Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Sadgi Ay Sadgi

Sadgi Ay Sadgi

وزیر اعظم نے "سادگی" کے جو ڈھول بجائے تھے اس کی گونج سب سن ہی نہیں، دیکھ بھی رہے ہیں۔ ان کا اپنا پروٹوکول، سبحان اللہ، ایک وزیر اعظم ہائوس کے تین بنا دیے یعنی تین گنا خرچہ۔ ایک تو وہی پرانے والا وزیر اعظم ہائوس، دوسرا اس کے اندر ملٹری سیکرٹری کی رہائش والا ہائوس، تیسرا بنی گالہ کا شبینہ پرائم منسٹر ہائوس اوریجنل پرائم منسٹر ہائس کا خرچہ جوں کا توں ہے، سکیورٹی بھی وہی ملازموں کا لشکر بھی بدستور، اضافی خرچے ملٹری سیکرٹری والے پی ایم ہائوس کے ہیں۔ جہاں کا بستر تک بدل دیا گیا اور تیسرے بنی گالہ والے پی ایم ہائوس کی سکیورٹی اور پروٹوکول الگ سے۔ یہ وہی "سادگی" ہے جس کے لیے شاعر نے کہا تھا عاس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خداوزرائے اعلیٰ تو جو کچھ کروفر دکھا رہے ہیں اور وفاقی وزیر بھی وہ اپنی جگہ، پہلی مرتبہ یہ سنا کہ صوبائی وزیر بھی سترہ سترہ گاڑیوں کے پروٹوکول کے ساتھ شہروں کے دورے فرما رہے ہیں ادھر گورنر سندھ(وہی تبدیلی آئی رے والے بھجن کے گائیک) جب کسی فرزند سوری جو ڈپٹی سپیکر بھی ہیں کے ہمراہ کوئٹہ گئے تو تین درجن گاڑیوں کے پروٹوکول قافلے میں ایئر پورٹ سے طلوع ہوئے صوبائی اور شہری انتظامیہ نے اس دوران پورا ایئر پورٹ روڈ بند کر دیا۔ دکانوں کے شٹر گرا دیے گورنر صاحب تھے یا کوئی جن شہر میں پھرنے آیا تھا۔ سڑک پر کسی کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک روایت ہے کہ یہ کرفیو گھنٹے بھر کا تھا دوسری روایات کے مطابق اس سے بھی زیادہ۔ خیر ابھی تو "پروٹوکول" پارٹی شروع ہوئی ہے سادگی کے اصل جلوے تو ابھی آنے ہیں تب تک یہ مصرعہ ادا مت کیجیے لبوں پر روکے رکھیے عاس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا٭٭٭٭٭خوش گفتار اور ادب و تہذیب کے مینار جناب عامر لیاقت ان دنوں خاں صاحب سے ناراض ہو گئے ہیں کسی فارورڈ بلاک کی " دھمکیاں " دے رہے ہیں۔ یہ لڑائی امید ہے 4ستمبر سے پہلے ختم ہو جائے گی۔ صدارتی انتخاب کے معرکے میں وہ اپنی قدر لگوانا چاہتے ہیں ان کا فارورڈ بلاک فی الحال ایک رکن یعنی خود انہی تک محدود ہے اور 4ستمبر تک اس میں کسی اضافے کی توقع نہیں۔ اس لڑائی کا انجام کیا ہو گا؟ وہ وزارت کا جھنجھنا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے خاں صاحب کا دل پیسج جائے اور وہ وزارت، وزارت مملکت، مشاورت معاونت کا کوئی جھنجھنا ان کے ہاتھ میں تھما دیں۔ بات ختم ہو جائے گی یک رکنی فارورڈ بلاک تحلیل ہو جائے گا۔ لیکن فرض کیا کہ ایسا نہ ہوا تو…؟ تو دو صورتیں ہوں گی۔ یا تو عامر لیاقت تنخواہ جاریہ پر راضی برضا ہو جائیں گے یا پھر کھلی بغاوت کر دیں گے۔ دوسری صورت میں امکان کم ہے لیکن ہو گئی تو…؟ تو کیا پارٹی انہیں نکال باہر کرے گی پھر کیا ہو گا…؟ کچھ نہیں ضمنی الیکشن ہو جائے گا اور کیا۔ ضمنی الیکشن میں کیا ہو گا…؟ کچھ نیا نہیں وہی جو عام الیکشن میں ہوا تھا۔ یعنی چھ بجے تک پولنگ چھ بج کر پانچ منٹ پرووٹوں کی گنتی۔ چھ بج کر دس منٹ پر پولنگ ایجنٹ پولنگ سٹیشنوں سے کک آئوٹ کر دیے جائیں گے چھ بج کر پندرہ منٹ پر کنڈی بند گھر گنتی شروع۔ سات بجے آر ٹی ایس سسٹم خود ہی بیٹھ جائے گا اور رات بارہ بجے سے ایک بجے کے درمیان امیدوار کی بھاری اکثریت سے کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہو جائے گا چیف الیکشن کمشنر کو اگلے دن کا اخبار پڑھ کر علم ہو جائے گا کہ منصفانہ شفافانہ، ایماندارانہ انتخابات کی ایک اور ذمہ داری انہوں نے پوری کر دی ہے۔ ٭٭٭٭٭وزیر اطلاعات نے کہاہے کہ ڈی پی او کے معاملے میں وزیر اعلیٰ کا کوئی کردار نہیں۔ سولہ آنے سچ کہا۔ وزیر اعلیٰ تو اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں ہونٹوں کو سختی سے دبا کر بیٹھے رہے اور قطعی خاموش رہے جس میں ایک اعلیٰ سطحی شہری ڈی پی او گوندل کو دھمکاتا اور مقدس ڈیرے پر جا کر ماتھا رگڑنے کا حکم دیتا رہا۔ خاموش وزیر اعلیٰ خاموش رہے۔ جب اعلیٰ سطحی شہری کے حکم پر ڈی پی او کا تبادلہ ہو گیا وہ تب بھی خاموش رہے۔ پاکپتن میں سادگانہ، آمد پر وہاں کے شہری بھڑک اٹھے وہ دراصل شاہانہ آمد کے منتظر تھے اور ان کے سامنے مخالفانہ نعرے بازی کرتے رہے وہ تب بھی خاموش رہے اور جس سوشل میڈیا پر طوفان اٹھا اور بعض چینلز نے بھی حریفانہ انگڑائی کی، وہ تب بھی خاموش رہے۔ دراصل تبدیلی والوں نے وزیر اعلیٰ بنا دیا ہے۔ کہتے ہیں بس نااہلی کے خلاف اپیل منظور ہونے ہی والی ہے کوئی دن جاتا ہے کہ انصاف ہو گا پھر تخت لاہور کی مستحق ترین ہستی آ جائے گی۔ ٭٭٭٭٭تحریک انصاف کے صوفیائے کرام نے تجویز دی ہے کہ سوشل میڈیا کو اتنی ہی آزادی دی جائے جتنی چین اور ایران میں ہے۔ ادھر وزیر اطلاعات نے سنسر نافذ کرنے کا اشارہ دیدیا ہے۔ آزادی صحافت والے نہ جانے کہاں کھو گئے۔ صرف چین اور ایران کے نام کیوں؟ ایک تیسرا شمالی کوریا بھی تو ہے۔ ان تینوں ملکوں میں سوشل میڈیا ہے ہی نہیں۔ نہ ٹویٹر ہے نہ یو ٹیوب، نہ فیس بک۔ ایک محدود قسم کے ایڈیشن ہیں جن میں صرف حکمرانوں کی مدح خوانی کی جا سکتی ہے۔ اتنا لمبا فقرہ لکھنے کے بجائے یہ فرما دیتے تو زیادہ بلیغ اور صحیح ہوتا کہ اب جبکہ ریاست مدینہ (بقول ان کے) قائم ہو چکی ہے تو سوشل میڈیا کی ضرورت ہی کیا ہے۔ پابندی لگائی جائے۔ پچھلے پانچ سال سوشل میڈیا پر خان کے جاں نثار خوش گفتاروں کا غلبہ اور غلغلہ رہا۔ اب خیر سے حکومت کے پہلے ہی دس دنوں میں جملہ طبق ایسے روشن ہو ئے ہیں کہ پہلی بار حکومتی لوگوں کو دفاعی پوزیشن پر جانا پڑا ہے۔ مخالفین کا زور کچھ نظر آیا تو چین ایران یاد آ گئے۔ جو شے پہلے اچھی تھی اب "کفر" ٹھہری۔ ٭٭٭٭٭نوٹ دوگنے کرنے کا جھانسہ دینے والے کیا کرتے ہیں؟ پہلے کچھ نوٹ سچ میں دوگنا کر دیتے ہیں، پھر کہتے ہیں گھر کے سارے نوٹ لے آئو۔ گھر والے سارے نوٹ نکال کر ڈھیر کر دیتے ہیں نوسر باز کہتے ہیں آنکھیں بند کر کے بیٹھو ہم ابھی دگنا کر کے آتے ہیں۔ پھر کبھی نہیں آتے گھر والے انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ دراصل صدارتی انتخاب کے لیے اعتزاز احسن کا نام حکمرانی پارٹی کے فواد چوہدری نے دیا تھا۔ ہم مان گئے لیکن وہ پھر آئے ہی نہیں۔ اس وفور اعتبار کے کیا کہنے۔ خورشید شاہ تو اعتبار شاہ نکلے اور اتنے دن گزر گئے وہ ابھی تک نوٹ دگنا کرنے والوں کے انتظار میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں۔ خود تو خود آصف زرداری بھی ڈبل شاہ کے جھانسے میں آ گئے۔ ویسے نام دینے کی حد تک والی منطق تو ٹھیک ہے۔ بے منطقی تو اس بات پر ہے کہ پیپلز پارٹی کس مزے سے اس جھانسے میں آ گئی!٭٭٭٭٭ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ احتسابی ادارے کے سربراہ کی تصویر سے ادب، احترام اور احتیاط تینوں جذبات پوری طرح جھلک رہے ہیں ؎دور بیٹھا غبار میر ان سےعشق بن یہ ادب نہیں آتاخیر، احتسابی ادارے کے سربراہ غبار میر میں نہ غبار راہ۔ وہ تو ناپسندیدہ عناصر کو غبار راہ بنا دیتے ہیں لیکن بات ادب گاہ کی ہے اور آداب حاضری و نیاز مندی کی ہے۔ ملاقات میں کیا گفتگو ہوئی ہو گی؟ ظاہر ہے اس "مقدمے" سے متعلق تو بالکل نہیں جو عرصے سے زیر پیشیاں ہے بات چیت کی تفصیل باہر نہیں آئی۔ البتہ فیض گنجور سے شاباشی ملنے کی خبر چھپی ہے۔