پاکستان ایسے ترقی پذیر ملکوں میں مہنگائی ہونا ایک لازمی امر ہے۔ البتہ حالات کے مطابق اسکی شرح کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ ممالک ترقیاتی کام کرانے کی خاطر اپنی آمدن سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ بینکوں سے قرض لیتے ہیں یا نوٹ چھاپتے ہیں۔ اس عمل سے کرنسی کی بہتات ہوجاتی ہے جسے افراط ِزر کہا جاتا ہے۔
مجھے صحافت میں اکتیس برس گزر گئے۔ اس دوران میں ایک سال ایسا نہیں گزرا جب میں نے مہنگائی کا شور نہ سُنا ہو۔ مجھے یاد ہے کہ جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 میں عام انتخابات کرائے تو اسوقت ان کے خلاف نو سیاسی جماعتوں کا متحدہ پلیٹ فارم قومی اتحاد کے نام سے بنا۔ قومی اتحاد نے بھٹو کے خلاف جو بڑے نعرے لگائے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ اُن کے دور میں بہت مہنگائی ہوگئی تھی۔ قومی اتحاد کے رہنما انتخابی جلسوں میں عوام سے وعدہ کرتے تھے کہ وہ اقتدار میں آکر 1970 والی قیمتیں واپس لائیں گے۔ ظاہر ہے یہ ایک گمراہ کُن وعدہ تھا۔ قومی اتحاد کے کئی رہنما دو سال تک جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت میں وفاقی وزیر رہے لیکن قیمتیں کم نہیں ہوئیں۔ 2013 میں جب نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے تھے تو انکی حکومت نے آتے ہی بجلی کی قیمتوں میں پچاس فیصد اضافہ کردیا تھا جس سے اور اشیاء بھی مہنگی ہوگئی تھیں۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے آخری دور حکومت (2008-13) میں ایک سال افراطِ زر کی شرح بیس فیصد اور دوسرے سال چودہ فیصد تھی۔ اب یہ دونوں جماعتیں اپنے کارنامے بھول چکی ہیں اورتحریک انصاف کی حکومت پر مہنگائی کرنے پر ملامت کررہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو جب تک معیشت مستحکم نہیں ہوگی اور بنیادی مسائل حل نہیں ہونگے مہنگائی موجود رہے گی۔ مہنگائی تو ہمزاد کی طرح ہماری جان کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے۔
چیزیں مہنگی ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی پیداواری صلاحیت کم ہے۔ زیادہ تر زرعی اور صنعتی اشیاء بیرون ممالک سے آتی ہیں۔ عالمی منڈی میں اُتار چڑھاؤ سے ہمارے ہاں درآمدی اشیا مہنگی ہوجاتی ہیں۔ گزشتہ برس تو گندم اور چینی بھی درآمد کرنا پڑیں۔ دالیں، کھانے کا تیل، پیٹرول، ڈیزل اوربیشتر صنعتی اشیا یا انکا خام مال باہر سے آتے ہیں۔ پیٹرول مہنگا ہو تو ٹرانسپورٹ کی لاگت بڑھ جاتی ہے جس کا اثر سب چیزوں پر پڑتا ہے۔ کمزور معیشت کے باعث ہماری کرنسی کی قدر کم ہوتی جاتی ہے۔ ا س لئے درآمدی اشیاء بھی مہنگی ہوجاتی ہیں۔ دوسرا بڑا اور زیادہ پیچیدہ معاملہ بجٹ خسارہ کا ہے۔ یہ مہنگائی ہوتے رہنے کی بڑی وجہ ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جن کا بجٹ خسارہ بہت زیادہ ہے۔ اسوقت صورتحال یہ ہے کہ وفاقی حکومت کو ٹیکسوں سے جو آمدن ہوتی ہے اسکا نصف پرانے قرضوں اور انکے سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ گزشتہ پچاس سال کی پالیسیوں کے باعث ملک بھاری قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ اگر ان قرضوں سے پیداوار میں اضافہ ہوتا تو حکومت کی آمدن بھی بڑھ جاتی لیکن انکا استعمال غیرپیداواری کاموں کے لئے کیا گیا۔ قرضوں کی آدھی رقم تو سرکاری افسروں، سیاستدانوں اوربڑے بزنس مینوں نے خرد برد کرلی اور سمندر پار ٹھکانے لگا دی۔ باقی رقم سے ائیرپورٹس، موٹر ویز اور میٹرو بسوں ایسے نمائشی منصوبے بنائے گئے جن سے آمدن نہیں ہوتی۔ بلکہ بعض منصوبوں کو چالو رکھنے کے لیے ہر سال قومی خزانہ سے اربوں روپے سب سڈی دینا پرتی ہے۔
آپ یوں سمجھیں کہ ایک شخص کی آمدن ایک سو روپے ہے۔ اس میں سے وہ ستاون روپے تو بچوں کو دینے کا پابند ہے۔ باقی اسے پچاس روپے قرضوں کی واپسی کے لیے درکار ہیں۔ تو وہ کیا کرے گا۔ ظاہر ہے کہ قرض واپس کرنے کے لیے بھی اسے تیرہ روپے مزید قرض لینا ہوگا۔ ابھی اسے گھر کے اخراجات کیلیے بھی رقم چاہیے۔ اسکے لیے مزید قرضے لیگا۔ یہی صورتحال ہماری وفاقی حکومت کی ہے۔ یہ اپنے ٹیکسوں کی آمدن سے ساڑھے ستاون روپے تو صوبوں میں بانٹنے کی پابند ہے۔ اسکے بعد قرضوں کی واپسی، دفاعی اخراجات، انتظامیہ کاخرچ اور ترقیاتی کاموں کے لیے درکاررقوم آتی ہیں۔ سب کام قرض اور صرف قرض پر چل رہا ہے۔ ہماری حکومت صرف دیوالیہ نہیں ہے بلکہ دیوالیہ پلَس ہے۔ معاملہ بہتر ہوسکتا ہے اگر تاجر حضرات حکومت کو قانون کے مطابق ٹیکس دیں۔ چالیس لاکھ دکاندار ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتے۔ اگر ان سے ٹیکس لینے کی کوشش کی جائے تو وہ ہڑتالیں کردیتے ہیں۔ بڑے زمیندار اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے آئین ایسا بنایا ہوا ہے کہ ان پر انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ اگر حکومت کی ٹیکس وصولیاں بڑھ جائیں توبجٹ کا خسارہ کم ہوجائے گا۔ کم قرض لینا پڑے گا اور مہنگائی بھی کنٹرول ہوجائے گی۔ تاہم یہ ایک خواہش ہے جو کبھی پوری نہیں ہوتی۔ دیکھا جائے تو مہنگائی ایک طرح سے غیر اعلانیہ ٹیکس ہے۔ یہ امیر غریب سب پر لگتا ہے۔ اس سے قوت خرید کم ہوجاتی ہے۔ امیر متاثر نہیں ہوتا۔ غریب اور سفید پوش طبقے پس جاتے ہیں۔ گزشتہ ڈھائی برسوں میں عام آدمی کی قوت خرید تقریباًآدھی رہ گئی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کا ترقیاتی بجٹ سکڑ کر ننھا منھا سا رہ گیا ہے کیونکہ اسکے لیے رقم موجود نہیں۔ 1980کی دہائی میں وفاقی حکومت کا ترقیاتی بجٹ مجموعی بجٹ کے 45 فیصد کے برابر ہوتا تھا۔ گزشتہ برس اسکا حصہ محض بارہ فیصد تھا۔ جو ترقیاتی بجٹ مالی سال کے شروع میں رکھا جاتا ہے اس میں بھی کٹوتی کردی جاتی ہے۔ رواں مالی سال 650 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھا گیا۔ لیکن اس میں ڈیڑھ سو ارب روپے کی کٹوتی کردی گئی ہے۔ ترقیاتی منصوبے کم بننے سے معاشی ترقی کی شرح کم ہوجاتی ہے۔ جس سے حکومت کو ٹیکس بھی کم ملتے ہیں۔ یہ ایک منحوس چکر ہے۔ چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ایک چیز بگڑتی ہے تو پورا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جب ترقیاتی اخراجات کم اور غیر ترقیاتی اخرجات زیادہ ہوں تو افراط ِزر پیدا ہوتا ہے یعنی مہنگائی۔ ملکی کرنسی بھی بجٹ خسارہ سے متاثر ہوتی ہے۔ خسارہ زیادہ ہونے سے اسکی قدر کم ہوجاتی ہے۔ درآمدی اشیا مزید مہنگی ہوجاتی ہیں۔ وزیرخزانہ کوئی بھی ہو جب تک ملک میں ٹیکسوں سے آمدن نہیں بڑھے گی اور حکومت کا انحصار قرضوں پر کم نہیں ہوگا ملک میں مہنگائی بدستور جاری رہے گی۔ انتظامی اقدامات سے معمولی فرق پڑسکتا ہے۔ مثلاًکسان کو ملنے والی قیمت، تھوک اور پرچون کی قیمتوں کا فرق بہت زیادہ ہے لیکن حکومت تجارت کوپوری طرح کنٹرول نہیں کرسکتی۔ البتہ یوٹیلیٹی اسٹورز کی تعداد بڑھا کر زیادہ لوگوں کو ریلیف مہیا کرسکتی ہے۔ احساس کیش پروگرام کا دائرہ کار بڑھا سکتی ہے۔ مہنگائی مستقل طور پر کم رکھنے کا حل یہی ہے کہ ٹیکس وصولی کا نظام بہتر بنایا جائے، بجٹ کا خسارہ اور قرضوں پر انحصار کم سے کم ہو۔