ہمارے ملک کے پارلیمانی نظام سیاست میں ملک کوسینکڑوں قومی اورصوبائی حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان انتخابی حلقوں سے منتخب ہونے والے ارکانِ اسمبلی ملک کے لیے وزیراعظم اورصوبوں کے لیے وزرائے اعلیٰ منتخب کرتے ہیں۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ اس پارلیمانی نظام نے ہمارے ملک کو سخت بدانتظامی اور معاشی بدحالی سے دوچار کیا ہے۔ حلقہ بندیوں پر مبنی یہ طریقۂ انتخاب صرف جاگیرداروں، قبائلی سرداروں اور شہر کے جرائم پیشہ افراد کو راس آیا ہے، عوام الناس کواِس سے سخت نقصان پہنچا ہے۔ ہمارے ملک میں حکمرانی کے بیشتر مسائل اور خرابیوں کی جڑ یہ انتخابی نظام ہے جو برطانوی طرزِ حکومت کی اندھی نقالی میں بنایا گیا ہے حالانکہ ہمارے معاشرہ کے حقائق اور حالات بالکل مختلف ہیں۔
ہمارے موجودہ انتخابی نظام میں ریڑھ کی ہڈی ایک طبقہ ہے جسے الیکیٹ ایبل، کہا جاتا ہے۔ الیکٹ ایبل ہی مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں یا آزاد امیدوار کے طور پر قومی اورصوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہوکر پہنچتے ہیں۔ یہ افراد اپنے علاقہ میں ڈیرے چلاتے ہیں۔ اِنکے منشی، کارندے علاقہ کے لوگوں کے سرکاری دفاتر میں کام کاج کروانے میں اُنکی مدد کرتے ہیں۔ جائز ناجائز کاموں کی سفارش لیکر سرکاری افسروں، تھانہ اہلکاروں پردباؤ ڈالتے ہیں۔ الیکٹ ایبل سرکاری اداروں اور عوام کے درمیان بروکر کا کام انجام دیتے ہیں۔ اِنکے ذاتی طور پر ہزاروں ووٹ ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنا امیدوار منتخب کرتے ہوئے اسکی وفاداری، نظریہ، اہلیت سے زیادہ اس بات کو مدنظر رکھتی ہیں کہ یہ شخص اپنے حلقہ میں کتنا اثر و رسوخ رکھتا ہے، اسکے اپنے ووٹ کتنے ہیں۔ الیکٹ ایبل کے ذاتی ووٹ اورسیاسی جماعت کے ووٹ ملکر کامیابی کی ضمانت بنتے ہیں۔ اکثر علاقے ایسے بھی ہیں جہاں امیدوارجرائم پیشہ افراد، اشتہاریوں کی مدد سے الیکشن لڑتے ہیں۔ جرم اور سیاست ایک دوسرے سے گہرے رشتہ میں بندھ چکے ہیں۔ بہت سے الیکٹ ایبل مجرموں کی سرپرستی کرتے اور انہیں پولیس سے تحفظ مہیا کرتے ہیں۔
الیکٹ ایبل اور حلقوں کے گرد گھومنے والے اس سیاسی نظام کی اپنی مخصوص حرکیات ہیں۔ ایک رکن قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کی پہلی فکر یہ ہوتی ہے کہ وہ الیکشن پر اُٹھنے والے کروڑوں روپے کے اخراجات وصول کرے اور اگلے الیکشن کے لیے رقم جمع کرے۔ اُن لوگوں کی مدد کرے جنہوں نے اسکی الیکشن مہم پرپیسہ خرچ کیا۔ ایسا بندوبست کرے کہ اپنا ڈیرہ چلانے کے لیے رقم کی مسلسل فراہمی کا بندوبست ہوجائے۔ زیادہ تر ٹھیکیدار امیدواروں کی مہم میں مدد کرتے ہیں۔ رُکنِ اسمبلی کوشش کرتا ہے کہ ان ٹھیکیداروں کو منافع بخش سرکاری ٹھیکے دلوائے۔ ارکان اسمبلی کو جو ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں ان سے بننے والے منصوبوں کے ٹھیکے بھی اُنکی مرضی سے دیے جاتے ہیں۔ اصل لاگت سے دوگنا، تین گنا قیمت پر دیے جانے والے ان ٹھیکوں سے سرکاری افسر، ٹھیکیدار اور ارکانِ اسمبلی سب مستفید ہوتے ہیں۔ مال بنانے والی سیٹ پر بیٹھا ایماندارسرکاری افسر ارکانِ اسمبلی کے لیے سخت بیکار اور ناپسندیدہ آدمی ہوتا ہے۔ اس لیے رشوت خور افسروں کی اہم عہدوں پر تعیناتی کے لیے ارکانِ اسمبلی اعلیٰ افسران اور وزرائے اعلی پر دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔ اگر انکی سفارش نہ سنی جائے تو میڈیا میں حکومت کے خلاف بیانات دینے لگتے ہیں۔ ارکان اسمبلی کی مقامی سیاست کا تقاضا ہے کہ پولیس انکے کنٹرول میں رہے۔ انکی کوشش ہوتی ہے کہ انکے علاقے کے تھانیدار اُنکی مرضی سے تعینات کیے جائیں۔ سرکاری محکموں کی پوسٹنگ، ٹرانسفر میں انکا عمل دخل ہو۔ اگر حکومت نئے ملازمین کی بھرتیاں کرے تومیرٹ کو نظر انداز کرکے انکے سفارشی افراد بھرتی کیے جائیں۔ غرض، ارکان اسمبلی کی سیاست کے تقاضے ایسے ہیں کہ سرکاری محکموں میں مداخلت کے بغیرانکا کام نہیں چل سکتا۔ الیکٹ ایبل کی سیاست اور میرٹ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ سرکاری اداروں میں ارکان ِاسمبلی کی مداخلت کے باعث ہی ملک میں میرٹ کا نظام تباہ ہوا ہے۔ بڑے بڑے ادارے جیسے پی آئی اے، ریلوے تباہ ہوئے ہیں۔ قانون کی حکمرانی کی جگہ سفارش کا دورہ دورہ ہے۔
ارکانِ اسمبلی مقامی مسائل اور سیاست میں بری طرح دھنسے ہوتے ہیں۔ اسی لیے یہ لوگ بلدیاتی اداروں کے قیام کی سخت مخالفت کرتے ہیں کیونکہ بلدیاتی کونسلر اور مئیر کے نظام سے انکی اپنے علاقہ میں چودھراہٹ، اُجارہ داری خطرہ میں پڑ جاتی ہے۔ اختیارات تقسیم ہوجاتے ہیں۔ لوگ انکی بجائے اور لوگوں کی طرف بھی دیکھنے لگتے ہیں۔ ارکانِ اسمبلی اور مقامی حکومتوں میں مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ جب تک حلقہ بندی پر مبنی سیاسی، انتخابی نظام رائج ہے ملک میں بااختیار مقامی حکومتوں کا قیام ایک خواب رہے گا۔ اُصولی طور پر ارکانِ اسمبلی کا کام ہے قانون سازی کرنا، پالیسی بنانا۔ اہم قومی، صوبائی، عوامی معاملات و مسائل پر بحث، مباحثہ کرنا۔ لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ زیادہ تر ارکانِ اسمبلی ان کاموں میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اسمبلی کے اجلاس میں وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے، جذباتی تقریریں کرتے ہیں۔ خارجہ پالیسی، علاقائی صورتحال، دیرپا معاشی پالیسیاں اور مسائل کے حل کے لیے متبادل راستوں پر بحث کرنا اُنکو پسند نہیں۔ وہ اپنے کام کاج کے لیے وزراء اور سرکاری افسروں کے دفاتر میں گھومتے رہتے ہیں۔ اسمبلیوں کے اجلاس کورم کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔
انتخابی حلقہ بندیوں پر مبنی موجودہ سیاسی نظام تبدیل کیے بغیر قومی اورصوبائی اسمبلیاں پالیسی سازی میں مؤثر کردار ادانہیں کر سکتیں کیونکہ ان میں جو لوگ منتخب ہوکر آتے ہیں ان کا قد کاٹھ مقامی سطح کا ہوتا ہے۔ اُنکی اکثریت محض مقامی مسائل کا شعور اور استعدادرکھتی ہے۔ ہم بحیثیتِ قوم آج جن مشکلات و مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ان سے نجات کی خاطر ایک ایسے جمہوری سیاسی نظام کی ضرورت ہے جس پر نام نہاد الیکٹ ایبل کی جکڑ بندی ختم ہو۔ سیاسی جماعتیں اپنے نظریہ اور منشور کی بنیاد پر ووٹ لیکر ایسے ارکان اسمبلیوں میں بھیجیں جوقومی اور اجتماعی مسائل کا ادراک رکھتے ہوں اور اُنکے حل میں اپنا مؤثر کردار ادا کرسکیں۔