بہت سے موضوعات پاکستان کے لوگوں کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ وہ ہماری بقا اور سلامتی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان پر بات نہیں کی جاتی۔ مثلاً ہماری زندگی اور تہذیب کا انحصاربہت حد تک دریائے سندھ اورا سکے معاون دریاؤں سے ملنے والے پانی پرہے۔ لوگوں کوسندھ کے بارے میں تو کچھ معلومات ہیں لیکن اسکے معاون دریاؤں کا ذکر ہمارے تعلیمی نصاب کی کتابوں تک میں نہیں۔ خاص طور سے وہ دریا اور ندیاں جو دریائے سندھ کے بالائی، پہاڑی مقامات پر واقع ہیں۔ ایسا ہی ایک اہم معاون دریا گلوان ہے جو چین میں اکسائے چن کے علاقہ میں قراقرم کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اور بھارت کے مقبوضہ لداخ میں جا کر ایک اور معاون دریا شیوک میں ضم ہوجاتا ہے۔ شیوک دریا ہمارے بلتستان میں آکر دریائے سندھ کا حصّہ بن جاتا ہے۔ ایسے وقت میں جب بھارت میں ہندو قوم پرست پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکنے کی منصوبہ بندی اور اقدامات کررہے ہیں ہمیں ان تمام ندیوں، جھیلوں اور چھوٹے دریاؤں کا علم ہونا چاہیے جو ہمارے بڑے دریاؤں کو پانی پہنچاتے ہیں۔
گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے چین اور بھارت کے درمیان جن مقامات پر سرحدی کشیدگی چل رہی ہے ان میں ایک جگہ گلوان وادی بھی ہے۔ گزشتہ سوموار کو یہاں دونوں افواج کے درمیان جھڑپ میں ایک کرنل سمیت تین بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔ گلوان ایک چھوٹا لیکن تیز بہاؤ کا اسیّ کلومیٹر طویل دریا ہے۔ مشرق سے شمال مغرب کی طرف بہتا ہے۔ اس دریا کی وادی کوہِ ِقراقرام کا جنوبی حصّہ ہے اور مقبوضہ لیہہ (لداخ)کے شمال مشرقی کونے میں واقع ہے۔ یہ علاقہ ہمارے بلتستان کے جنوب مشرق میں پڑتاہے۔ وادی کا بیشتر حصّہ چین میں لیکن تھوڑا سا علاقہ بھارت کے غاصبانہ قبضہ میں ہے۔ گلوان اور اسکے ارد گرد کا علاقہ سطح سمندر سے ساڑھے تیرہ ہزارسے اٹھارہ ہزارفٹ بلندی پر واقع ہے، یہاں آکسیجن کم ہے اور سانس لینا مشکل ہوتا ہے۔ گرمی کے چار پانچ مہینوں میں اس علاقہ کا موسم کچھ قابل ِبرداشت ہوتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کیا جاسکتا ہے۔ گلوان کے بالکل شمال میں ڈیڑھ سو فٹ چوڑا قراقرم کا درّہ ہے جو تاریخی گزرگاہ ہے جو چین کے صوبہ سنکیانگ کوتبت سے منسلک کرتاہے۔ اس کے مغرب میں کچھ دُورسیاچن گلیشئیر واقع ہے۔
گلوان دریا کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اِسکا نام اسے دریافت کرنے والے لیہہ (لداخ )کے ایک باشندہ غلام رسول گلوان کے نام پر رکھا گیا جو برطانوی دور میں انکے ملازم تھے اور اِس دُور دراز، پہاڑی علاقہ میں مہم جوئی کرنے والے انگریزوں کی رہنمائی کیا کرتے تھے۔ برطانوی عہد تک اس غیر آباد مقام پر گلوان دریا کی مسافت کا کسی کو پتہ ہی نہیں تھا۔ غلام رسول نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس دریا کے ساتھ ساتھ سفر کیا اور اس وادی کے بارے میں انگریزوں کو آگاہ کیا جس کے اعتراف کے طور پر برطانوی حکمرانوں نے اس دریا اور اسکی وادی کا نام اُن سے موسوم کردیا۔
جولائی 1962ئ میں بھارت کی گورکھا فوج نے گلوان وادی کے شمال میں ایک فوجی چوکی قائم کی جو درّہ قراقرم سے صرف اٹھارہ انیس کلومیٹر فاصلہ پر اور پونے سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اسے دولت بیگ اولڈی (ڈی بی او) کہتے ہیں۔ اکتوبر اور نومبر 1962ء میں دونوں ملکوں کے درمیان لیہہ کے مختلف مقامات پر جنگ شروع ہوگئی۔ ان میں ایک گلوان وادی بھی تھی۔ چینی افواج کا پلہ بھاری رہا۔ چین نے اس علاقہ تک قبضہ کرلیا جسے وہ عارضی سرحد یا لائن آف ایکچوئل کنٹرول قرار دیتا تھا۔ اس نے وادی میں اہم درّوں (پہاڑوں میں سے گزرنے والے قدرتی راستوں ) اور اونچے پہاڑی کناروں پر قبضہ کرلیا جو فوجی برتری قائم رکھنے کے لیے اہم تھے۔ تاہم باسٹھ کی جنگ میں چین نے ایک بڑی غلطی یہ کی کہ بھارت کی درّہِ قراقرام کے پاس فوجی چوکی کو قائم رہنے دیا۔ اب بھارت اس چوکی کو باقاعدہ ایک فوجی اڈہ بناچکا ہے۔ وہاں ایک ائیر فیلڈ بھی ہے جس پر جنگی جہاز اُتر سکتے ہیں۔ اس مقام سے بھارت اکسائے چن پر حملہ کرسکتا ہے جسے وہ چین کی بجائے اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔
حال ہی میں بھارت نے گلوان وادی کے ساتھ متصل دریائے شیوک کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر اور سردی میں برف سے جمے دریاؤں پر پینتیس پُل بنا کر ایک بڑی شاہراہ بنائی ہے۔ چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ سڑک ایسے علاقوں سے گزرتی ہے جہاں سینکڑوں کلومیٹر تک کوئی آبادی نہیں ہے۔ اسے صرف فوجی مقصد کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس سڑک کے ذریعے بھارت دلت بیگ اولڈی کے فوجی اڈہ پر سارا سال زمینی راستے سے فوجی سپاہی اور ساز و سامان بھیج سکتا ہے جبکہ پہلے وہ صرف مخصوص ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ہی یہ کام کرسکتا تھا۔ دولت بیگ اولڈی وہ مقام ہے جو کسی وقت گلگت بلتستان پرحملہ کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اب بھارت اس فوجی اڈہ سے لیکر اکسائے چن سے متصل فوجی چوکی (پی پی چودہ) تک ایک اور سڑک بنا رہا ہے۔ بھارت کی ان سرگرمیوں سے عیاں ہے کہ وہ مستقبل میں چین کے ساتھ کسی فوجی معرکہ کی تیاریاں کررہا ہے۔ یہ خدشہ بھی ہے کہ امریکہ اور چین کی سرد جنگ بڑھ جائے تو بھارت اس علاقہ میں چین کے خلاف اپنے قریبی اتحادی امریکہ کو فوجی اڈے استعمال کرنے دے۔ اسی وجہ سے چینی فوجوں نے گزشتہ ماہ مئی کے شروع میں گلوان وادی میں چند میل آگے پیش قدمی کرکے اُس علاقہ میں بھی اپنی فوجی چوکیاں بنادیں جو اُس نیـ نو مین لینڈ، کے طور پر چھوڑاہُوا تھا۔
مئی میں ہونے والی جھڑپ کے بعد گلوان وادی میں چین اور بھارت دونوں نے اپنی اپنی افواج اور فوجی ساز و سامان میں اضافہ کردیا ہے۔ اس معاملہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دِلّی کے حکمران گلوان وادی میں فوجی طاقت بظاہر چین کے خلاف بڑھا رہے ہیں لیکن وہ اپنی فوجوں کا رُخ کسی وقت اچانک بلتستان کی طرف بھی موڑ سکتے ہیں کیونکہ بھارتی پارلیمنٹ گلگت بلتستان کو اپنا حصّہ قرار دے چکی ہے، حکمران جماعت کے وزراء بار بار یہ اعلان کررہے ہیں کہ بھارت گلگت بلتستان کو پاکستان سے چھین کر اپنی حدود میں شامل کرے گا۔ اس لیے گلوان میں جاری چین، بھارت کشمکش کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔