Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Karbala Ka Safar

Karbala Ka Safar

نواسۂ رسولؐ، امام عالی مقام حضرت حسین علیہ السلام نے مدینہ چھوڑ کر کربلا کی جانب جو سفر کیا اسکا مقصد نہ تو یزید کا تختہ ُالٹنا تھا نہ اسکی حکومت سے جنگ کرنا تھا بلکہ اما م حسینؑ کسی صورت یزید کی حکومت کی اخلاقی، سیاسی تائید نہیں کرنا چاہتے تھے اور کسی ایسی جگہ جا کر مقیم ہونا چاہتے تھے جہاں شام کی حکومت انہیں یزید کی بیعت کے لیے مجبور نہ کرسکے۔ آئیے کربلاکے واقعہ کو امام ِعالی مقام ؑکے مختلف تواریخ میں درج اُن کے الفاظ سے ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

رجب 61 ہجری میں جب حاکمِ مدینہ ولید بن عتبہ نے امام حسین ؑ کو یزید کی تخت نشین ہونے اور ان سے بیعت لینے کا پیغام دیا تو آپؑ نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ کتاب الفتوح میں ہے کہ امام حسینؑ نے ولید کو مخاطب ہو کر کہا:اے امیر! ہم اہلِ بیتِ نبوت ہیں اور رسالت کا معدن ہیں۔ ہم فرودگاہ ملائکہ ہیں اور ہم رحمت کے نزول کا محل ہیں۔ سلسلۂ ہدایت کو اللہ نے ہم سے آغاز کیا اور ہم پر ہی اسکا اتمام کیا۔ یزید ایک فاسق شرابی ہے، نفس ِمحترم کا قاتل ہے اور علانیہ فسق و فجور کرنے والا ہے۔ مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔ ، تاریخِ طبری میں آتا ہے کہ ولید سے ملاقات کے بعدامام حسینؑ کی اپنے چھوٹے بھائی محمد حنفیہ سے ملاقات ہوئی جنہوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ یزید کی بیعت سے بچنے کے لیے شہروں سے دُور رہیں اور صحرائی بستیوں میں قیام کریں۔ امام حسین ؑنے اُن سے کہا کہاے بھائی اگر مجھے دنیا میں کوئی جائے پناہ نہ مل سکے تب بھی میں یزید کی بیعت نہیں کرسکتا۔ ، ولید سے ملاقات کے بعد ابو سعید مقبری نے امام حسینؑ کو مدینہ کی مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ آپؑ کے ساتھ اس وقت دو آدمی تھے جن کے کاندھے پر باری باری ہاتھ رکھ کرچل رہے تھے اور آپکی زبان پر ابن مفترغ کے اشعار تھے جنکا مطلب کچھ یوں ہے: خدا وہ دن نہ لائے کہ موت کی طاقتیں کمین گاہوں سے حملہ کرکے مجھے میرے راستے سے ہٹانے کی کوشش کریں اور میں انکے خوف سے ذلت کو برداشت کرلوں۔ ، ابو سعید مقبری کا بیان ہے کہ ان اشعار کو سن کر اسی وقت انکی سمجھ میں آگیا تھا کہ آپ ؑ کسی خاص اقدام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دو ہی دن گزرے تھے کہ امام حسینؑ مکّہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ (تاریخِ طبری)

امام حسینؑ مکہّ میں شعبان کے ابتدائی ایام میں پہنچے اور وہاں تقریباً سوا تین ماہ قیام کیا۔ اس دوران میں انہیں کوفہ (عراق) سے قاصدوں کے ذریعے ہزاروں خطوط موصول ہوئے۔ خط لکھنے والوں نے آپؑ کوکوفہ آنے کی دعوت دی اور اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ ان خطوں کے جواب میں امام عالی مقامؑ نے ایک مجموعی خط تحریر کیا جو تاریخِ طبری میں نقل کیا گیا ہے۔ آپؑ نے فرمایا: حسین بن علیؓ کی طرف سے مومنوں اور مسلمانوں کے گروہ کے نام۔ امابعد! ہانی اور سعید نے آپ لوگوں کے خطوط مجھے پہنچائے۔ یہ لوگ آپکے قاصدوں میں سے آخری ہیں۔ آپ لوگوں نے جو لکھامیں اس سے مطلع ہوا۔ اور یہ جو آپ سب نے لکھا ہے کہ ہمارے پاس کوئی امام نہیں ہے آپ تشریف لائیے شائد اللہ آپ کے وسیلے سے ہمیں حق اور ہدایت پر مجتمع کردے۔ میں اپنے بھائی اور چچا زاد اور قابل ِاعتماد شخصیت مسلم بن عقیل کو بھیج رہا ہوں۔ وہ اگرصورتحال دیکھنے کے بعدمجھے لکھ دیں کہ کوفہ کے صاحبان ِہوش و خردآپ کے خطوط کی تائید کرتے ہیں تو میں جلد ہی آپ لوگوں کی طرف سفر اختیار کروں گا۔ انشااللہ۔ میری زندگی کی قسم امام فقط وہ ہے جو کتاب اللہ کے مطابق حکم کرے اور قسط و عدل کے ساتھ قائم ہو اور دین حق پر مستقل ہو اور اپنے نفس کو ذات ِالٰہی کی مرضی کے لیے وقف کردے۔ والسلام۔ ، تاریخِ کامل بن اثیر کے مطابق جب امام حسینؑ نے مکہ چھوڑ کر کوفہ جانے کا رادہ کیا تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی نے اُن سے کہا کہ وہ حجاز میں رُک کر خلافت کے خواہشمند ہوں تو وہ ان کی مدد کریں گے۔ امام حسینؑ نے اُن سے فرمایا: خدا کی قسم مجھے حرمِِ خدا میں قتل ہونے سے ایک بالشت باہر قتل ہونا زیادہ پسند ہے۔ اور مجھے دو بالشت کا فاصلہ ایک بالشت سے زیادہ پسند ہے۔ خدا کی قسم، میں اگر کسی جانور کے بھٹ میں بھی چھپ جاؤںتو بنی امیّہ مجھے باہر نکال کر قتل کردیں گے تاکہ اپنے مقصد کو پورا کرسکیں۔ بخدا بنی امیّہ میرے قتل میں تجاوز کرجائیں گے جیسا کہ یہودیوں نے سبت کے سلسلہ میں کیا تھا۔

یکم محرم کو امامؑ کا قافلہ عراق میں ذُو حَسم کے مقام پر پہنچا۔ یہاں ابن زیاد کے بھیجے ہوئے کوفہ کے ایک نامور سپہ سالارحُر بن یزید ریاحی (جو دس محرم کو امام کے ساتھ جا ملے تھے)اور انکا ایک ہزار کا لشکر امام ؑ کی نگرانی کے لیے پہنچ گئے۔ تاریخ ِطبری کے مطابق نماز ظہرکی اقامت سے پہلے امام عالی مقام ؑ نے حُر کے لشکرسے ایک مختصر خطاب کیا جس میں آپؑ نے کوفہ کے لوگوں کی دعوت کا حوالہ دینے کے بعد فرمایا: میں تو آگیا ہوں اب اگر تم اپنے قول پر قائم ہوتو مجھے مطمئن کرو اور اپنے عہد و میثاق کو پورا کرو۔ اور اگر ایسا نہ کرو اور تمہیں اپنے خطوط و وفود پر ندامت ہو اور میرے آنے کو ناپسندیدہ سمجھتے ہو تو پھر میں اسی علاقہ میں پلٹ جاؤں جہاں سے تمہارے پاس آیا ہوں۔ ، حُر کے لشکر سے جواب میں کسی نے کچھ نہیں کہا۔ دو محرم کو امام اور ان کے اہل بیت اور اصحابؑ کا مختصر قافلہ کربلا پہنچ گیا۔ تیسری محرم کو عمر بن سعد اپنے فوجیوں کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ دس محرم سے پہلے امام حسین ؑ اور عمر بن سعد کی تین چار ملاقاتیں ہوئیں تاکہ معاملہ کو جنگ کے بغیر سلجھایا جاسکے۔ تاریخ کی مختلف کتب میں درج ہے کہ ان ملاقاتوں میں امامؑ نے عمر بن سعد کو یہ پیشکش کی کہ انہیں اس وسیع و عریض زمین میں کسی جانب نکل جانے دیا جائے۔ تاہم ابن زیاد کا حکم تھا کہ حسینؑ یا تو یزید کی بیعت کریں یا ان کا سر قلم کرکے اُسے بھیجا جائے۔ امام حسین ؑ بیعت نہ کرنے کے موقف پر قائم رہے۔ دس محرم کو یزیدی فوج نے کربلا کی زمین کو امام عالی مقام ؑ اور اُن کے محترم جاں نثارساتھیوں کے مقدس خون سے گلرنگ کردیا۔