ملک میں حکمرانی کے نظام سے عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ ناخوش رہتا ہے اور گاہے گاہے یہ بحث چل پڑتی ہے کہ موجودہ سیاسی، انتخابی سسٹم کو بہتر کیسے بنایا جائے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارے انتخابی نظام کی نوعیت ایسی ہے جس سے قومی اور صوبائی سطح پر جو قیادت سامنے آتی ہے وہ ملک و قوم کو درپیش چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ ارکانِ اسمبلی کی اکثریت مقامی سطح کے مسائل سے زیادہ شعور و ادراک نہیں رکھتی۔ موجودہ حلقہ بندیوں پر مبنی الیکشن کاطریقہ ناکام ہوچکا ہے۔ ہمیں یورپ کے کئی ملکوں کی طرح متناسب نمائندگی کے طریقِ کار کو اختیار کرنا چاہیے جس میں عوام کسی فرد کو نہیں بلکہ سیاسی پارٹی کو ووٹ ڈالتے ہیں اورہر سیاسی جماعت حاصل ہونے والے ووٹوں کے تناسب سے اپنے نمائندے پارلیمان میں نامزد کردیتی ہے۔ الیکشن میں افراد کی اہمیت کم ہوجاتی ہے، سیاسی جماعت اور اسکے نظریہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ بظاہر یہ خیال بہت خوشنما لگتا ہے لیکن ہر سیاسی نظام کی طرح متناسب نمائندگی کے فوائد اور نقصانات ہیں۔
پاکستان میں متناسب نمائندگی کی کوئی شکل نافذ کی جائے تو پُورے پاکستان کو ایک انتخابی حلقہ نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ اسطرح چھوٹے صوبے پارلیمان میں اپنی نمائندگی سے محروم ہوجائیں گے۔ مثلاًکم آبادی کے باعث بلوچستان کی پارٹیوں کو مجموعی ووٹ کا ایک فیصد بھی مشکل سے پڑے گا، انہیں کوئی سیٹ نہیں ملے گی۔ پاکستان میں صوبوں یا ڈویژنز کو انتخابی حلقہ بنانا پڑے گا۔ متناسب نمائندگی کا نظام کو ذرا سادہ الفاظ میں سمجھ لیتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ اس نظام میں پورا پنجاب ایک انتخابی حلقہ ہے۔ قومی اسمبلی میں پنجاب کی 148نشستیں ہیں۔ ایک جماعت پنجاب میں کُل پڑنے والے ووٹوں کا چالیس فیصدحاصل کرتی ہے تو اسے قومی اسمبلی میں 59 سیٹیں مل جائیں گی۔ اسی طرح باقی جماعتوں کو بھی انکو ملنے والے فیصد ووٹوں کے اعتبار سے اسمبلی کی نشستیں حاصل ہو جائیں گی۔ ہر جماعت الیکشن سے پہلے الیکشن کمیشن کو اپنے نامزد ارکان کی ایک فہرست جمع کرائے گی۔ ہر سیاسی جماعت تمام سیٹوں کی تعدادکے برابر ارکان نامزد کرے گی لیکن ترتیب اسطرح رکھے گی کہ اسے جتنی سیٹیں ملنے کی توقع ہے اُنکے مطابق اہم ترین لوگ لسٹ میں اُوپر ہوں تاکہ وہ توضرور اسمبلیوں میں پہنچ جائیں۔
متناسب نمائندگی کے نظام کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ بہت سے سیاسی کارکن جو مال و دولت نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑسکتے پارٹی کیطرف سے نامزد ہونے پر اسمبلیوں میں پہنچ سکیں گے۔ تاہم بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ اسکا انحصاربہت حد تک ہمارے عمومی سیاسی کلچر پر ہے۔ اگر پارٹیوں کے قائدین سیاسی ورکرز، نظریاتی ساتھیوں کو اہمیت نہ دیں بلکہ دیگر وجوہ کی بنا پر نامزدگیاں کریں تو فائدہ کی بجائے نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ دوسرے، اس طریقۂ انتخاب سے الیکٹ ایبل یا مقامی طور پر باثر سیاستدانوں کی اہمیت کم ہو جائے گی لیکن ختم نہیں ہوگی۔ ہر پارٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرے۔ اسلیے سیاسی جماعتیں ایسے لوگوں کو اپنی فہرست میں اُوپر رکھیں گی جو اپنا ذاتی اثر و رسوخ بھی رکھتے ہوں تاکہ انکے ذاتی ووٹ اور پارٹی کے ووٹ ملکر پارٹی کو زیادہ سیٹیں دلوا سکیں۔ چونکہ ہمارے ہاں الیکشن میں خوب پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اسلیے جو لوگ پارٹی کو زیادہ چندہ دیں گے ان کی مرضی سے بھی پارٹی کو اسمبلیوں میں نامزدگیاں کرنی پڑیں گی۔
موجودہ حلقہ بندی پر مبنی نظام کا ایک نقص یہ ہے کہ اس میں عملی طور پر اقلیتی ووٹ لینے والے امیدوار اکثر سیٹوں پر الیکشن جیت جاتے ہیں۔ مثلا ایک حلقہ میں ایک لاکھ ووٹ پڑے۔ ایک امیدوار نے تیس ہزار ووٹ لیے۔ دوسرے نے پچیس ہزار۔ چار، پانچ دیگر امیدواروں نے الگ الگ مجموعی طور پر پچپن ہزار ووٹ حاصل کرلیے۔ جس امیدوارنے تیس ہزار ووٹ لیے وہ دوسروں کی نسبت زیادہ ووٹ لینے کے باعث کامیاب ٹھہرا۔ اسکے خلاف ستر ہزار ووٹ پڑے وہ سب بیکار گئے۔ متناسب نمائندگی میں ایسا نہیں ہوسکتا۔ انتخابی حلقہ چونکہ پورا ملک یا پورا صوبہ ہوتا ہے اسلیے ہر پارٹی کو پڑنے والا ووٹ شمار ہوتا ہے۔ متناسب نمائندگی کا فائدہ یہ ہے کہ بعض چھوٹی نظریاتی جماعتیں جن کے ووٹ ملک بھر میں بکھرے ہوئے ہیں، کسی ایک حلقہ میں مرتکز نہیں اُنکے لیے اسمبلیوں میں اپنی جگہ بنانا ممکن ہوجائے گا۔ یہ چھوٹی نظریاتی جماعتیں پارلیمان میں اپنا نقطہ ٔنگاہ مؤثر انداز میں بیان کرسکیں گی۔ اس نظام میں کوئی ووٹ ضائع نہیں ہوتا بلکہ معاشرہ کے ہر طبقۂ خیال کو پارلیمان میں نمائندگی مل جاتی ہے۔ سب لوگ سسٹم کا حصّہ بن جاتے ہیں، اسٹیک ہولڈرز بن جاتے ہیں۔ کوئی باہر نہیں رہتا۔ یوں پارلیمان کا کردار زیادہ مؤثر ہوجاتا ہے۔
متناسب نمائندگی کے نظام سے نظریاتی سیاست کو تقویت توملے گی لیکن ایسا نہیں ہے کہ اسکے رائج ہونے سے ہمارا انتخابی نظام بالکل صاف ستھرا ہو جائے گا۔ پارٹی لیڈر قومی اسمبلی کی سیٹیں پیسے لیکر بانٹ سکتے ہیں جس طرح ابھی کچھ لیڈرز پارٹی ٹکٹ پیسے لیکر دیتے ہیں۔ ہمارے سیاسی کلچر میں متناسب نمائندگی کے نظام سے پارٹی لیڈر زیادہ طاقتور ہوجائیں گے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی پکی نشستوں پر ارکان نامزد کرنے کا اختیار ملنے سے ان کی پارٹی پر آہنی گرفت قائم ہوجائے گی۔ ایک طرح سے پارٹی لیڈروں کی آمریت قائم ہوجائے گی۔ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں، ان میں حقیقی الیکشن نہیں ہوتے۔ جب تک سیاسی جماعتوں میں جمہوری کلچر جڑ نہیں پکڑتا اور انکے اندر حقیقی معنوں میں الیکشن نہیں ہوتے متناسب نمائندگی کا نظام زیادہ مفید ثابت نہیں ہوگا۔
پاکستان کے موجودہ حالات میں متناسب نمائندگی کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ کوئی سیاسی جماعت قومی اسمبلی میں واضح سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی کیونکہ ہمارے ووٹرز تین بڑی جماعتوں اور چھ سات چھوٹی جماعتوں میں منقسم ہیں۔ کوئی سیاسی جماعت ملک بھر میں پڑنے والے مجموعی ووٹوں کے تیس پینتیس فیصد سے زیادہ حاصل نہیں کر تی۔ متناسب نمائندگی کا نظام رائج ہونے سے سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملکرمخلوط حکومتیں بنانی پڑیں گی۔ ہر وقت جوڑ توڑ ہوتا رہے گا۔ یہ صورتحال سیاسی عدم استحکام کا باعث بنے گی۔ البتہ فائدہ یہ ہوگا کہ کسی ایک پارٹی کو من مانی کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ حکومت بنانے والی جماعت کو دوسری جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کرنا پڑے گی۔ ایک دوسرے سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔