Super Genius Hukumat
Abdullah Tariq Sohail70
آتی ہوئی بلا کچھ دنوں کے لیے ٹل گئی ہے یعنی فی یونٹ بجلی پونے چار روپے مہنگی کرنے کا فیصلہ چند دن کے لیے ملتوی ہو گیا ہے۔ اب دیکھئے، عام آدمی کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ عام آدمی کو اقتصادیات کی زبان میں بکرا کہتے ہیں۔ خبر ہے کہ پونے چار روپے یونٹ میں اضافے سے حکومت کو ہر ماہ چار سو ارب روپے کا ریونیو ملے گا۔ یہ بات ہے تو پھر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی کیا ضرورت ہے۔ سال بھر میں بہت بڑی رقم اکٹھی ہو جائے گی اور صرف یہ نہیں، خبر ہے کہ لاڈویژن نے 6ہزار اشیا پر اضافی ڈیوٹی عائد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ اضافہ 50فیصد ہو گا۔ اس سے 182ارب روپے کی وصولی ہو گی۔ اضافی ڈیوٹی میں پچاس فیصد اضافے سے بذات خود تاریخ رقم ہو گی۔ ٭٭٭٭٭بھٹو صاحب غیر معمولی ذہین سیاستدان تھے۔ ان کے حامی انہیں جینئس اور مخالف ایول جینئس کہتے تھے۔ جینئس ایسے ذہین آدمی کو کہتے ہیں جسے وہ سوجھے جو کسی اور کو نہ سوجھ سکے۔ بھٹو صاحب نے اپنے دور حکومت میں کئی اچھی، کچھ بری باتوں سے ثابت کیا کہ ہاں، وہ جینئس ہیں اور ایول جینئس بھی۔ موجودہ حکمرانوں کو محض جینئس کہنا زیادتی ہوگی۔ یہ تو وہ سپر جینئس ہیں کہ انہیں جو سوجھتی ہے، کسی اور کو وہ خواب میں بھی نہیں سوجھ سکتی۔ مثلاً اسی خبر کو لے لیجئے کہ شادی ہال پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ یہ خبر اخبارات میں پہلے تو نظر نہیں آئی۔ یا تو چھاپی ہی نہیں گئی یا اگر کہیں چھپی بھی تو نظر نہیں پڑی۔ خبر کا پتہ ایک فالو اپ خبر سے چلا کہ شادی ہالز نے اس ٹیکس کو عدالت میں چیلنج کر دیا ہے لیکن یہ کار نامہ شہباز حکومت کا تھا۔ ٭٭٭٭٭ٹیکس لگا کر بھی خسارے کا گھر پورا نہ ہوا تو کیا ہو گا۔ ہم لوگ معاشیات جانتے ہیں نہ اس کی خبروں میں کبھی دلچسپی لی ہے اور یہی حال بہت سے دوسرے عام لوگوں کا ہے لیکن کیا ہے کہ شاعر نے کہا ہے عہم کو دعائیں دو تمہیں قاتل بنا دیایہاں عام آدمی قاتل تو کیا بنے گا "مقتولین" میں شامل ضرور ہے اور اس کی دلچسپی معاشی خبروں میں بڑھ گئی ہے۔ سنگل کالمی خبر بھی ڈھونڈ کر پڑھتے ہیں اور جس خبر کا ذکر ہونے والا ہے۔ وہ تو پھر بھی تین کالمی سرخی کے ساتھ چھپی ہے۔ موجودہ حکومت کے 55دنوں میں ملکی معیشت کو 27ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ہر روز 94ارب 59کروڑ کا خسارہ خبر کے مطابق یہ خسارہ سٹاک مارکیٹ، زرمبادلہ، تجارتی خسارے، کرنٹ اکائونٹ اور ڈالر کی مدوں میں ہوا۔ لگتا ہے خبر نگار نے مبالغہ کیا۔ بلا شبہ موجودہ حکومت باکمال ہنر مندوں کی ہے اور ان کے شاہکار کا کوئی نہ کوئی ہنر سامنے آتاہے لیکن پھر بھی 27ارب ڈالر کا خسارہ کچھ زیادہ لگتا ہے۔ اتنا نہیں زیادہ سے زیادہ 26ارب ڈالر کا ہوا ہو گا۔ فکر مندی کی کوئی بات نہیں۔ دس ارب ڈالر آئی ایم ایف سے مل جائیں گے۔ پیچھے صرف 6ارب ڈالر کا گھاٹا رہ جائے گا۔ اسے تو ہم ٹیکسوں کا سونامی لا کر چٹکی بجائے دور کر لیں گے۔ یوں معاشی استحکام کی وہ منزل حاصل ہو جائے گی جس کا خواب، خواب دیکھنے والی مجاز ہستیوں نے 2014ء میں دیکھا تھا۔ سپر جینئس حکومت کی جے ہو…!٭٭٭٭٭مرحوم حبیب جالب کی صاحبزادی محترمہ طاہرہ حبیب جالب نے سوشل میڈیا پر فریاد کی ہے کہ ان کے اڑھائی مرلے کے گھر کا بجلی کا بل 75ہزار روپے آ گیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ میرے گھر اے سی ضرور ہے لیکن کبھی چلایا نہیں کہ زیادہ بل دینے کی ہمت نہیں لیکن اب اس 75ہزار کے بل کی ادائیگی کیسے کروں؟ محترمہ، آپ نے سنا ہو گا کہ پرکھوں کے کرم جو پھل دیتے ہیں وہ ان کی سنتان کو کھانا پڑتے ہیں۔ آپ کے والد ہی تھے نا، جنہوں نے نجات دھندہ اول ایوب خان کے خلاف نظمیں لکھ کر لوگوں کو بھڑکایا تھا۔ پھر ضیاء الحق مرد حق کے خلاف بھی نظمیں لکھیں۔ یہ ان کے کرموں کے پھل ہیں جو 75ہزار بل کی صورت آئے ہیں۔ اب نوش فرمائیے، شکوہ مت کیجئے۔ ٭٭٭٭٭ایک ہفتے میں کم از کم پندرہ سولہ کالم لوگوں نے ایک معمولی واقعے پر لکھ ڈالے۔ معمولی سا واقعہ یوں تھا کہ نیب والوں نے تین یونیورسٹیوں کے سابق وائس چانسلرز ڈاکٹر اکرم چودھری، ڈاکٹر مجاہد کامران اور ڈاکٹر علقمہ کو ہتھکڑیاں لگا دیں اور تقریباً دھکیلتے ہوئے انہیں حوالات سے کچہری لائے۔ کہا گیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی تعلیمی خدمات ہیں۔ خاص طور پر ڈاکٹر اکرم چودھری کی جنہوں نے سرگودھا یونیورسٹی کو اتنی ترقی دی اور اخراجات اتنے سستے کئے کہ سرگودھا شہر علم بن گیا۔ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اکرم چودھری مشنری مسلمان اور نہایت صاحب تقویٰ ماہر تعلیم اور صاحب علم ہیں۔ وغیرہ وغیرہ… تو بھئی، یہ سب کیا، تو اس میں ایسی کیا بات ہے کہ انہیں ہتھکڑیاں نہ لگائی جائیں۔ یہ بتائیے انہوں نے قومی مفاد کے لیے کیا کیا؟ کیا انہوں نے چار چار پانچ سو بندے قتل کئے؟ کیا انہوں نے بھتہ سنٹر کھولے؟ کیا انہوں نے چائنا کٹنگ کی؟ کیا انہوں نے شہر میں جوئے خانوں، چرس اور کوکین کے اڈوں کا جال بچھایا؟ ایسا کچھ بھی نہیں کیا تو کس منہ سے رعایت مانگ رہے ہیں۔ ماہر تعلیم کیا ہوتا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ کاش انہوں نے رائو انوار کو مشعل راہ بنایا ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ ٭٭٭٭٭بھارتی ریاست یو پی کے مکھ منتری آدتیہ ناتھ یوگی دھرم کے ماجرے میں کٹڑ پنتھی ہیں۔ پورے کے پورے دھارمک"ماس مچھی" کھاتے ہیں نہ کسی کو کھانے دیتے ہیں۔ جیوہتھیا کے بہت ورودھی ہیں۔ بڑا پشو تو ایک طرف مکھی، مچھر، بھنگے کو مارنا بھی مہا پاپ اور کٹھورتا سمجھتے ہیں۔ ہاں، مسلمانوں کا ماس کھانے کو برا نہیں سمجھتے، اسے تو پینہ مانتے ہیں۔ مسلمانوں سے الرجی ہے تو الٰہ آباد کے نام سے کیوں نہ ہوتی۔ الٰہ مسلمانوں کے دھرم کی یاد دلاتا ہے تو آباد ان کی زبان(فارسی) کی۔ چنانچہ اب اس مشہور اور تاریخی شہر کا نام بدل کر پریاگ راج رکھ دیا۔ پریاگ یعنی قربان گاہ(بھینٹ استھان) الٰہ آباد ہندوئوں کے لیے بہت خاص ہے۔ تین مقدس دریا یہاں آ کر ملتے ہیں۔ اس لیے اس جگہ کو سنگم بھی کہا جاتا ہے۔ دو دریا تو گنگا اور جمنا ہوئے، تیسرا خیالی دریا سرسوتی ہے جو زیر زمین ہے۔ یہیں ہر چوتھے سال کنبھ کا میلہ ہوتا ہے جس میں چار کروڑ یاتری آتے ہیں۔ یہ ریاست کا جزوی طور پر دارالحکومت بھی ہے(پورا دارالحکومت لکھنؤ ہے) یہاں ریاستی ہائی کورٹ لگتی ہے اور کئی دوسرے دفاتر بھی۔ مسلمانوں کا اس شہر کی ڈیمو گرافی اور ثقافتی تاریخ میں اہم حصہ ہے۔ دس بارہ لاکھ کی آبادی میں چودہ پندرہ فیصد مسلمان ہیں۔ بہت سے مشاہیر بھی پیدا ہوئے ہیں۔ یہ ان شہروں میں شامل ہے جہاں مسلمان اور ہندو بڑی حد تک ہم آہنگی سے رہتے ہیں۔ آدیتہ ناتھ کا بس چلے تو تاج محل (جو یو پی ہی میں ہے) کا نام بھی بدل کر مکھٹ بھون رکھ دیں۔ خیر، ہمیں زیادہ احتجاج نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ کام ہم نے پاکستان میں بھی بہت کیا ہے(نام بدلنے کا)