Shaam, Afghanistan, Khoon Rezi Ke Naye Daur
Abdullah Tariq Sohail86
صدر ٹرمپ نے آگے پیچھے دو اعلانات کر کے ایک بار پھر سب کو حیران کر دیا۔ پہلے شام سے فوج نکالنے کا اعلان کیا، دو روز بعد افغانستان سے آدھی فوج واپس بلانے کا۔ انتخابات سے انہوں نے کہا تھا کہ وہ عالمی جنگوں سے امریکہ کو الگ کر لیں گے۔ شمالی کوریا کے ساتھ دوستی کر کے انہوں نے پہلے ہی سب کو ششدر کر دیا تھا۔ ان کی پالیسی جنگ باز اوباما سے بالکل الٹ ہے، اوباما نے شام، عراق، یمن میں خونریزی بڑھائی"افغان جنگ کو زیادہ ظالمانہ رنگ دیا۔ شام اور افغانستان میں لیکن اس اعلان سے امن نہیں ہو گا۔ شام میں تو جنگ کا دوسرا دور صاف نظر آ رہا ہے۔ چند ماہ پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک تہائی سے زائد شامی رقبے پر قائم کرد ریاست کے لئے کوئی خطرہ کھڑا ہو سکتا ہے لیکن اب خطرہ سامنے آ گیا ہے۔ ترکوں اور کردوں کی کشمکش تو دو سال سے چل رہی ہے۔ امریکہ کی شام میں موجودگی کے باوجود ترکی نے کردوں سے شمالی مغربی علاقہ چھین لیا اور اس پر اپنے حامی جنگجوئوں کی حکومت بنا دی۔ مشرق اور جنوب مشرق میں کرد ریاست البتہ امریکی چھتر چھائوں میں خوب پھلی اور پھولی۔ ترکی نے بھی "سرخ لکیر" عبور نہیں کی اور فرات کے مشرق میں کرد حقیقت کو باامر مجبوری تسلیم کر لیا لیکن اب جبکہ مجبوری کا امر رخصت ہو چکا ہے تو دیکھئے، ترکی نے کیا اعلان کر دیا۔ کہا، ہم کردوں کو ان کے مورچے میں دفن کر دیں گے۔ ترکی کے صدر طیب اردوان اسلامی نعروں کی گونج میں برسر اقتدار آئے تھے اور وہ ترکی کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے ترکی کے کردوں کو عدیم المثال حقوق دیے۔ لیکن شام کی جنگ نے سب کچھ بدل دیا۔ کردوں کے معاملے میں اردوان اتنے تلخ ہیں کہ لگتا ہے، کوئی اسلامی، جمہوری یا سیکولر حکمران نہیں، بلکہ انتہا پسند نسل پرست لیڈر ہے۔ جو مخالف نسل کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے پر تلا ہوا ہے۔ کرد ریاست کے لئے اب دو خطرے ہیں۔ شمال سے ترکی، جو کم از کم فرات کے ساتھ ساتھ کے سارے علاقے سے کردوں کا انخلا چاہے گا اور جنوب سے داعش جو شام کے مشرقی اور جنوبی صحرائوں کے کئی علاقوں میں اپنی مضبوط کمیں گاہیں۔ بنائے ہوئے ہے اور بعض رپورٹوں کے مطابق اس کے پاس کم و بیش30ہزار جنگجو موجود ہیں۔ داعش کمزور ریاست ہے بار بار حملے کرتی رہی ہے لیکن ہر حملے کا جواب امریکی فضائیہ نے دیا اور اس کی پیش قدمی ناکام بنا دی۔ اب کرد ریاست کو یہ سہولت میسر نہیں رہی۔ روس بھی داعش کا دشمن ہے لیکن شاید امریکہ جتنا پرجوش نہیں۔ وہ شامی حکومت کے تحفظ کے لئے فوری حرکت میں آتا ہے۔ کرد ریاست سے اس کی دلچسپی کتنی ہو گی؟ امریکہ سے کم ہی ہو گی۔ دوسرے جنگجو اور جہادی گروپ جو شامی فوج پر حملے کرتے رہتے ہیں، ان کی پوزیشن پہلے ہی جیسی رہے گی۔ انہیں روسی فضائیہ کا سامنا تھا اور آئندہ بھی رہے گا۔ لیکن ان کی جو قوت خود کو کردوں سے بچانے پر صرف ہوئی تھی، اب شامی فوج پر حملوں کے لئے فارغ ہو گی۔ یعنی اب جنگ کا نیا دور شروع ہو گا۔ ٭٭٭٭٭افغانستان کا معاملہ بھی دلچسپ ہے۔ امریکہ کی 14میں سے سات ہزار فوج جون میں نکل جائے گی، باقی سات ہزار اس کے بعد۔ طالبان کو جو کابل حکومت سے مصروف جنگ ہیں اور کم و بیش 30سے35فیصد رقبے پر قابض ہیں، اس انخلاء سے اب کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ ان کی جنگ امریکی فوج سے شاید ہی کبھی ہوئی ہو۔ امریکی فوجیوں اور طالبان کی مڈبھیڑ پہلے بھی نہیں ہوئی تھی، اب بھی نہیں ہو گی۔ طالبان کو اصل مسئلہ امریکی فضائیہ سے تھا اور چند برسوں سے فضائیہ کا مطلب بڑی حد تک ڈرون طیارے ہیں۔ انخلا کی زد میں یہ ڈرون طیارے بھی آئیں گے؟ اگر نہیں آئیں گے تو جنگی اجزائے ترکیب میں کچھ زیادہ فرق کیسے پڑ سکتا ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہو گا کہ ایک فضا بن جائے گی کہ امریکہ پسپا ہو گیا۔ ایک خیال یہ ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان "ملی بھگت" والا کچھ نہ کچھ معاملہ ہوا ہے کیا دونوں نے ایک دوسرے کو جزوی قسم کا، این آر او دے دیا ہے؟ معاملے کا حتمی حل مخلوص حکومت کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے اور اس مخلوط حکومت کا امریکہ سے کوئی نہ کوئی دفاعی معاہدہ ضرور ہو گا۔ جب تک یہ نہیں ہوتا، خونریزی اسی طرح جاری رہے گی۔ پاک افغان سرحد پر معاملات میں خرابی آ سکتی ہے لیکن اس کا انحصار امریکی نیت پر ہے۔ ٭٭٭٭٭لاہور میں دو اڑھائی ماہ سے کچرے کوڑے کے ڈھیر نمودار ہونے شروع ہوئے اور اب بڑھتے ہی جا رہے ہیں، لیکن انہیں دیکھ کر جو کوفت ہوتی تھی، وہ گزشتہ روز خاں صاحب کی لاہور آمد کے مناظر دیکھنے کے بعد بحمد للہ رفع ہو گئی۔ واللہ، کیا شان و شوکت والے نظارے تھے۔ اردگرد کے تمام علاقے سڑکیں بند، جا بجا قناتیں لگی ہوئیں، چڑیا کو پر مارنے، چیونٹی کو دم ہلانے کی مجال نہ تھی ایک سلیمان عالی شان ہوا کرتے تھے، ترکی والے، عمران عالی شان کو دیکھ پاتے تو اپنی عالی شانی سے دستبردار ہو جاتے۔ ویسے پروٹوکول ذرا بھی نہیں تھا۔ وجہ یہ ہے کہ ان دنوں یہ لفظ استعمال ہی نہیں کیا جانا، اس کے بجائے اور "سیکورٹی انتظامات" کہا جاتا ہے۔ اچھی بات ہے اخبارات میں اس سکیورٹی پروٹوکول کی خبر نہیں آتی۔ اس حکومت کی "انکساری" سمجھئے۔ ٭٭٭٭٭وزیر اعظم پنجاب حکومت کے سو روزہ جشن پر تشریف لائے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے تقریب کے عنوان سے قوم سے ایک اور خطاب کیا۔ چار سو دنوں میں آپ کا یہ غالباً سوواں قومی خطاب تھا۔ فرمایا، تجاوزات کے خلاف مہم سے غریب عوام کو فائدہ ہوا۔ بے شک۔ رپورٹیں ہیں کہ بارہ لاکھ افراد اب تک "فائدے" کی لپیٹ میں آ چکے ہیں اور ان دنوں "دعائیں " دینے کے سوا نہیں کچھ مصروفیت نہیں ہے۔ فرمایا ہر شے سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں، احتساب سے نہیں لیکن اگر اپوزیشن 18ویں ترمیم اور صدارتی نظام کے لئے ترامیم پر تیار ہو جائے تو…؟ تو حکومت پھر بھی اپنی جگہ پر رہے گی، ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔