Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Sadarti Nizam, Namumkin

Sadarti Nizam, Namumkin

سرما کی ہلکی پھلکی بارشیں شروع ہیں اور لوڈشیڈنگ بدستور۔ دورانیہ چودہ گھنٹے کا ہوگیا۔ کہتے ہیں دھند میں بجلی کی حدنظر دھندلا گئی تھی، اب بارش سے بجلی گیلی ہوگئی ہے، تردامنی کے باعث گھروں میں آنے، منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی، بی بجلی نہ ہوئی، بجلی بائی ہو گئی۔ چند ہفتوں بعد بہاراں ہے، تعطیل بہاراں پر چلی جائے گی۔ پھرگرمیاں آئیں گی، لو کے تھپیڑے بجلی کو کہاں چین لینے دیں گے۔ یعنی لوڈشیڈنگ یونہی رہے گی، بس دورانیہ گھٹتا بڑھتا رہے گا، کبھی چودہ تو کبھی پندرہ گھنٹے۔ فی الحال تو عمران حکومت کو اس اعزاز کے مزے لینے دیجئے کہ وہ تاریخ کی پہلی حکومت ہے جس نے سردیوں میں بھی لوڈشیڈنگ متعارف کرائی۔ ایسے مائی کے لال تو اپنے رینٹل راجہ بھی کہاں تھے۔ یہ بلند رتبہ اعزاز ان ہی کا حصہ تھا۔ لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں صدارتی نظام کی سرگوشیاں ہیں۔ کہتے ہیں، ریفرنڈم کرایا جائے گا پر ابھی نہیں۔ حکومت کی شاندار کارکردگی ذرا اور اوج کمال تک پہنچ جائے۔ یہاں تک کہ فرط مسرت سے عوام چیخ اٹھیں اور دیوانہ وار، کپڑے پھاڑ، سرجھاڑ سڑکوں پر نکل آئیں۔ تب ایک مہم میڈیا پر چلے گی کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے پارلیمانی نظام مسائل کا حل نہیں بلکہ یہ تو مسائل کی جڑ ہے، ام المسائل ہے، اب تو بچنے کا ایک ہی طریقہ بچا ہے یہ کہ صدارتی نظام لائو۔ کبھی ریلوے کی پٹڑیوں پر سٹیم کے انجن دوڑتے تھے، اب اس زمانے کی رومانی یاد آتی ہے لیکن کیا وہ انجن واپس لائے جا سکتے ہیں؟ کبھی نہیں۔ زمانہ اور اس کی ضروریات بہت آگے نکل گئیں۔ کوئی حکومت چاہے بھی تو کبھی یہ رومانی دخانی انجن دوبارہ نہیں لا سکتی۔ صدارتی نظام لانا اس سے بھی ناممکن ہے، ناممکن تر ہے۔ چلیے، پھر بھی تجربہ کرنے دیں۔ ٭٭٭٭٭حکومت کی کارکردگی عوام کے اندازوں سے بھی بڑھ گئی۔ عام تاثر ہے کہ سب اب حیران اور ششدر ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ وہ اب پچھتا رہے ہیں، یہ تاثر دراصل کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے اور غلط فہمی پلان سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے۔ ساری دنیا جانتی تھی کہ خان صاحب کس بلا کے "باصلاحیت" ہیں۔ شاید ان کا "بلا کا باصلاحیت" ہونا ہی "سلیکشن" کی وجہ بنا۔ اس لیے کہ خان صاحب ہی وہ سازگار فضا بنا سکتے تھے جو درکار تھی۔ آخری امید کا لطیفہ اپنی جگہ ستم ظریفی ہے۔ عوام نے کب انہیں آخری امید مانا تھا۔ انہیں جن سے امید تھی انہی کو ووٹ دیئے۔ خان صاحب کو بھی لوگوں نے ووٹ دیئے۔ خیر، انتظار کیجئے اور چوکس رہیے کہ میڈیا پر پارلیمانی نظام کی تباہ کاری اور صدارتی نظام کے فضائل و برکات کی مہم کب شروع ہوتی ہے۔ ٭٭٭٭٭صدارتی نظام وفاق کے لیے اس کے خاتمے کا سگنل ہے۔ اس کا ثبوت ہم 1971ء میں اور یوگوسلاویہ 1991ء میں دے چکا۔ یہ نظام ان ملکوں کے لیے ٹھیک ہے جہاں ایک ہی قوم آباد ہو (جیساکہ بنگلہ دیش) یا جہاں ایک ہی قوم کی بھاری اکثریت ہو جیسے کہ ترکی ہے (جہاں یوں تو کئی قومیں آباد ہیں لیکن 80 فیصد ترک قوم آباد ہے)۔ بھارت میں اکثریت رکھنے والی قوم کو بالعموم "ہندوستانی" کا نام دیا جاتا ہے۔ کل آبادی میں ہندوستانیوں کی اکثریت ساٹھ فیصد ہے بلکہ گجرات اور بنگال کو بھی ان میں شامل کرلیا جائے (کہ لکھنے کا خط وہی دیوناگری ہے، زبان میں بھی مشابہت ہے اور رسوم و رواج بھی وہی) تو یہ اکثریت ستر فیصد تک پہنچ جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود بھارت کے حکمران طبقات صدارتی نظام کا کبھی نہیں سوچیں گے کیونکہ وہ ملکی تباہی کا رسک نہیں لے سکتے۔ پاکستان میں تو کوئی بھی قوم غالب اکثریتی نہیں۔ پنجابی محض 49 یا 50 فیصد ہیں، سرائیکی کو الگ قوم مان لیا جائے تو یہ چالیس فیصد سے بھی کم رہ جاتے ہیں۔ یہاں ملک سلامتی اور پارلیمانی نظام کو لازم و ملزوم سمجھا جائے تو بھی بھلا ہے۔ ٭٭٭٭٭عمران خان صدارتی نظام کے بارے اس لیے سوچ رہے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ صدر وہی بنیں گے۔ انہیں شاید یہی یقین دلایا گیا ہے لیکن ایسا ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ وہ اکثر صدر ایوب کے سنہرے دور کو یاد کرتے ہیں۔ یہ تو ممکن ہے نہیں کہ انہیں دور ایوبی کی تباہ کاریوں کا علم نہ ہو۔ لگتا ہے، وہ اس دور کے واقعات کو جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں یا پھر ماشاء اللہ ہے۔ ایوبی دور میں پاکستان نظریاتی طور پر ایک قوم کے طور پر باقی نہ رہا۔ ہر صوبے میں قوم پرستی بڑھی۔ لسانی نفرتوں نے بھی اسی دور میں جنم لیا۔ یہ انہی کا دور تھا کہ روٹ پرمٹوں اور لائسنسوں کے ذریعے سیاسی خریدوفروخت ہوئی۔ ایوب خان نے بھارت سے دریائوں اور امریکہ سے سکیورٹی امور پر "غیرشفاف" معاہدے کئے اور مال کمایا۔ اس نیک کمائی کے یہ 22 گھرانے مشرف کے دور میں دسیوں ہزار گھرانوں میں پھیل گئے اور سپر اشرافیہ یا ایلیٹ اپر کلاس وجود میں آ گئی جو سیاسی طور پر سمٹ کر ایک جماعت بن گئی۔ معیشت پر جان کنی کا جو عالم ہے وہ خان صاحب کی "لائقی" تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی کسی خواب کی انجینئرڈ تعبیر بھی۔ لگتا ہے، لیکن نئی حقیقت یہ ہے کہ صدارتی نظام دور کی بات، اس پر ریفرنڈم بھی ممکن نہیں۔ ایسی تجویز آتے ہی جو کہرام مچے گا وہ اندازوں سے باہر ہوگا۔ چنانچہ کوشش کردیکھئے، ناممکن ممکن نہیں ہو سکے گا۔