Vision Kuala Lumpur Main
Abdullah Tariq Sohail89
جس اینکر ڈاکٹر نے قصور کے قاتل کے 37غیر ملکی بنک اکائونٹس اور ان میں پڑی اربوں ڈالر رقم کا سراغ لگایا تھا۔ اس نے گزشتہ رات یہ اطلاع دی ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لگنے والی ہے۔ اس نے بعض کا لفظ استعمال نہیں کیا لیکن مطلب واضح ہے۔ پابندی لگانے والے جن گروہوں کو سیاسی جماعت سمجھتے ہیں، انہی پر پابندی لگے گی۔ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کو وہ "بوجوہ" سیاسی جماعت نہیں سمجھتے۔ یعنی کچھ اور سمجھتے ہیں تو ان پر پابندی کا تو سوال ہی نہیں۔ اطلاع غلط ہونے کا بظاہر زیادہ امکان ہے کہ موصوف کی ایک ہزار میں سے دس سو اطلاعات غلط ہی نکلتی ہیں لیکن اتفاق سے اسی روز کوالالمپور میں ہمارے شہ خوباں نے خطاب فرمایا۔ اس سے کچھ تائیدی تاثر ملا یعنی یہ اندازہ ہوا کہ کوئی کھچڑی یا کھچڑا کہیں نہ کہیں ضرور کھد بد کر رہا ہے۔ شہ خوباں نے فرمایا کہ ان میں سے (یعنی میرے مخالفوں سے) ایک ایک کو جیل میں ڈالوں گا۔ مطلب محض پابندی ہی نہیں، اس بار انہیں ان کے گھروں پر بیٹھا رہنا بھی نصیب نہیں ہو گا۔ گلیاں محاورتاً نہیں سچ مچ سنجیاں کرنا مطلوب ہے۔ پھر شہ خوباں پورے امن و سکون، طرب و نشاط کے ساتھ جملہ اقسام کی بانسریاں بجائیں گے۔ بجا۔ لیکن پھر وہی بات سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں۔ اس مصرع کا سلیس زبان میں ترجمہ"کل کس نے دیکھا" کہا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭شہ خوباں کا دورہ ملائشیا وقت کی ضرورت تھا۔ صد شکر کہ یہ ضرورت پوری ہو گئی۔ ملائیشیا سے ہمارا ایسا گہرا دوستانہ نہیں رہا چنانچہ وہاں کے عوام کی اکثریت نہیں جانتی تھی کہ پاکستان کیسا کرپٹ ملک ہے اور اس کے جمہوری، دینی، لبرل عناصر کس حد تک کرپٹ ہیں۔ ضروری تھا کہ اہل ملائیشیا کو یہ سب شرح و بسط کے ساتھ بتایا جاتا۔ شہ خوباں نے اپنے خطاب میں ضروری شرح اور مناسب بسط کے ساتھ ملائیشیا والوں کی یہ تشنگی معلومات دور کر دی اسے کہتے ہیں لیڈر شپ، یہ ہوتا ہے وژن!٭٭٭٭٭ملائیشیا جانے سے پہلے شہ خوباں نے اسلام آباد میں سیرت کانفرنس سے خطاب فرمایا اور اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ دین کے ٹھیکیداروں کو حضورؐ کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں۔ دین کے ٹھیکیدار کون ہیں؟ ظاہر ہے مراد مسلم لیگ ہے نہ پیپلز پارٹی۔ اشارہ واضح ہے۔ شہ خوباں نے جو کہا، ٹھیک کہا اور انہیں یہ بات کرنے کا حق بھی تھا کہ گھر میں مولانا روم اور ابن عربی سے کہیں زیادہ علوم کے ڈھیر لگے ہیں۔ اشارہ کس کی طرف تھا۔ کچھ احباب کا خیال ہے کہ اشارے کا زیادہ رُخ ان لوگوں کی طرف تھا جن سے حال ہی میں شہ خوباں اور ان کی ریاستی رٹ کو زک اٹھانا پڑی۔ بہرحال، اشارہ عام ہو یا خاص، مناسب ہے اور وقت کی ضرورت بھی کہ علمائے کرام کو دین اور سیرت کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے جامع العلوم بنی گالہ میں درس رشد کا اہتمام کیا جائے۔ قبلہ نعیم الحق، مراد سعید، فیصل واڈوا، فواد چودھری، فیاض چوہان، بابر اعوان جیسے شیوخ پی ٹی آئی میں کثرت سے ہیں۔ ان معلمان دین و اخلاق کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا ہی بے خبر لا علم افراد کے لئے راہ صواب ہے جس پر چل کر وہ اپنے جہل سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے پاکستان مخالف اظہار خیال پر ایک بار تو ہمارے یہاں خوب بے چینی ہوئی اور تشویش بھی کہ پتہ نہیں اب کیا ہو گا۔ حالانکہ تشویش کی کوئی ضرورت ہے نہ وجہ۔ ہمارے ان کے معاملات جیسے چل رہے تھے، ویسے ہی چلتے رہیں گے اور اب بھی چل رہے ہیں کسی کو شبہ ہو تو اگلے روز امریکی محکمہ دفاع کا بیان پڑھ لے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حسب سابق سب اچھا ہے حسب سابق سب اچھا رہے گا۔ تعاون جاری ہے۔ تعاون جاری رہے گا۔ فلم میں بعض اوقات غیر ڈرامائی سین کے دوران پس پردہ میوزک کی دھن ڈرامائی ہو جاتی ہے۔ ٹرمپ و عمران کے ٹویٹس کو بس اسی طرح کی بیک گرائونڈ موسیقی سمجھئے۔ حقوق و فرائض کی تقسیم بالکل حسب اوقات برقرار ہے پھر بھی شبہ رہے تو شاہ محمود قریشی کے ملفوظات پڑھ لیں فرمایا ہے ہم امریکہ کے شکوے دور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ٭٭٭٭٭ٹرمپ کا ٹویٹ جس روز آیا اس روز کے سبھی چینلز نے یہ ٹکر چلایا۔ ٹرمپ کو پاکستان کا کرارا جواب اور اگلے روز اخبارات کی سرخیوں میں بھی کرارے جواب کا تذکرہ تھا۔ لیکن تین چار دن گزر گئے، کرارے جواب کا فالو اپ سامنے نہیں آیا۔ کرارا جواب تو یہی ہو سکتا تھا کہ تم نے ہماری امداد بند کر دی۔ یہ لو ہم تمہارا "روٹ" بند کر رہے ہیں۔ وہی نیٹو سپلائی کا روٹ، بلکہ کے روٹ۔ لیکن روٹ تو حسب معمول کھلا ہے کہیں سپیڈ بریکر بھی نہیں۔ کوئی سگنل چوراہا بھی نہیں، سیدھا ہموار صاف سگنل فری روٹ۔ شاید "تبدیلی" والے پاکستان میں کرارے جواب کا مطلب کراری ڈش ہو؟ ٭٭٭٭٭شہ خوباں نے کرارے جواب، میں فرمایا کہ اب ہم وہی کریں گے جو ہمارے مفاد میں ہو گا۔ کیا مطلب، کیا یہ مان لیا کہ اب تک جو کچھ کرتے رہے ہیں، وہ ہمارے مفاد میں نہیں تھا؟ حکومتی جماعت کے بعض ارکان نے بھی کہا ہے کہ ہم اتنا عرصہ امریکہ کی جنگ لڑتے رہے۔ اس عرصے میں جتنوں نے یہ بات کہی کہ یہ امریکہ کی جنگ ہے غیر محب وطن کہلائے اب یہی بات حکمران جماعت کہہ رہی ہے تو ان غیر محب وطن قرار پانے والوں کے بارے میں اب کیا حکم ہے؟ فرمایا تو دفتر خارجہ نے بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ اگر کوئی اور فرماتا تو غدار قرار پاتا اور بہت سے تو خیر پا بھی چکے۔ دفتر خارجہ نے فرمایا، ہمارے ہی تعاون سے اسامہ پکڑا گیا۔ حیرت کا مقام ہے۔ پھر ایبٹ آباد کمشن اور اس کی رپورٹ کس حساب میں رکھی جائے گی؟