Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Salavesi Ke Dozakh Main

Salavesi Ke Dozakh Main

گزشتہ دنوں انڈونیشیا کے جزیرے سلاویسی میں زلزلہ اور سونامی آیا۔ سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے اور ہزاروں زخمی، بے شمار املاک تباہ ہو گئیں۔ سب سے زیادہ تباہی شمال مغربی شہر پالو میں ہوئی۔ انڈونیشیا کے سبھی جزیرے طوفانی سمندروں سے گھرے ہوئے ہیں۔ مغرب میں بحر ہند ہے تومشرق، جنوب اورشمال میں بحرالکاہل، اور یہ ساری پٹی زمینی پلیٹوں میں رفٹ کی پٹی ہے اور ہر جزیرے میں زندہ اورمردہ آتش فشاں موجود ہیں۔ گویا ہر طرف سے بلائوں نے محاصرہ کر رکھا ہے۔ سلاویسی انڈونیشیا کے پانچ بڑے جزیروں میں سے ایک ہے۔ باقی چار تو بہت معروف ہیں یعنی سماٹرا، جاوا، نیوگنی اور بورینو لیکن سلاویسی جس کا پرانا نام سیلے بیز ہے، اتنا زیادہ معروف نہیں۔ البتہ کچھ برسوں اور مہینوں سے یہ عالمی خبروں میں ہے۔ انڈونیشیا زرد نسل (اسے نسل پیلی فام بھی کہا جاسکتا ہے اگر ہندی، فارسی کی پیوندکاری قبول کرلی جائے) کے ملکوں میں شامل ہوتا ہے اگرچہ خالص زرد نسل نہیں ملاوٹی زرد نسل، خالص زرد نسل کے ملکوں میں چین، کوریا، جاپان، فلپائن، ویت نام، کمپوچیا، لائوس شامل ہیں۔ ملاوٹی ملکوں میں انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ، برما اور بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کی بعض اقوام آتی ہیں اور جس بات کا ذکر ہونے والا ہے، اس کا تعلق اسی زرد نسل کے "کلچر" سے ہے جس پر انڈونیشیا مسلمان ملک ہونے کے باوجود قابو نہ پا سکا۔ سلاویسی کی آبادی تقریباً دو کروڑ ہے اور 80 فیصد مسلمان ہیں۔ یہاں گھنے جنگلات اور نہایت پرکشش قدرتی نظاروں کی بھرمار ہے اور دنیا کی کچھ عجیب و غریب نسلوں کے جانور بھی یہاں پائے جاتے ہیں، جیسے کہ بونا ہاتھی جو بکری کے برابر یا اس سے کچھ بڑا ہوتا ہے۔ اسے دیکھ کر ایک بار تو یقین نہیں آتا کہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں۔ ہاتھی کا چھوٹا سا مجسمہ جس میں جان پڑ گئی ہے۔ ہر شے ہاتھی والی، ویسی ہی عادتیں، آواز، کھانے اور چنگھاڑنے سے لے کر پانی میں نہانے تک ہر معاملے میں پورا ہاتھی، لیکن قد اتنا چھوٹا کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ کوئی سائنس فکشن کی فلم دیکھ رہا ہے۔ یہ صورتحال سیاحوں کی کشش کا بڑا ذریعہ ہو سکتی ہے لیکن انڈونیشیا کی حکومت نے اس کے بجائے کسی اور معاملے کو "ٹورسٹ اٹرکشن" بنایا ہے اور وہ ہے کتے بلی کے گوشت کی تجارت۔ یہ کاروبار اگرچہ ملک بھر میں ہورہا ہے اور جکارتہ بھی کتے بلی کا گوشت کھلانے والے ریسٹورنٹس سے بھرا ہوا ہے لیکن سب سے زیادہ یہ کاروبار جزیرہ سلاویسی ہی میں ہے۔ تمام زرد اقوام کتے اور بلی کے گوشت کی عاشق ہیں۔ حقیقت میں تو یہ نسلیں زمین پر حرکت کرنے والے ہر ذی روح کو کھا جاتی ہیں، گینڈے اور مگر مچھ سے لے کر چھپکلی اور کاکروچ تک، لیکن کتے اور بلی کو کھانا ان کا عشق ہے۔ کتے اور بلی کو مار کر کھا جانا بے رحمی ہے یا نہیں، کیا کہا جاسکتا ہے لیکن جس طرح انہیں مارا جاتا ہے، اسے بہرحال ظلم نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ظلم سے بہت آگے کی شے ہے۔ اس معاملے کو بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ نرم سے نرم فقرے لکھے جائیں، تب بھی وہ بہت سخت ہوں گے۔ اذیت رسانی کا ایک ایسا نظام ہے جس کا تصور نہیں کیا جاتا اور اس اذیت رسانی کے پیچھے جملہ زرد اقوام کا وہی فلسفہ ہے کہ جانور جتنی تکلیف سے مرے گا، اسے کھانے میں اتنا ہی مزہ آئے گا اور جسمانی طاقت بھی زیادہ ملے گی۔ ٭٭٭٭٭سلاویسی کا شمالی قصبہ اس شوق کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ یہاں جا بجا ایسی مارکیٹیں قائم ہیں، ان میں سب سے بڑی تو موہون کی ایکسٹریم مارکیٹ ہے۔ مارکیٹ کیا ہے، ایک پورا شہر ہے۔ بہت سے بازار ہیں۔ دونوں طرف ویسے ہی پنجروں سے بھری دکانیں ہیں جیسی ہمارے ہاں پولٹری اور مرغی کی دکانیں ہوتی ہیں۔ پنجرے نہایت تنگ ہیں اور ان میں کتے اور بلیاں یوں ٹھونس ٹھونس کر بھری ہوئی ہیں کہ کوئی بھی جانور حرکت نہیں کرسکتا۔ جو کھڑا ہوا ہے، وہ کھڑا ہی رہے گا۔ ان کے منہ پر بھی ٹیپ لگا دی جاتی ہے جس سے انہیں سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ کھلی مارکیٹ میں یہ چاہے دو تین دن رہیں، انہیں کھانا دیا جاتا ہے نہ پانی۔ بازار کشادہ ہیں۔ جابجا اپنے پانی کے ڈرم ہیں جن کے نیچے مسلسل آگ دہکتی رہتی ہے۔ کوئلوں کی بڑی بڑی انگیٹھیاں ہیں۔ گاہک کی فرمائش پر جانور پنجرے سے نکالا جاتا ہے اور پنجرے میں بند سارے جانوروں کے سامنے اسے ہلاک کیا جاتا ہے۔ گاہک کی فرمائش ہے کہ اسے زیادہ بھنی ہوئی بلی چاہیے۔ بلی کو پنجرے سے نکالا جائے گا اور اس کے ہاتھ پائوں باندھ کر دہکتے ہوئے کوئلوں پر ڈالا جائے گا۔ وہ تڑپ بھی نہیں سکتی کہ ہاتھ پائوں بندھے ہیں۔ گاہک اس کی چیخیں سننے کا خواہشمند ہے تو منہ کھلا رکھا جائے گا ورنہ منہ پر بھی پٹی بندھی ہوگی۔ مکئی کے پھٹے کی طرح اسے الٹ پلٹ کر دس پندرہ منٹ بھونا جائے گا۔ پوری طرح بھونے جانے پر بھی بعض بلیاں زندہ رہتی ہیں۔ گاہک کی فرمائش ہے کہ اسے ابلی ہوئی بلی چاہیے تو بلی کو بڑے چمٹے سے پکڑ کر ابلتے ڈرم میں ڈال دیا جائے گا۔ پانی کا درجہ حرارت اتنا ہے کہ ابلنے کے لیے دس پندرہ منٹ لگیں گے۔ بلی پھر بھی زندہ ہوگی۔ اس کی کھال ساری جھڑ جائے گی۔ گاہک کی فرمائش ہے کہ بلی کوڈنڈے سے ہلاک کرو۔ بلی کے سر پر ڈنڈے سے ایک کاری ضرب لگائی جائے گی، پھر اسے سڑک پر چھوڑ دیا جائے گا۔ پورے بازار میں ایسی بلیاں جا بجا تڑپتیملیں گی۔ ایک سخت ڈنڈے سے جان نہیں نکلتی۔ پوری طرح مزے کے لیے کبھیکبھار آدھا گھنٹہ بھی لگ جاتا ہے۔ گاہک کی فرمائش ہے کہ اسے جانور کھال اتار کر دیا جائے۔ جانور کو رسی سے لٹکا دیا جائے گا اور ایک طرف سے کٹ لگا کر کھال کھینچی جائے گی۔ اس حالت میں جانور کی ہولناک آوازیں عام آدمی سنے تو اس کی حرکت قلب بند ہو جائے لیکن یہاں گاہک اسے دنیا کی سب سے خوبصورت موسیقی سمجھ کر سنتا ہے۔ کئی بار جانور کے چاروں ہاتھ پائوں اور دم چھری سے کاٹ دی جاتی ہے، پھر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہی سب کچھ اور اس کے ساتھ مزید بہت کچھ کتوں سے بھی کیا جاتا ہے۔ دن بھر اپنے سامنے اپنے ہم جنسوں کی اذیت ناک موت دیکھ کر ان کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ جب کسی کتے کو ہلاک کرنے کیلئے پنجرے سے باہر نکالا جاتا ہے تو وہ پوری طرح زندہ، ہوش و حواس میں ہونے کے باوجود حرکت کرتا ہے نہ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ بے حس و حرکت پڑا رہتا ہے۔ جسے زندہ جلانا ہو، صرف اسے رسی سے باندھ دیا جاتا ہے۔ کتوں کو زندہ جلانے کیلئے فائر لیمپ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے گیسی شعلے نکلتے ہیں۔ یہ جو کچھ لکھا ہے، اسے اصل کا ایک بٹہ ہزار سمجھئے بلکہ اس سے بھی کم! اس جزیرے میں لگ بھگ ایک کروڑ کتے اور بلیاں اسی طرح ہلاک کی جاتی ہیں۔ سلاویسی کے مسلمان نماز کے پابند ہیں اور مندر جانے کے بھی۔ سارے تو نہیں لیکن مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ قدیم بت پرستی والے مذہب پر بھی کاربند ہے۔ مسجد سے نکل کر مندر جاتے ہیں اور بتوں کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ انڈونیشیا میں علما کی بڑی بڑی جماعتیں ہیں۔ سب سے بڑی نہضتہ العلما ہے جس کے صدر عبدالواحد پچھلے برسوں ملک کے بھی صدر رہے۔ اب وہ انتقال کر چکے ہیں۔ پاکستان سے علما کے ایک وفد کو انڈونیشیا جانا چاہیے تاکہ وہ نہضتہ العلما کے اکابر سے ملے اور انہیں بتائے کہ بتوں کی پرستش اسلام میں منع ہے او رکتے بلی کا گوشت حرام ہے اور جانوروں کو اس طرح مارنا حرام تر۔ اس جماعت کے 30 لاکھ علما رکن ہیں۔ دنیا بھر میں انڈونیشیا کے خلاف مظاہروں میں تیزی آئی تو پچھلے مہینے یعنی 7 اگست کو انڈونیشی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ ان مارکیٹوں پر پابندی لگانے والی ہے اوراس حوالے سے ایک قانون تیار کر رہی ہے لیکن اب دو مہینے ہونے کو آئے، کوئی ضابطہ بنا نہ کوئی اعلان سامنے آیا۔ اکیلے سلاویسی میں ہر سال ایک کروڑ کتے اور بلیاں اسی طرح اذیت کے ساتھ مار مار کر ہلاک کر دیئے جاتے ہیں۔ عالمگیر مظاہروں سے بھی انڈونیشی حکومت کو ذرا شرم نہیں آئی اور نہ ہی وہاں علما کی جماعتیں ہوش میں آئیں۔ جنوبی کوریا، ویت نام، فلپائن، کمپوچیااور سب سے بڑھ کر چین میں یہ معاملہ اور بھی سنگین ہے۔ انوکھی بات ہے کہ تائیوان (جو دراصل چین کا بھی حصہ ہے) کب کا اس شیطانی نظام پر پابندی لگا چکا۔ نہایت بدمزہ کالم پر قارئین سے معذرت لیکن دیکھئے، ہے تو یہ بھی کرنٹ افیئرز ہی کا حصہ۔