میرے ایک دوست جنوبی پنجاب کی جتوئی تحصیل میں کاشتکاری کرتے ہیں۔ اگلے روز بہت افسردہ تھے کہ کپاس کی بیشتر فصل کو سفید مکھی نے چاٹ کھایا۔ منافع تو دُور کی بات ہے اس بار تو لاگت بھی وصول نہیں ہوگی۔ یہ کپاس چُننے کا موسم ہے جسے بیچ کر زمینداروں کو سال بھر کی کمائی ہوتی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کپاس کی بجائے گنّا کیوں نہیں کاشت کرلیتے۔ اسکی فصل پر کیڑوں کا حملہ نہیں ہوتا یا کم ہوتا ہے۔ توکہنے لگے کہ انکے علاقہ میں ایک شوگر مل تھی جو بند پڑی ہے۔ یہ ایک بڑے سیاستدان کی ملکیت تھی۔ اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر انہوں نے روئی کی کاشت کے علاقہ میں یہ شوگر مل لگالی تھی لیکن اب بند ہوگئی ہے۔ غرض زمینداروں اور کسانوں کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں۔ زراعت ہماری وہ ریڑھ کی ہڈی ہے جو ٹوٹ گئی ہے لیکن اُسے کوئی جوڑنے کو تیار نہیں۔
اندازہ ہے کہ اس بار کپاس کی فصل تخمینہ سے بہت کم ہوئی ہے۔ صرف پچاسی لاکھ گانٹھیں ہونے کی توقع ہے۔ وفاقی چیمبر آف کامرس اور انڈسٹری کے مطابق ملک میں کپاس کی فصل کی پیداوار دس سال پہلے کے مقابلہ میں نصف رہ گئی ہے جب پاکستان روئی کی ایک کروڑ چالیس لاکھ گانٹھیں پیدا کرتا تھا۔ حالانکہ اس عرصہ میں برازیل، بھارت اور امریکہ میں کپاس کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس نقصان کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے حکومت کے اداروں نے کپاس کے نئے بیج نہیں بنائے جو کیڑوں کے حملوں کو برداشت کرسکیں۔ دوسرے ملکوں سے بیج پاکستان منگوا کر انکی نقل بنا لی جاتی ہے جن میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ کیڑے مکوڑوں کی یلغار کا مقابلہ کرسکیں۔ اسی طرح کِرم کُش ادویات میں ملاوٹ کامعاملہ سنگین ہے۔ حکومتی ادارے معیاری بیج مہیاکرنے اورجعلی ادویات کی روک تھام میں ناکام ہوچکے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس برس ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اپنی ضرورت کے لیے ستّر اسّی کروڑ گانٹھیں دوسرے ملکوں سے برآمد کروانا پڑیں گے جس پر اربوں ڈالر زرمبادلہ خرچ ہوگا۔ یہ روئی مہنگی بھی ہوگی۔ ٹیکسٹائل شعبہ کے منافع میں کمی آئے گی۔ یہ شعبہ ہماری معیشت کے لیے اتنا اہم ہے کہ گزشتہ مالی سال ہمارے ملک کی مجموعی برآمدات کا ستاون فیصد حصّہ ٹیکسٹائل پر مبنی تھا۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ بیٹھ جائے تو پوری معیشت نیچے آجاتی ہے۔ لیکن ہم بحیثیت قوم اتنے ناعاقبت اندیش ہیں کہ اس شعبہ کی بنیاد یعنی کپاس کی پیداوار کا تحفظ نہیں کرسکتے۔ ایک تو کپاس کی پیداوار کے علاقہ میں دھڑا دھڑ شوگر ملیں لگوادی گئیں۔ چینی بنانے کی کم سے کم چھتیس ملیں کپاس کے علاقہ میں قائم ہیں۔ اس پر مستزاد رُوئی کے بیج کی ترقی پر توجہ نہیں دی گئی۔ جس شے سے ہمارا رزق وابستہ ہے اس سے ہم لاپرواہ ہیں۔ سارا زور اُن چیزوں پر ہے جن کے لیے باہر سے قرض لینا پڑتا ہے تاکہ لمبی رقم آئے، منصوبہ بنے تو کمیشن، کک بیکس کھائیں۔
کپاس ہی نہیں پورے زرعی شعبہ کی حالت اچھی نہیں۔ اس پر ایک کاری وار تومسلم لیگ (ن)کے گزشتہ دور میں کیا گیا تھا جب بھارت سے اجناس اور سبزیوں کی درآمد کی کھُلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔ جن لوگوں نے پاکستان میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرکے ایسے جدید کھیت، شیڈ بنائے تھے جن میں درجہ حرارت کنٹرول کرکے بے موسمی سبزیاں اُگائی جاسکتی ہیں انکو بھارتی سبزیوں کی درآمد سے شدید نقصان اٹھانا پرا۔ انکے فارمز بند ہوگئے۔ سرمایہ کاری ڈوب گئی۔
ہماری زراعت کا ایک بڑا مسئلہ جلد خراب ہوجانے والی سبزیوں، پھلوں کو ذخیرہ (اسٹوریج) کرنے کی مناسب استعداد نہ ہونے کا ہے۔ جلد گل سڑ جانے والی اجناس کا تیس فیصد اسٹوریج نہ ہونے کے سبب ضائع ہوجاتا ہے۔ جب نئی فصل آتی ہے تو اسکی قیمت ایک دم گرجاتی ہے۔ زمیندار اونے پونے بیچنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس سال دیہات میں کاشتکاروں نے سات آٹھ روپے کلو کے حساب سے پیاز کی فصل بیچی جبکہ شہروں میں یہ تیس سے چالیس روپے کلو فروخت ہورہا تھا۔ ناکافی اسٹورریج کا سب سے زیادہ فائدہ آڑھتی اُٹھاتا ہے۔ دہائیاں گزر گئیں لیکن کوئی حکومت گودام، وئیر ہاوسز اور کولڈاسٹوریج بنانے میں نجی شعبہ سے ملکر سرمایہ کاری نہیں کرتی کہ کسان کو اپنی فصل کا مناسب معاوضہ مل جائے۔ اگر یہ کام کرلیا جائے تو غذائی اجناس کی سپلائی میں اُتار چڑھاو بھی کم ہوجائے گا۔ مہنگائی بھی نہیں ہوگی جیسے اب ٹماٹر رسد کم ہونے کے باعث تین سو روپے کلو تک جا پہنچا ہے۔ کاشتکار کی خوشحالی اورشہری طبقہ کو مہنگائی کے اثرات سے بچانے کے لیے اسٹوریج میں اضافہ کے لیے بڑے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اجناس کی سپلائی چین (رسد کا نظام) بھی بہتر بنایا جانا چاہیے۔ دیہات سے فصلوں کی پیداوار کے بارے میں قابل اعتماد معلومات جمع کرکے ایک مرکزی مقام تک بروقت پہنچائی جائیں جہاں کمی بیشی کے مطابق منصوبہ بندی کی جاسکے۔ اسی طرح اگر حکومت فوڈ پراسیسنگ کے کارخانے قائم کرنے کے لیے ترغیبات دے تو ہماری سبزیوں اور پھلوں کا ایک بڑاحصہ ضائع ہونے سے بچ سکتا ہے۔
پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کاتقریباً بیس فیصد حصّہ زراعت پر مشتمل ہے۔ اسے ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ ہماری بائیس کروڑ آبادی کی غذائی ضروریات کا نوّے فیصد ملک کے اندرپیدا ہونے والی اجناس اور سبزیوں سے پورا ہوتاہے۔ پاکستان میں جتنے لوگ برسر روزگار ہیں، ان میں سے نصف اپنی روٹی روزی زراعت کے شعبہ سے کماتے ہیں۔ ایسا اہم ترین شعبہ ہماری حکومتوں کی بے توجہی اور لاپرواہی کے سبب زبوں حالی کا شکار ہے۔ سرکاری سطح پر زراعت کی ترقی اور کاشتکاروں کے حالات بہتر بنانے کے لیے ٹھوس، جامع پالیسی پر عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ زرعی یونی ورسٹیوں، تحقیقی اداروں اور زرعی خدمات کے سرکاری مراکز کو باہم مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔