Zardari Sahib Per Teesra Shikanja
Abdullah Tariq Sohail72
اسرائیلی طیارے کی اسلام آباد آمد والی خبر پر حکومت نے کیا کہا؟ یہ کہ خبر غلط اور لغو ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کیا کہا؟ یہ کہ جہاز کی آمد تشویش ناک ہے۔ احسن اقبال اور شیری رحمن نے کیا کہا؟ یہ کہ حکومت دال میں کالے کو چھپا رہی ہے۔ آصف زرداری نے کیا کہا؟ یہ کہ سب کچھ ممکن ہے۔ اور قوم نے کیا کہا؟ قوم نے کچھ نہیں کہا، وہ چپ رہی۔ یہی بات سارے فسانے میں "حوصلہ افزا" ہے۔ خبر کی کچھ اہمیت نہیں۔ اس لیے کہ طیارہ آیا یا نہیں آیا، اس سے اس نظام الاوقات میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جو طے ہو چکا ہے اور جس کے تحت سعودی عرب، مصر، امارات، اومان اور پاکستان ایک پیج پر آ چکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور مشرق قریب میں بدنظمی اور بے ترتیبی دور کرنے کا وقت آ چکا ہے جو جو جب جب ہونا ہے، وہ وہ تب تب ہو ہی جاتا ہے۔ ہر امرکے لیے "اجلِ مسمیٰ" ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا، یہاں تک کہ عرب صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا مسئلہ بھی۔ یہ مسئلہ زندہ تو رہے گا لیکن مسئلہ نہیں رہے گا، ترکی کچھ دن اودھم مچائے گا اور بس۔ معاملات بہرحال درست ہونے ہیں۔ ٭٭٭٭٭اسرائیلی جہاز کی خبر سے زیادہ اہم تو چودھری نثار کا بیان ہے۔ کہا ہے کہ حالات مزید محاذ آرائی کی طرف بڑھ رہے ہیں، ملک کے مسائل بڑھ جائینگے۔ اس بیان کو نہ تو پیش گوئی سمجھا جائے نہ انتباہ۔ یہ محض اطلاع ہے۔ شادی کارڈ پر لکھا ہوتا ہے۔ پروگرام انشاء اللہ۔ چودھری نثار کے بیان کو بھی پروگرام انشاء اللہ کی طرح لیا جائے گا۔ ممکن ہے شدید محاذ آرائی ہی میں استحکام کا راز چھپا ہو، ہو سکتا ہے۔ مسائل کا بڑھ جانا ہی مسئلوں کا حل ہو۔ ٭٭٭٭٭زرداری لاہور میں تھے۔ فرمایا کہ معاملہ ٹریڈنگ اکائونٹس کا نہیں، سارا جھگڑا اٹھارہویں ترمیم کا ہے۔ ہم تو یہ بات سال بھر سے کر رہے تھے، زرداری صاحب نے اب کی ہے، پہلے ایک اطلاع یہ آئی تھی کہ ترمیم ایوان کے اندر سے نہیں، کہیں اور سے "اسٹرک ڈائون" کروائی جائے گی لیکن اب سنا ہے، اس میں کچھ قباحتیں ہیں، چنانچہ زرداری کی رضا مندی ضروری ہے۔ صدیوں کے محاصل کہیں اور لے جانے مقصود ہیں۔ اس کے لیے ابھی نیا بندوبست سوچا جا رہا ہے بلکہ شاید سوچ لیا گیا ہے۔ مہاجروں کے ووٹ کا حق عملاً لاپتہ ہے، ہر حلقے سے 20، 25ہزار اشرافیہ ووٹر سارے حلقے کی نمائندگی تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال رہے ہیں تو یہ اسی بندوبست کی ایک کڑی ہے۔ زرداری پر یہ تیسرا شکنجہ ہے۔ پہلا شکنجہ تب ڈھیلا ہوا تھا جب انہوں نے سنجرانی ماڈل کی تعمیر میں اپنے حصے کی ادائیگی کی تھی۔ تب انہیں کچھ غلط فہمی بھی ہو گئی تھی۔ اسی لیے فرمایا، میاں صاحب آنے والا وقت ہمارا ہے، آپ کو پنجاب بھی نہیں لینے دوں گا۔ چنانچہ مسلم لیگ سے نہ صرف سینٹ کی چیئرمین شپ چھنی بلکہ وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب سے بھی چھٹی ہو گئی لیکن لطیفہ یہ ہوا کہ آنے والا وقت "ہمارا" نہیں ہو سکا۔ دوسرا شکنجہ تب ڈھیلا ہوا جب زرداری صاحب نے صدارتی انتخاب میں مولانا فضل الرحمن کی جیت کا راستہ روکنے کے لیے اعتزاز احسن کو مقابلے سے دستبردار کرانے سے انکار کر دیا۔ زرداری کا خیال تھا کہ اب خیر ہے، لیکن یہ تیسرا شکنجہ آ گیا۔ ٭٭٭٭٭ایک قومی اخبار نے خبر دی ہے کہ خاں صاحب وفاقی کابینہ کی کارکردگی سے ناخوش ہیں۔ خبر بڑی مزے کی ہے، لکھا ہے انہوں نے صرف تین وزرا کی کارکردگی کو اطمینان بخش قرار دیا ہے۔ ان میں وزیر داخلہ پہلے نمبر پر ہیں، پھر وزیر خزانہ ہیں، ان کے بعد وزیر اطلاعات آتے ہیں۔ وزیر ریلوے، اپنے شیخ جی کی کارکردگی کا کوئی ذکر ہی نہیں جنہوں نے پہلے ہی مہینے، بقول ان کے ایک ارب کا منافع کما لیا تھا۔ مطلب یہ بھی نکلا کہ باقی چالیس بیالیس وزارتوں کی کارکردگی دس فیصد سے بھی کم ہے۔ خدا جانے یہ مقام ماشاء اللہ پڑھنے کا ہے یا الحمد للہ پڑھنے کا۔ ہمارے خیال میں تو انشاء اللہ کہنے کا ہے۔ ٭٭٭٭٭خبر تو بہرحال یہ بھی مزے کی ہے کہ وفاقی وزیر اعظم سواتی کے فون نہ سننے کی بنا پر اسلام آباد کے آئی جی جان محمد کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ تبادلہ کیا ہے تو آئین کی کسی شق، قانون کی کسی دفعہ کے تحت ہی کیا ہو گا اور میرٹ پر ہی ہو گا لیکن وجہ دلچسپ ہے۔ اسلام آباد میں سواتی صاحب کے محلات نما محل کے بازو میں ایک خیمہ بستی ہے۔ سواتی صاحب کو اپنے فردوس نظر محلات کے پہلو میں یہ گوشہ دوزخ نما بستی کھٹکتی ہو گی۔ انہوں نے بار بار آئی جی سے کچھ فرمائشیں کیں۔ آئی جی صاحب کے لیے یہ فرمائشات پورا کرنا مشکل تھا، یعنی وہی سوال کہ کس قانون کے تحت بہرحال سواتی صاحب نے خبر کے مطابق ان پر اتنا دبائو ڈالا کہ انہوں نے وزیر موصوف کی کال وصول کرنا ہی چھوڑ دیں۔ تبادلہ ہو گیا۔ جان محمد کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا یعنی جان کم از کم اس دبائو سے تو چھوٹی۔ اب نیا آئی جی آئے گا۔ دبائو کی اگلی قسط وہی بھگتے گا۔ دیکھئے اب خیمہ بستی کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ بہرحال اس بادشاہ کی کہانی یاد آ گئی جس کے محل کی زد میں ایک بڑھیا کی جھونپڑی آئی تھی۔ چلتے چلتے وزیر اعلیٰ پنجاب کا بیان پڑھ لیجئے۔ حکم صادر فرمایا ہے کہ کسی وزیر یا رکن اسمبلی کے کہنے پر کوئی تبادلہ نہ کیا جائے۔