ملک پر چھائے کالے بادل چھٹ رہے ہیں۔ روشنی کی کرنیں نمودار ہورہی ہیں۔ کورونا وبا تیزی سے کم ہورہی ہے۔ معیشت میں مثبت رجحانات واضح ہورہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ بڑھتی چلی جارہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں آنے والی ترسیلاتِ زر بڑھ گئی ہیں۔ چین کی شراکت سے سی پیک منصوبوں پر عمل درآمد تیز ہوگیا ہے۔ ملکی سرمایہ کاروں کیلئے بینکوں کی شرح ِسود بہت کم کردی گئی ہے۔
دوبرس پہلے ملک زر مبادلہ کے شدید بحران کا شکار تھا۔ بیرون ملک سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے قومی خزانہ میں ڈالرز نہیں تھے۔ نئے منتخب وزیراعظم عمران خان نے حلف اٹھاتے ہی بیرونی ممالک کے دورے شروع کیے، دوست ملکوں سے زرِمبادلہ کا بندوبست کیا، ملک کو نا دہندہ ہونے سے بچایا۔ حکومت نے حد سے بڑھی ہوئی درآمدات پربھی کٹوتی لگائی تاکہ آنے والے وقت میں ڈالرز کی مزید قلت نہ ہو۔ پاکستانی روپیہ کی قدر مصنوعی طور پر بلند سطح پر رکھی گئی تھی اسے گرا کر اُسکی قدرتی حد پر لایا گیا۔ حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈز سے معاہدہ کیا جسکے تحت حکومتی اخراجات کو کنٹرول کیا گیا۔ ترقیاتی کاموں کی رفتار آہستہ ہوگئی۔ ان اقدامات سے مہنگائی کا سیلاب آیا۔ تجارت کو بریکیں لگیں۔ شرح ترقی کی رفتار سست ہوگئی۔ مندی کا ماحول بن گیا۔ خیال تھا کہ ایک دو سال کی تکلیف برداشت کرنا پڑے گی۔ معیشت مستحکم ہوجائے گی تو زیادہ مضبوط و مستحکم بنیاد پر استوار ہونے کے بعد آگے بڑھے گی۔ لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ اس سال کے شروع میں دنیا کورونا وبا کی زد میں آگئی۔ پوری دنیا کے ساتھ پاکستان کی بھی اُلٹ بازی لگ گئی۔ کاروبار، تجارت تقریبا ًبند ہوگئے۔ معیشت کا پہیہ جو پہلے ہی سست رفتاری کا شکار تھا بالکل ہی رُک گیا۔ معاشی ترقی کی شرح تین فیصد کے بجائے منفی نصف (0.5)ہوگئی۔
تاہم پاکستان کی معیشت ہمیشہ کی طرح سخت جان ثابت ہوئی ہے۔ یہ موجودہ بحران سے بھی توقع سے پہلے باہر نکل رہی ہے۔ مثبت اشاریے سامنے آرہے ہیں۔ اندیشہ تھا کہ بیرونی ممالک سے پاکستانی جو رقوم ملک میں بھیجتے ہیں ان میں کمی آجائے گی مگر یہ بھی نہیں ہوا۔ تیس جون کوختم ہونے والے مالی سال میں ترسیلاتِ زر اس سے گزشتہ برس کی نسبت دو ارب ڈالر زیادہ رہی۔ تئیس ارب ڈالر ز ملک میں وصول ہوئے۔ وبا کے باوجود بیرون ملک سے آنے والی رقوم میں اضافہ بہت خوش آئند بات ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ محنت کش پاکستانی خطرناک عالمی وبا سے گھبرائے نہیں اُن کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ ملک پر اُن کے اعتماد میں کمی نہیں آئی۔ بیرون ملک سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے بھی پہلے سے زیادہ پُر امید ہیں۔ جون میں ختم ہونے والے مالی سال میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری اڑھائی ارب ڈالر سے زیادہ رہی جو اس سے پہلے آنے والے سال میں سوا ارب ڈالر سے کچھ زیا دہ تھی۔ یعنی اس میں تقریباًنوّے فیصد اضافہ ہوگیا۔ دوسرے الفاظ میں بیرون ملک سے سرمایہ کاری کرنے والوں کا پاکستان پر اعتماد میں اضافہ ہوا۔ حالانکہ ہمارا میڈیا ملکی معیشت کی اتنی تاریک تصویر پیش کررہا تھا کہ لگتا تھا کہ اس ملک میں کچھ بھی اچھا نہیں۔ اسٹاک مارکیٹ بھی گزشتہ تین ہفتوں سے مسلسل آگے بڑھتی جارہی ہے۔ اسکی ترقی کی رفتار حالیہ برسوں میں ایک ریکارڈ ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں چار ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہوچکا ہے۔
ملک میں مندی کا تاثر بھی پوری طرح درست نہیں۔ عید کے موقع پر عوام نے وبا کے باوجود کھُل کر خریداری کی۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اس جون میں پاکستان نے بیرون ملک سے تین گنا زیادہ مالیت کے موبائل فون درآمد کیے ہیں۔ موبائل فون بنیادی ضرورت کی شے نہیں۔ اسکی خریداری اور درآمد میں زبردست اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک کا متوسط طبقہ اچھی حالت میں ہے اور پہلے کی طرح شاپنگ کی طرف مائل ہے۔ چار ماہ سے کورونا وبا کے باعث ملک میں کاروبار جزوی طور پر بند ہیں لیکن غریب لوگ بھوک سے دوچار نہیں ہوئے۔ حکومت نے تقریبا ڈیڑھ سو ارب روپے سوا کروڑ سے زیادہ خاندانوں میں تقسیم کرکے انکو روٹی پانی سے محروم نہیں ہونے دیا۔ اگرچہ بارہ ہزار فی خاندان کی رقم بہت کم ہے لیکن حکومت کے محدود وسائل دیکھتے ہوئے یہ بھی جرات مندانہ اقدام تھا۔ حکومت نئے مالی سال میں دو سو ارب روپے بانٹنے کااعلان کرچکی ہے۔ سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جارہی ہیں۔ اسٹیٹ بنک نے بنیادی شرح سود کو پونے چودہ سے کم کرکے سات فیصد کردیا ہے تاکہ بزنس میں آسانی ہو۔ مکان خریدنے کے لیے حکومت نے قرضوں کو آسان بنادیا ہے۔ عوام صرف پانچ سے سات فیصد شرح سود پر قرض لیکر مکان خرید سکتے ہیں۔ اگر اس شعبہ میں حکومت نے اپنی پالیسی میں مستقل مزاجی کا ثبوت دیا تو روزگار پیدا ہوگا اور مکانات میں کمی کا مسئلہ بھی حل ہوگا۔
سب سے اہم، وفاقی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کی رفتار پر ایکسی لیٹر دبا دیا ہے۔ دیامیر بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے ساتھ آرمی چیف کا سنگ بنیاد کی تقریب میں شریک ہونا ایک بڑا اِشارہ ہے کہ ریاست اپنے تمام وسائل کے ساتھ اس منصوبہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے۔ سکھر سے حیدرآباد موٹر وے کا منصوبہ وفاقی حکومت نے منظورکرلیا ہے جس پر کام شروع ہونے جارہا ہے۔ چین کے تعاون سے کراچی سے پشاور تک نئے، جدید ریلوے ٹریک کا منصوبہ جسے ایم ایل ون کہا جاتا ہے منظوری کے حتمی مراحل میں ہے۔ فیصل آباد میں قائداعظم معاشی زون کا قیام ملک میں صنعتی عمل کو تیز کرنے کی جانب ایک انقلابی اقدام ہے۔ اس صنعتی شہر میں لگنے والی صنعتوں کو دس سال کے لیے متعدد ٹیکسوں سے چھوٹ ہوگی۔ پنجاب حکومت بہاولپور سمیت متعدد شہروں میں نئے انڈسٹریل اسٹیٹ قائم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ اگر یہ کام سست رفتاری کا شکار نہ ہوا تو ملک میں پائیدار معاشی ترقی کا راستہ کوئی روک نہیں سکتا۔ یوں لگتا ہے کہ حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کی عائد کردہ بندشوں کو توڑتے ہوئے چین کے ساتھ شراکت داری میں سی پیک منصوبے تیزی سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پاکستان ٹیک آف کی پوزیشن میں آچکا ہے۔ اگر شورش پسند سیاستدان قوم کو سکون کا سانس لینے دیں تو ملک کے تیزی سے آگے کی طرف بڑھنے میں کوئی رُکاوٹ نہیں ہے۔