Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Zardari Sahab Ki Farmodat Aor Mazi Qareeb Ki Khidmaat

Zardari Sahab Ki Farmodat Aor Mazi Qareeb Ki Khidmaat

سابق صدر آصف زرداری دو تین روز سے گرم گفتار ہیں، آئین جمہوریت اور وفاق کے بارے میں اصولی باتیں فرما رہے ہیں، کہہ رہے ہیں کٹھ پتلیاں حکومت نہیں چلا سکتیں۔ بتا رہے ہیں کہ "باغبانوں " نے جو پودا لگایا ہے، وہ پھل نہیں دے رہا۔ اصولی باتیں بجا، پودے کے بارے میں پھل نہ دینے والی بات غلط ہے۔ دنیا میں ایسا کوئی پودا ہے ہی نہیں جو پھل نہ دے۔ ہر پودا پھول بھی لاتا ہے اورپھل بھی۔ مثال کے طور پر کیکٹس ہی کو دیکھ لیجئے، کتنے خوشنما پھول کھلتے ہیں، صحرا میں تبدیلی کی بہار آ جاتی ہے اور پھر یہی پھول جب پھل میں بدلتے ہیں تو کچھ نہ پوچھئے ایسا ایسا ہینڈسم اور ڈیشنگ پھل لگتا ہے کہ اہل ذوق کے منہ میں پانی آ جائے۔ لیکن کیا کیجئے، ذوق ہی خراب ہے، اتنے دیوتا سمان پھل کی کوئی قدر ہی نہیں۔ کھانا تو کجا، کوئی ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کرتا۔ گویا معاملہ بدذوقی اور ناشکری کا ہے، پھل کی غلطی ہے نہ باغبانوں کا قصور، زرداری صاحب کم سے کم باغبانوں کے بارے میں تو انصاف سے کام لیں۔ ٭٭٭٭٭زرداری صاحب کہتے ہیں، انتخاب شفاف نہیں ہوئے، شفاف ہوتے تو کٹھ پتلا صاحب کے بجائے کوئی اور وزیراعظم ہوتا۔ پاکستان میں ہر بار مذاق ہوا۔ کوئی نہ کوئی لکڑی لے کر آ جاتا ہے اور ملک پندرہ سال پیچھے چلا جاتا ہے۔ پندرہ سال والی بات تو پرانی نہیں ہو گئی؟ اس لیے کہ اس بار تو یہ سفر معکوس ایک سو پندرہ سال کی جست لگاتا ہوا لگ رہا ہے۔ کل ہی ایک صاحب کہہ رہے تھے، ڈالر ایک سو چالیس روپے کا ہو گیا ہے اور عالمی ادارے کی پیش گوئی ہے کہ نئے سال کے آخر میں یہ ڈیڑھ سو روپے کا ہو جائے گا۔ اس پر دوسرے صاحب نے کہا، عالمی نجومیوں کی بات غلط نکلے گی۔ اس لیے کہ ڈالر جون جولائی سے پہلے ہی اتنی قیمت کا ہو جائے گا۔ مہنگائی تو فراٹے بھر ہی رہی ہے اور بھی کتنی ہوائیں ہیں جو واپسی کے سفر کو سبک رفتار بنا رہی ہیں۔ بیروزگاری کی مردم شماری دن اور رات کے حساب سے بڑھائی جا رہی ہے۔ سہولتیں واپس لی جا رہی ہیں، صعوبتیں لادی جا رہی ہیں اور ماشاء اللہ سے جرائم کی رفتار بھی اچانک ہی بڑھنے لگی ہے، اگرچہ مثبت رپورٹنگ کے ہدایت نامے کا احترام کرتے ہوئے میڈیا اس غیر متوقع "ترقی" کو زیادہ اجاگر نہیں کر رہا۔ ٭٭٭٭٭اطلاع تو یہ بھی آ رہی ہے کہ ایک اور نیا منی بجٹ لایا جارہا ہے۔ چار مہینے میں دو منی بجٹ گویا ہر دو مہینے بعد ایک منی بجٹ اور سال میں چھ منی بجٹ۔ دنیا بھر میں دھوم ہی مچ جائے گی۔ کہتے ہیں، تنخواہ داروں سے اضافی مراعات واپس لی جائیں گی، بعض کی آدھی کم کردی جائیں گی۔ مراعات سے مراد شاید ہائوس رینٹ وغیرہ جیسی مدیں ہیں۔ گویا تنخواہ آدھی رہ جائے گی۔ پھر تو گنجی منڈی ہی منڈائے گی۔ شاید ایک ہی شے پر دو دو ٹیکس بھی لگ جائیں۔ جیسے تندور کی روٹی پر ایک ٹیکس خریدنے کا، پھر دوسرا ٹیکس اسے کھانے کا۔ کیسا بھی سوکھا پڑے، ہرے بھرے جنگل کو سوکھنے میں وقت تو لگتا ہے۔ یہاں تو معاملہ کچھ یوں ہے کہ برسوں کا سفر لمحوں میں کٹ رہا ہے ؎یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیاکہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا٭٭٭٭٭زرداری صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ جھگڑا اٹھارویں ترمیم کا بھی ہے۔ اسے ختم کرنے پر تیار ہو جائوں تو کیس واپس ہو جائیں گے۔ لیکن محض زرداری صاحب کے ماننے سے کیا ہوگا۔ مسلم لیگ کوبھی تو منوانا پڑے گا۔ پھر ہی ترمیم کو ختم کرنے والی ترمیم پاس ہو سکے گی۔ گویا زرداری صاحب کی رضا میں مسلم لیگ کی رضا بھی جوڑنی پڑے گی۔ ویسے زرداری صاحب نے آئس برگ کا سراہی دکھلایا ہے۔ بات ترمیم سے آگے، صدارتی اور یک جماعتی نظام لانے کی بھی ہے۔ ایوب اور یحییٰ خان کے سنہرے دور کی بازگشت کی حسرت جو اب "عزم صمیم" بنتی جا رہی ہے۔ ٭٭٭٭٭باتیں زرداری صاحب کی ٹھیک ہیں لیکن وہ ایک دم ہی اصولوں کے لیے اتنے سرگرم کیوں ہو گئے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ گرفتاری کا ڈر ہے۔ حکمران جماعت کے تین رہنمائوں کے بیانات اس اطلاع کے ساتھ آ چکے ہیں کہ بہت جلد زرداری صاحب اندر ہوں گے۔ ادھر 24 دسمبر آنے میں بھی بس گنتی کے دن رہ گئے ہیں۔ اس روز نوازشریف کو لمبی قید ہونے کی اطلاع بھی حکمران حلقوں سے مل رہی ہے۔ یعنی دسمبر ختم ہونے تک دونوں بڑے لیڈر اندر ہوں گے، پھر مسلم لیگ کی پہلی صف والی قیادت کے سبھی لوگ بھی باری باری اندر کر دیئے جائیں گے۔ یہ اطلاع یعنی حکمران جماعت سے مل رہی ہے۔ اس کے بعد شاید ترمیم کا ٹنٹا نکالنا آسان ہو جائے۔ گویا تاریخ میں یہ نئی بات ہوگی کہ آئینی ترمیم یا آئین کی تشکیل نو میں "نیب" کی سہولت کاری فیصلہ کن ہوگی۔ جو ہورہا ہے، اس کی سہولت کاری کے لیے خود زرداری صاحب کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے چند ماہ پہلے سنجرانی ماڈل کے "معمار" کی ذمہ داری ادا کی تھی۔ ان دنوں جب زرداری صاحب خود کو باغبان سمجھ رہے تھے لیکن حقیقت میں وہ باغبانوں کے "زیراستفادہ" تھے۔ زرداری صاحب نے کیا کمایا؟ کچھ نہیں۔ سب سے بھاری کی سمجھ میں یہ بات بہت تاخیر سے آئی عبات سمجھنے میں بہت دیر کی٭٭٭٭٭زرداری صاحب نے دو تین روز خوب دھواں دھاری کی لیکن 16 دسمبر کو یاد نہیں کیا۔ اب یہ دن دو سانحات کی یاد دلاتا ہے۔ ایک ڈھاکے والا، دوسرا اے پی ایس سکول والا۔ زرداری صاحب نے ڈھاکے والی بات اس لیے نہیں دہرائی کہ اس کے پیچھے جو پردہ نشین تھے، ان میں پیپلزپارٹی بھی شامل ہے۔ جن لوگوں نے ڈھاکہ طشتری میں رکھ کر بھارت کو پیش کیا، ان میں سے ایک صاحب کو بھٹو مرحوم نے پنجاب کا گورنر لگا دیا۔ 16 دسمبر کا ذکر نوازشریف نے بھی محض سکول سانحے کی حد تک کیا، ڈھاکے والی بات بہت پرانی ہوگئی، سارا ملک ہی اسے بھول گیا، نوازشریف نے بھی بھلا دیا تو کیا تعجب۔ ڈھاکے کا سانحہ ہو یا سکول کا، دونوں میں ایک بات مشترک ہے یہ کہ دونوں کے ذمہ داروں پر پردہ پڑا رہے گا، حقائق کبھی سامنے نہیں آئیں گے۔