Wazeh Aor Dhundli Tasveer
Abdullah Tariq Sohail77
وزیر اعظم کی زبان صدق بیاں سے اعلان صادر ہوا ہے کہ ملک بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ لفظ "بدترین" کی نغمگی پر سر دھنیے یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اس "بدترین" کی ذمہ داری سابقہ حکومت پر ہے جو محض 16ارب ڈالر کا "خالی خزانہ" چھوڑ کر گئی اور جو ڈالر کی قیمت 56روپے پر نہیں لا سکی۔ بس سو کے پھیر میں رہی(نواز شریف کے جانے تک یہی صورتحال تھی) اور جس نے لوڈشیڈنگ کا "مصنوعی" خاتمہ کیا اور جس نے مہنگائی پر بھی "مصنوعی" قابو پائے رکھا۔ ایک طالب علم نے امتحانی پرچہ بالکل خالی چھوڑ دیا، ایک سطر نہ لکھی۔ ممتحن نے اسے صفر نمبر دیا۔ طالب علم نے احتجاج کیا کہ "سر صفائی" کے دس نمبر تو دیتے" شکوہ سچ تھا، اتنی صاف صفائی کسی اور طالب علم کے پرچے میں نہیں تھی۔ خان صاحب کی حکومت کو بھی داد دینی چاہیے کہ کس صفائی اور بے مثال فنی مہارت سے ملک کو ایسے معاشی گرداب میں ڈالا ہے کہ اب ایک کیا، دو دو اسحاق ڈار آ جائیں تو بھی شاید ہی کچھ کر سکیں۔ ٭٭٭٭٭آنے والے دور کی اک دھندلی سی تصویر سٹیٹ بنک نے دکھا دی ہے۔ اتنی بھی دھندلی نہیں ہے۔ نقش و نگار واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پوت کے پائوں پالنے میں نظر آ جاتے ہیں۔ لیکن اب تبدیلی آ چکی ہے اور وہ یہ کہ پورے کا پورا پوت ہی صاف دکھائی دے رہا ہے، لمبے دانتوں، نوکیلے کانوں، کھلے اور باریش ہاتھوں سمیت۔ ہالی وڈ کی ایک ڈرائونی فلم"نائٹ میئر ان ایلم سٹریٹ" نے دنیا کو ڈرانے میں خوب نام کمایا تھا۔ یہ ایک فلم نہیں تھی، پوری سیریز تھی۔ اب ہم نائٹ میئران گاڈگیون God givenسٹیٹ نامی سیریز کے مشاہدے سے گزر رہے ہیں۔ وہ فلم دیکھنے لوگ خود سینما جاتے تھے۔ یہ فلم دکھانے کے لیے تبدیلی مووی ٹون اپنا تھیٹر لے کر ہمارے گھروں میں گھس آیا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ آنے والے ایک دو مہینوں میں مہنگائی کی چکی دوگنی رفتار سے چلے گی۔ کھانے کا توازن مزید خراب ہو گا اور اقتصادی شرح نمو 4.7فیصد یا اس سے کچھ اوپر رہے گی۔ شرح نمو کا ہدف گزشتہ لوٹ مار کی سرکار نے 6.2فیصد رکھا تھا۔ سٹیٹ بنک نے امید ظاہر کی ہے کہ مہنگائی کی شرح 6.5سے 7.5فیصد کے درمیان رہے گی۔ اوسط نکالیں تو یہ 7فیصد بنتی ہے۔ ٭٭٭٭٭آصف زرداری اپنی اچانک حرکات و سکنات کی وجہ سے مرکز توجہ بن گئے ہیں۔ ایک روز پہلے کا بیان کئی لوگوں نے سرسری لیا لیکن اب لگتا ہے کہ بات سنجیدہ ہے۔ خاص طور سے ان کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے بعد کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گئی ہے۔ اگلے ہفتے آل پارٹیز کانفرنس بلالی گئی ہے۔ فی الحال تو کچھ لوگوں کے پاس یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ یہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی کوشش ہے اور دلیل ان کی یہ ہے کہ اگلے چند دنوں کے بعد یہ سارے اندر ہوں گے۔ نواز شریف کی سزا معطلی کا فیصلہ معطل کرانے کے لیے نیب نے درخواست کر دی ہے۔ منی لانڈرنگ والی داستان بہت ہوشربا ہے لیکن کھرا زرداری تک نہیں کھینچ رہا۔ لیکن تدبیر کا ٹاکرا تقدیر سے ہو گیا تو۔؟ بہرحال زرداری صاحب نے متحدہ اپوزیشن کی داغ بیل ڈالنے کی رسم بسم اللہ تو ادا کر دی اور یوں ساتھ ہی یہ بھی مان لیا کہ سنجرانی ماڈل جمہوریت کے لیے جو تعاون انہوں نے کیا، اس کا صلہ حسب وعدہ نہیں ملا۔ صلہ کیا، الٹا سبق سکھانے کا عمل جاری ہے۔ مسلم لیگ نے زرداری کے اس "تعاون" کا گلہ کچھ زیادہ نہیں کیا جس کے بعد یہ ماڈل جمہوریت کا سامنے آیا تو اس کی بھی وجہ ہے۔ اس نے بھی کسی صلے کی امید میں زرداری صاحب پر پڑنے والی افتاد پر، اپنے دور میں چپ سادھ لی تھی اور وعدہ وفائی ان سے بھی نہیں ہوئی۔ کام نکالنے کے بعد ان کا بھی دھڑن تختہ کر دیا گیا۔ اپوزیشن کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور کیا کر سکتی ہے کیا نہیں، اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ بدترین معاشی بحران کے بعد استحکام کا بدترین، بھی سامنے کھڑا ہے۔ ایک ریٹائرڈ بزرگوار نے فرمایا ہے کہ جو محب وطن حلقے اس حکومت کے پیچھے کھڑے ہیں۔ وہ بھی "بدترین" پر خاصے پریشان ہیں ع"ہائے اس زود"پریشان" کا "پریشان" ہونا٭٭٭٭٭ایک نہایت غیر اہم خبر یہ ہے کہ پنجاب کے سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ پر جو ریفرنس بنا ہے، وہ "کروڑوں روپے کے اثاثوں " کا ہے۔ ڈاکٹر عاصم کی کہانی بھی اربوں کھربوں سے شروع ہوئی تھی۔ لاکھوں کروڑوں سے ہوتی ہوئی عملاًقصہ پارینہ بننے والی ہے۔ احد چیمہ کی داستان بھی اربوں کھربوں سے شروع ہوئی تھی، کروڑوں تک آ گئی۔ پتہ نہیں کیوں، نواز دور حکومت میں پیپلز پارٹی سندھ کے رہنمائوں کے بارے میں اربوں کھربوں کی کرپشن کی داستانیں یاد آ گئیں۔ باوثوق بلکہ چشم دید گواہوں نے بیانات دیے تھے کہ سونے اور کرنسی سے بھری لانچیں پکڑی گئی ہیں۔ وہ لانچیں دیدار عام کے لیے کبھی نہ رکھی گئیں۔ نہ یہ بتایا گیا کہ وہ پکڑا جانے والا سونا اور اربوں کے نوٹ کدھر گئے۔ قومی خزانے میں جمع ہوئے یا مال حرام سمجھ کر سمندر برد کر دیے گئے۔ بہرحال مذکورہ بالا ریفرنس سے ایک اور نہایت غیر اہم خبر یہ برآمد ہوئی کہ احد چیمہ کے وعدہ معاف گواہ بننے کی کہانی بھی انجام کو پہنچی۔ خبر سچ ہوتی تو ریفرنس کیوں بنتا۔