حکومت مِل جانا ایک بات ہے لیکن اسکا چلانا دوسری قسم کا کام ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت اسوقت جس بحران سے دوچار ہے وہ نئی بات نہیں۔ پاکستان میں حکومتیں بار بار اس بھنورمیں پھنستی رہی ہیں۔ حاکمیت کے بحران کے بڑے ذمہ دار دو طبقے ہیں۔ ایک تو نااہل، بددیانت روایتی سیاستدان اور دوسرے کرپٹ، عوام دشمن بیوروکریسی۔ ان دونوں گروہوں پر انحصار کرتے ہوئے ان ہی کی پیدا کردہ خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا بہت سادگی کی بات ہے۔ عمران خان نے حکومت میں آنے اور الیکشن میں زیادہ سیٹیں جیتنے کے لیے روایتی مقامی سیاستدانوں (الیکٹ ایبلز) کا سہارا لیا۔ پھر وہ اسی کرپٹ افسر شاہی کی مددسے حکومت چلانے کی کوشش کرتے آرہے ہیں جو اکثر خرابیوں کی جڑ ہے۔ ان حالات میں حاکمیت کا بحران تو جاری رہے گا۔ حکومت کی کشتی ہچکولے تو کھائے گی۔
عمران خان کو بہت مشکل حالات میں اقتدار ملا ہے۔ ملک کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہُوا ہے۔ پرانی سیاسی جماعتیں ان کی سخت مخالف ہیں۔ حکمرانی کے اداروں کا حال بہت خراب ہے۔ لوگوں کے تنازعات کے تصفیہ کے لیے قائم عدالتی نظام عوام کو جلد اور سستا انصاف دینے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ وکلا کا بڑا طبقہ اسے بدلنے یا بہتر بنانے کی ہر کوشش کی مزاحمت کرتا ہے۔ میڈیا رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسکا ایک بڑا حصّہ ماضی میں کرپٹ سیاستدانوں کی مہربانیوں سے مستفید ہوتا رہا ہے۔ اس نے موجودہ حکومت کے خلاف مسلسل مہم چلائی ہوئی ہے۔ ملک میں موجود ہر خرابی کی ذمہ داری وزیراعظم عمران خان پر ڈالی جارہی ہے جبکہ جو طبقات اصل خرابی کی جڑ ہیں وہ ایک بار پھر عوام کو جُل دینے میں کامیاب ہورہے ہیں۔
دوسری طرف، حکمران پارٹی تحریک انصاف منظم جماعت نہیں۔ اسکے کارکنوں کو عوام کی شکایات کا تو علم ہے لیکن ان شکایات کو دُور کرنے کے لیے اختیارات نہیں۔ حکومتی کارروائی کا قانونی اختیار صرف سرکاری افسروں اور اہلکاروں کے پاس ہے اور یہ لوگ عمران خان کی کرپشن کے خلاف مہم سے بیزار اور ڈرے ہوئے ہیں۔ افسروں کی اکثریت نے پی ٹی آئی حکومت سے عدم تعاون کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔ جن افسروں نے مسلم لیگ(ن) کے دور میں کروڑوں، اربوں روپے بنائے، اب وہ معمولی تنخواہ پر گزارہ کرنے کو تیا ر نہیں۔ مجموعی اعتبار سے افسر شاہی سیاسی طور پر غیر جانبدار نہیں ہے۔ پنجاب میں افسروں کی شریف خاندان اورسندھ میں زرداری خاندان کے ساتھ گہری وابستگی ہے۔ عمران خان خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ماضی کی سول سروس کو دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ انیس سو ساٹھ کی دہائی کے افسروں کا اکثر حوالہ دیتے ہیں۔ جو گزر گیا سو گزر گیا۔ وقت کا پہیہ الٹی سمت میں نہیں گھمایا جاسکتا۔ انہیں اس خیال کو ترک کرکے انتظامی ڈھانچہ کو ہنگامی بنیادوں پر بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب تک بڑے پیمانے پر سیاسی وفاداریاں رکھنے والے افسروں کو جبری ریٹائر نہیں کیا جاتا اور انکی جگہ نئے افسران بھرتی نہیں کیے جاتے موجودہ حکومت اپنے ایجنڈے پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کراسکے گی۔
عمران خان کی ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والابااثر طبقہ بشمول تاجر اُن کے خلاف ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی پالیسیاں ایسی تھیں جس سے وسطی پنجاب کو ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت بہت زیاد ہ فوائد پہنچے۔ یہاں تاجر طبقہ پھلا پھولا، خواہ اسکی خاطر ملک کی صنعت، برآمدات کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ اسی وجہ سے وسطی پنجاب کی نوّے فیصد نشستیں مسلم لیگ(ن) نے جیتیں۔ وسطی پنجاب کا ملک کی سوِل اورفوجی بیوروکریسی میں بڑا حصّہ ہے۔ لاہور کا میڈیا قومی بیانیہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب تحریک انصاف کی حکومت نے زرمبادلہ کے بحران کو حل کرنے کی خاطر درآمدات کم کیں تو تاجروں کے مفادات پر مزید ضرب پڑی وہ اور زیادہ اسکے خلاف ہوگئے۔ کورونا بحران سے تجارت مزید سکڑ گئی۔ اپوزیشن کو عمران خان پر ملامت کرنے کوخوب مواد مل گیا۔ معیشت کے سدھار کے لیے طویل مدت منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی ضرورت ہے جبکہ لوگ فوری نتیجہ چاہتے ہیں۔ معیشت کی مضبوطی اور بہتری کی اصل علامات صنعتی ترقی اور برآمدات میں اضافہ ہیں۔ لوگوں کو عادت ہوگئی ہے کہ حکومت بیرون ممالک سے قرضے لیکر بڑے بڑے منصوبے بنائے، درآمدات کھول دے جس سے تجارت بڑھ جائے۔ لیکن یہ عارضی اقدامات بار بار معاشی بحران کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارے لوگ صدیوں بادشاہوں کی رعایا رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حکمران جو چاہے کرسکتا ہے لیکن جدیدمعاشرہ میں ایسا ممکن نہیں۔ اگر ہم آج صنعتی ترقی کے لیے کام کرنا شروع کریں گے تو اسکے نتائج آنے میں چار پانچ برس لگیں گے۔ حکومت نے اس سمت میں کام شروع تو کیا ہے۔ اسی حکومت کے دور میں ملک میں موبائل فون بننا شروع ہوگئے ہیں اور مقامی طور پر بننے والے فون اچھا خاصاکاروبار کررہے ہیں۔ دو برس پہلے تک ملک میں صرف تین برانڈز کی کاریں تیار کی جاتی تھیں۔ اب چھ سات مختلف کمپنیاں پاکستان میں کاریں بنارہی ہیں۔ بتدریج ملک آگے بڑھنا شروع تو ہوا ہے۔ اگر دو تین سال یہی پالیسی تسلسل سے جاری رہی تو اسکے فوائد واضح طور پر سامنے آسکیں گے۔ لیکن یہ معاشی ترقی سیاسی استحکام سے مشروط ہے۔
وزیراعظم اگر اپوزیشن لیڈروں کوانکے خلاف کرپشن کے مقدمات میں رعایت دیتے تو شائد وہ اُنکی حکومت گرانے میں اسقدر بے تابی نہ دکھاتے لیکن وزیراعظم کا روّیہ اس بار ے میں لچکدار نہیں۔ نواز شریف کچھ حلقوں کی ملی بھگت سے ملک سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے ورنہ وہ ابھی تک جیل میں مقیّد ہوتے۔ عمران خان نے ملک کی تین بڑی پارٹیوں مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام(ف) کے خلاف بیک وقت محاذ کھول کراپنی مشکلات میں بہت اضافہ کرلیا جبکہ انکے پاس پارلیمان اور پنجاب اسمبلی میں دو تہائی اکثریت تو کیا سادہ اکثریت بھی نہیں ہے۔ ان کی وفاق اور پنجاب میں حکومتیں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے سہارے قائم ہیں۔ ان میں سے ایک مہرہ بھی کھسک گیا تو حکومت قائم نہیں رہ سکے گی۔ چونکہ عوام نے تحریک انصاف کوبھرپور مینڈیٹ نہیں دیا تھا وزیراعظم کو اس اعتبار سے اپنے ایجنڈے کو حقیقت پسندانہ بنانا چاہیے تھا۔ وہ عوام سے کہہ سکتے تھے کہ انکے پاس پارلیمان میں اتنی اکثریت نہیں کہ وہ اپنے تمام وعدے پورے کرسکیں۔ تاہم انہوں نے مصلحت پسندی سے کام نہیں لیا۔ اسی باعث ساری اپوزیشن انکے خلاف متحد ہوگئی۔ اگر عمران خان موجودہ جمہوری پارلیمانی نظام کے اندر رہتے ہوئے کھیلنا چاہتے ہیں تو انہیں اسکے تقاضوں کے مطابق اپنے اتحادیوں کے ساتھ فیاضانہ سلوک کرنا پڑے گا اور کسی حد تک اپوزیشن کے بارے میں لچک کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔