Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hawa Mein Zeher

Hawa Mein Zeher

انسان نے قدرت کے نظام سے جو چھیڑ چھاڑ کی ہے اسکا خمیازہ ماحول کی تباہی کی صورت میں بھگت رہا ہے۔ آلودگی انسان کی صحت اور بقا کا مسئلہ بن چکی ہے۔ ابھی پوری طرح سردی کا موسم بھی شروع نہیں ہوا لیکن سموگ نے لاہور شہر کو ڈھانپ لیا ہے۔ دھند اور دھویں کا یہ آمیزہ دسمبر کے آخر تک لاہور اور وسطی پنجاب کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھے گا۔ ماہرین کے مطابق صرف گھروں سے باہر ہی نہیں گھروں کے اندر بھی ہوا کی آلودگی بہت زیادہ ہوچکی ہے کیونکہ دھویں کے ہوا میں معلق باریک باریک، نہ نظر آنے والے ذرّات گھروں اور دفتروں کے اندر بھی داخل ہوجاتے ہیں۔ فضا میں اس زہر گھل جانے سے نزلہ، زکام اور گلے کی بیماریاں تو پھیل ہی رہی ہیں لیکن زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ آلودگی کے باریک ذرّے ہمارے پھیپھڑوں اور دل تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ یہ سانس کے ساتھ ساتھ دل کی بیماریوں کا باعث بھی بنتے ہیں۔ سموگ ایک طرح کی سلو پوائزننگ ہے۔ ایک زہر ہے جو آہستہ آہستہ ہماری زندگی کو ختم کررہا ہے۔ ہماری کمائی کا ایک حصّہ اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج معالجہ کی نذر ہوجاتا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان کم آمدن لوگوں کوہوتا ہے جو اپنا پیٹ کاٹ کر مہنگے علاج اور دواؤں پر حق حلال کی کمائی خرچ کرتے ہیں۔ غریبوں کی غربت اور بڑھ جاتی ہے۔

سموگ کا مسئلہ نیا نہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے۔ البتہ جوں جوں لاہور شہر کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے اس کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ لاہور شہر میں چلنے والی تقریبا ًساٹھ لاکھ گاڑیاں عوام کی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ سموگ کی نصف مقدار ان گاڑیوں کی بدولت ہے۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں سموگ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھویں میں نائٹروجن آکسائیڈ پر مبنی مختلف قسم کی گیسیں ہوتی ہیں۔ ہوا میں نائٹروجن کی جتنی نارمل مقدار ہونی چاہیے اس سے چھ سات گنا زیادہ لاہور کی ہوا میں پائی جاتی ہے۔ اسی دھویں کی وجہ سے گرمی کے موسم کی طوالت بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ جیسے ہی درجہ حرارت رات کے وقت کم ہونے لگتا ہے سموگ بننا شروع ہوجاتی ہے۔ عام طور سے یہ آلودگی نومبر میں شروع ہوتی تھی لیکن اس بار اکتوبر سے ہی اس نے ڈیرے ڈال دیے ہیں۔ کیونکہ ڈیڑھ ماہ سے بارش نہیں ہوئی تو فضا مٹی اور دھند سے صاف نہیں ہوئی۔ ابھی تو لوگ کورونا وبا سے نہیں سنبھل سکے تھے کہ یہ ایک نئی مصیبت نازل ہوگئی۔ اگر ہم بحیثیت اجتماعی بہتر فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتے تو اسکی پیش بندی کرلیتے۔ ایک کام تو حکومت نے اچھا کیا ہے کہ یوروپانچ، گریڈ کا پیٹرول متعارف کرادیا ہے جو اگر گاڑیوں میں استعمال کیاجائے تو کم آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ یورو پانچ پیٹرول عام پیٹرول سے پندرہ روپے لٹر مہنگا ہے اسلیے اسکا استعمال عام نہیں ہوسکا۔ حکومت کو چاہیے کہ اسکے استعمال کو عام کرنے کی خاطر اس پر ٹیکسوں کی شرح ذرا کم کردے اور سموگ کے دنوں میں بڑے شہروں میں اسکا استعمال لازمی قرار دے۔ زیادہ آلودگی پھیلانے والے پیٹرول کی فروخت اکتوبر سے دسمبر تک ممنوع قرار دی جائے تاکہ گاڑیوں سے نکلنے والے زہر میں کمی واقع ہو۔

دوسرا بڑا مسئلہ لاہور میں قائم چھ ہزار سے زیادہ صنعتی کارخانے ہیں جو بیس تیس سال پہلے نواحی علاقوں میں لگائے گئے تھے لیکن شہر کے بے ہنگم پھیلاؤ کے باعث اب شہر کے بیچوں بیچ واقع ہیں۔ قانون کے مطابق یہ کارخانے ایسے آلات نصب کرنے کے پابند ہیں جن سے انکی چمنیوں سے نکلنے والے دھویں کی آلودگی کم ہوجائے لیکن پیسے بچانے کے لیے یہ آلات نصب نہیں کیے جاتے۔ اگرآلات لگائے بھی جائیں تو ان کو چلانے پر چونکہ بجلی خرچ ہوتی ہے انہیں ہر وقت چلایا نہیں جاتا۔ محکمہ ماحولیات ہر سرکاری محکمہ کی طرح کرپشن کا گڑھ ہے۔ سرکاری اہلکار رشوت لیکرانہیں قانون کی خلاف ورزی کرنے دیتے ہیں۔ شہر میں تین سو کے قریب اسٹیل ملیں اور بھٹیاں ہیں۔ ان میں سے بعض پلاسٹک اور ربڑ کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتی ہیں جس سے زہر آلود گیسیں نکلتی ہیں۔ شہر کے نواح، دیہی علاقوں میں میں ٹائر اور بیٹریاں جلا کر لیڈ اور تیل نکالا جاتا ہے۔ یہ سب غیر قانونی کام سرکاری افسروں اور سیاستدانوں کی پشت پناہی سے کیے جاتے ہیں۔ آپ لاہور سے پنڈی یا فیصل آبادکی طرف سفر کریں تو جگہ جگہ کھیتوں میں دھان اور گنے کے مڈوں کو آگ لگی نظر آتی ہے جن سے دھویں کے بادل نکلتے ہیں جن میں بہت زیادہ مقدار میں زہریلی کاربن ہوتی ہے۔ کئی بار اعلان کیا گیا کہ کاشتکاروں کو متبادل طریقوں سے ان مڈوں کو تلف کرنے کی تربیت دی جائے گی۔ یہ دعوے بھی کیے گئے کہ ایسے آلات بنائے گئے ہیں جن سے یہ مڈ بآسانی تلف کرکے زمین میں قدرتی کھاد کے طور پر استعمال کیے جاسکیں گے۔ لیکن یہ باتیں صرف باتیں ثابت ہوئیں۔ عمل ندارد۔ جب سموگ کا موسم شروع ہوتا ہے حکومت اور ریاستی ادارے بڑکیں مارتے ہیں لیکن ٹھوس کام نہیں کرتے۔

اگر ہم واقعی سموگ کو انسانی صحت اور جان کے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں تو سول سوسائٹی اور حکومت کو اس بارے میں سنجیدہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ تجرباتی طور پر ہم بڑے شہروں جیسے لاہور، فیصل آباد میں ایک دن کار فری منا کر دیکھیں یعنی اس روز کوئی کار، موٹرسائکل، رکشہ اور چنگ چی رکشہ سڑک پر نہ آئے۔ چیک کریں کہ اس دن شہر میں ہوا کی آلودگی اور سموگ کی مقدار کتنی کم ہوتی ہے۔ اگر اس سے فرق پڑتا ہے تو ہمیں وسط اکتوبر سے دسمبر تک موٹر گاڑیوں کے استعمال کو محدود کرنیکا لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ لاہور میں تو اورنج ٹرین اور میٹرو بس بھی سفر کرنے کو دستیاب ہیں۔ ان روٹس پر تو گاڑیوں کا استعمال آسانی سے محدود کیا جاسکتا ہے۔ حکومت بڑے شہروں میں گاڑیوں کی چیکنگ کا نظام سخت کرے۔ پرانی گاڑیاں جو زیادہ دھواں چھوڑتی ہیں ان کے استعمال پر پابندی لگائی جائے۔ ترقی یافتہ دنیا تیزی سے پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کی بجائے برقی (الیکٹرک) گاڑیوں کی طرف جارہی ہے۔ چین اگلے تین برسوں میں ستر لاکھ برقی گاڑیاں تیار کرے گا۔ پاکستان کو بھی برقی گاڑیوں کے فروغ کے لیے انقلابی اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ہم اس جان لیوا سموگ سے جان چھڑواسکیں۔ اس سموگ سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہماری تندرستی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔