستخط فارم 45تندوروالوں کے ہاں بھجوانے اور مخالف ٹھپوں والے بیلٹ پیپرز کچرا کنڈیوں، پبلک ٹوائلٹوں اور سکولوں میں پھینکوانے کا کام بھی دوسروں نے کیا۔ الیکشن کمشن سے تو یہ بھی نہ ہو سکا، سنا ہے اس بار 81قومی سیٹوں کے نتیجے بدلے گئے۔ غلط سنا ہے، نتیجے بدلے نہیں درست کیے گئے۔ غلط العام کی تصحیح فرمائی گئی۔ (غلط العام کو غلط عوام نہ پڑھا جائے)٭٭٭٭٭پاکستان کے کسی ایئر پورٹ پر کوئی غیر ملکی خاتون رقص فرماتی دیکھی گئی اس کی ویڈیو وائرل ہوئی تو چیئرمین نیب نے اس کا فوری سوموٹو لیا اور ایکشن کا حکم دیا۔ اچھا ہوا ان کے اس اقدام سے لوگوں کو پتہ چل گیا کہ یہ معاملہ بھی نیب کی حدود میں آتا ہے۔ ورنہ عام خیال تھا کہ اس پر ایکشن لینا چیئرمین واپڈاکی ذمہ داری تھی۔ امید ہے چیئرمین نیب ان 30بکروں کی ہلاکت کا بھی سوموٹو لیں گے جو کل ٹرین سے کٹ کر مر گئے۔ ٭٭٭٭٭نیا پاکستان ایک دو دن میں طلوع ہوا چاہتا ہے لیکن اس کا چاند رئویت سے پہلے ہی نظر آنے لگا ہے۔ ایک خبر ہے کہ وزیر اعظم ہائوس کے لیے چھ نئی مرسڈیز گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔ ہر گاڑی کی قیمت ساڑھے اٹھارہ کروڑ بتائی گئی ہے۔ مرسڈیز گاڑیاں ضرورت کے مطابق وزیر اعظم ہائوسمیں پہلے ہی موجود تھیں لیکن وہ محض "لگژری" گاڑیاں تھیں، یہ والی "الٹرا لگژری" ہیں۔ اسے مرسڈیز ایس 600کہا جاتا ہے۔ خبر کے مطابق اس میں آرام دہی(Comfort)کا تناسب پہلی والی مرسڈیز سے کچھ زیادہ ہے ساتھ ہی ایک اضافی بی ایم ڈبلیو ایم 760گاڑی بھی خریدی گئی ہے۔ نیا پاکستان، نئی گاڑیاں بات "میچ" کرتی ہے اس لیے انگشت نمائی کی ضرورت نہیں۔ نئے پاکستان کے بابائے قوم نے ڈیڑھ دو ماہ پہلے چارٹر فلائٹ (فی گھنٹہ16لاکھ کرائے والی) پر سوار ہونے سے پہلے فرمایا تھا۔"ہم ریاست مدینہ قائم کرنے جا رہے ہیں "۔ اس سے پہلے وہ نواز حکومت کی عیاشیوں کی مذمت یہ کہہ کر فرماتے رہے ہیں کہ فلاں ملک کا وزیر اعظم سائیکل پر دفتر جاتا ہے۔ یہ گاڑیوں سے اترتے ہی نہیں۔ ضیاء الحق مرحوم یاد آ گئے۔ آپ نے ایک دن سائیکل کا سفر کر کے جڑواں شہر بلاک کر دیے تھے۔ بہرحال معاملہ ریاست مدینہ قائم کرنے کا ہے، کٹھن ذمہ داری ہے الٹرا ’کمفرٹ، والی گاڑیاں ہوں گی تبھی نبھ پائے گا۔ ٭٭٭٭٭اشرافیہ کے بارے میں یہ بدگمانی غلط ہے کہ وہ بزدل ہوتی ہے۔ کم از کم ہمارے ہاں کی "اشرافیہ" نے عرصہ چار پانچ سال سے اپنی بہادری کے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔ بہادر وہ ہے جو خود سے بڑے کو مارے۔ یوم آزادی پر کراچی میں اشرافیہ کے ایک نومولود ایم پی اے نے سرعام اپنے سے بڑے کی دھنائی کی۔ کم از کم 20سال بڑے کی۔ بزرگ اپنی ماچس برابر گاڑی نومولود کے ٹائی ٹینک کے آگے لے آئے تھے۔ جب بزرگ کی دھنائی ہو رہی تھی تو ان کے نواسے اپنی گاڑی میں رونے لگے۔ بڑی مشکل سے نومولود کے باڈی گارڈ نے انہیں بندوقیں دکھا کر چپ کرایا۔ افسوس کہ ٹی وی چینلز نے بہادری کے اس کارنامے کا بلیک آئوٹ کیا، سوائے ایک آدھ کے، البتہ سوشل میڈیا پر یہ بہادری خوب وائرل ہو گئی۔ نامور اشراف اور نامزد گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے اس پر بتایا کہ بابائے قوم بڑے "اپ سیٹ" ہوئے ہیں۔ یہ نہیں بتایا کہ کس پر بہادری دکھانے پر یا بہادری کی ویڈیو وائرس ہونے پر۔ تحریک اشراف نے نومولود کو شوکاز نوٹس دے دیا ہے۔ جو سراسر ناجائز ہے ویڈیو وائرل ہونے میں ان کا کیا قصور تھا؟ ۔ بہادری کے باب میں تحریک اشراف کا "جیہڑا بھنّو اوہو ای لال ہے" (جسے بھی کاٹو اندر سے لال ہے) والا معاملہ ہے۔ پچھلے برسوں میں ان گنت بہادریاں دکھائی گئیں۔ چند ایک یاد رہیں باقی بھول بھال گئیں۔ پختونخواہ کے ایک شیرنرمراد سعید نام رکھتے ہیں۔ اپنے سے کافی بڑے، سفید ریش ٹریفک کانسٹیبل کی جم کر ٹھکائی کی۔ اس نے سگنل توڑنے پر گاڑی روکنے کی کوشش کی تھی۔ عملی ہرزہ سرائی کا عملی مزا پاپا۔ ایک اور رستم زماں نعیم الحق ہیں جنہوں نے دانیال عزیز کو تھپڑ رسید کر دیا۔ ایک پروگرام میں انہوں نے مخالف کے منہ پر پانی کا بھرا گلاس ٹھوک مارا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ پھر بھی پانی پانی نہیں ہوا۔ لاہور کے مرد میدان اعجاز چودھری البتہ ذرا پیچھے رہ گئے۔ ٹی وی پروگرام میں مخالف کے ایک سوال پر گھونسہ تو رسید کر دیا عجواب جاہلاں باشد "گُھسّنا"لیکن افسوس کہ "گُھسّن "دو تین سینٹی میٹر پہلے ہی رک گیا، بہادری کا یہ مظاہرہ نامکمل و ناتمام رہا۔ خیر یہ تو ماضی کی بات تھی جب اشرافیہ قدرے کمزور تھے۔ اب تو جملہ طاقت ان کے پاس ہے۔ جملہ کوتوالی بھی ان کی سجن ٹھہری۔ اب تو ہر چوک، چوراہے پر دلیری اورشجاعت کے کارنامے روزانہ کی بنیادوں پر رقم کئے جائیں گے۔ سورمائی کی تاریخ کئی جلدوں پر مشتمل لکھی جائے گی۔ ٭٭٭٭٭اسفند یار ولی نے عجیب بیان دیا ہے، کہا ہے کہ عمران خان نے سارے کرپٹ اوربددیانت اپنے گرد اکٹھے کر لیے۔ بہت ہی خلاف واقعہ بات کی۔ تحریک میں شامل ہوتے ہی سب مسڑ کلین ہو جاتے ہیں، کو ئی بددیانت رہتا ہے نہ کرپٹ۔ جب سچے دل سے توبہ کی تو پاک ہو گئے۔ یہ پاک صاف لوگوں کی جماعت ہے۔ کلین لوگوں کی کلین جماعت۔ رئویت سے پہلے طلوع