کراچی ملک کا ایک یتیم اور لاوارث شہر ہے۔ گزشتہ ہفتہ چند دنوں کی تیز بارش سے شہرمیں جوبربادی ہوئی ٹیلی ویژن چینل صبح شام دکھاتے رہے۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگ اپنی حالت ِزار کی ویڈیوز نشر کرتے رہے۔ یہ اس شہر کا حال ہے جو وفاقی حکومت کی آمدن کا تقریباً نصف مہیا کرتا ہے اور سندھ حکومت کے محصولات کا نوّے فیصدلیکن بارش کی صورت میں نکاسئی آب کے انتظام سے محروم ہے۔
کراچی کے محنت کش عوام کماتے ہیں جس پر جاگیردار، وڈیر ے عیش کررہے ہیں لیکن شہر کے باشندوں کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔ نہ صاف پانی ضرورت کے مطابق دستیاب ہے، نہ نکاسئی آب، نہ کوڑا کرکٹ اُٹھانے کا بندوبست ہے، نہ پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظام۔ آدھا شہر کچی آبادیوں میں مقیم ہے۔
یہ کہنا کہ کراچی سمندر کے کنارے آباد ساحلی شہرہے آدھا سچ ہے۔ اب یہ شہرشمال اور مغرب کی جانب اتنا پھیل گیا ہے کہ اسکا بہت سا حصّہ سمندر کے کنارے واقع نہیں ہے بلکہ دُور واقع کیر تھرپہاڑیوں کے کنارے کو چُھو رہا ہے۔ ان پہاڑیوں میں قدرت نے ہزاروں برس میں پانی کے نکاسی کے راستے بنائے ہوئے ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے تو پہاڑیوں سے پانی ان راستوں سے بہہ کر نیچے آتا ہے یعنی سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقہ میں جو کراچی کا مغربی علاقہ ہے۔ یہ برساتی نالے ملکر ہی شہر کی دو ندیاں بناتے ہیں جنہیں لیاری اور ملیر ندی کہا جاتا ہے۔ یہ ندیاں پانی لیکر سمندر میں گرتی ہیں۔ ان قدرتی نالوں کے راستوں میں رہائشی کالونیاں بن چکی ہیں جنکے ساتھ نکاسئی آب کی غرض سے ڈرین نہیں بنائے گئے۔ ان قدرتی برساتی نالوں اور ندیوں سے ریت نکالی جاتی ہے جس سے تعمیرات کی جاتی ہیں۔ اس لئے ان ندی نالوں میں پانی کا بہاؤ مزید تیز ہوگیا ہے جو شہر کا رُخ کرلیتا ہے۔
ماہر تعمیرات اور اربن پلانرعارف حسن صاحب کے مطابق شہر میں چونسٹھ پینسٹھ بڑے نالے ہیں اور ہزاروں چھوٹے چھوٹے نالے ہیں۔ لیکن ہاؤسنگ سوسائٹیاں بناتے ہوئے ان نالوں کو محفوظ نہیں کیا گیا بلکہ ان پر تعمیرات کرلی گئیں۔ پانی کے بہہ جانے کے قدرتی راستے مسدود کردیے گئے۔ چھوٹے چھوٹے نالے غائب ہوگئے۔ اس پر مستزاد سڑکوں کے ساتھ بنائی جانے والی ڈرین ندیوں میں نہیں گرتیں جس کی وجہ سے بالآخر انکا پانی سڑکوں پر بہنے لگتا ہے۔ جب زیادہ مینہ برستا ہے تو شہر کی سڑکیں برساتی نالوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں جسکا مظاہرہ ہم نے چند دنوں پہلے دیکھا۔
1960کی دہائی تک کراچی کاسرکاری ترقیاتی ادارہ (کے ڈی اے) اپنی اسکیموں میں گھروں کا گندہ پانی (سیویج) اور برساتی پانی کے نکاس کے لیے الگ الگ نظام بناتا تھا۔ تاہم نجی ہاوسنگ اسکیموں نے اپنے سیویج بڑے برساتی نالوں میں ڈالنے شروع کردیے۔ بعد میں کے ڈی اے نے بھی ایسا کرنا شروع کردیا۔ اب شہر کا بیشتر سیوریج برساتی نالوں میں جاتا ہے۔
سیوریج کا فضلہ برساتی نالوں میں جمتا ہے لیکن ان کی باقاعدگی سے صفائی نہیں کی جاتی کہ پانی کا بہاؤ ہوتا رہے۔ کچھ عرصہ پہلے عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک نے کراچی میں نکاسئی آب کے لیے اچھی خاصی فنڈنگ کی تھی لیکن وہ بھی ناقص فالو اَپ کی نذر ہوگئی۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی جو کراچی شہر میں سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرتی ہے اپنے رہائشیوں کونکاسئی آب کی مناسب سہولت تک مہیا نہیں کرسکتی۔ حقیقت یہ ہے کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ کالونی ایک بڑے برساتی نالہ کے راستے میں بنائی گئی ہے جو پانی کے سمندرمیں نکاس کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی طرح کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ہاؤسنگ سوسائٹی بھی ایک بڑے قدرتی نالہ کا بہاؤ روکتی ہے۔ مائی کلاچی بائی پاس ایک بڑے نالے کے راستے میں تعمیر کیاگیا ہے۔
جو کسر رہ گئی تھی وہ نالوں میں کی گئی ناجائز تجاوزات نے پوری کردی۔ کراچی کے بڑے نالوں کے بیچوں بیچ مکان اور دکانیں بنائی گئی ہیں۔ پانی کیسے سمندر میں جائے؟ شہر کے تین بڑے نالوں کا راستہ صاف کرنے کے لیے کم سے کم اسیّ ہزار مکانات منہدم کرنا پڑیں گے۔ جب یہ سب غیر قانونی کام ہورہا تھا تو حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے رہے یاان کاموں میں شریک کار تھے۔
حال ہی میں نیا ناظم آباد کے نام سے ایک نئی پرائیویٹ ہاؤسنگ اسکیم بنائی گئی جہاں بارش میں مکانات نو دس فٹ پانی میں ڈوب گئے۔ اس کالونی میں برساتی پانی کے نکاس کے لیے کوئی ڈرین نہیں بنائی گئی۔
لوگوں کی کروڑوں روپے کی جائیداد تباہ ہوگئی۔ اس ناقص ہاؤسنگ اسکیم کو بنانے والے اور اسکی منظوری دینے والے دونوں قصور وار ہیں لیکن بااثر لوگوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
کراچی شہر کی بیس سے زیادہ بڑی سڑکیں ہیں جس کے ارد گرد بڑے بڑے بنگلے تھے لیکن انہیں کسی منصوبہ بندی کے بغیر تجارتی علاقہ بنادیا گیا۔ اب وہاں بڑے بڑے پلازے، شاپنگ مالز ہیں۔ جہاں چند سو لوگ رہتے تھے وہاں ہزاروں لوگ بزنس کرتے ہیں۔
لاکھوں لوگ آتے جاتے ہیں۔ یہ نہیں سوچا گیا کہ زیادہ لوگوں کے لیے استعمال کا پانی، نکاسئی آب کا بندوبست کیسے ہوگا اور ٹریفک کا ہجوم کیسے قابو کیا جائے گا۔
پارکوں کی کچی زمین پانی جذب کیا کرتی تھی وہاں چائنہ کٹنگ کرکے مکانات بنادیے گئے۔ ناجائز تجاوزات اور تجارتی علاقے قرار دیے جانے کے کام ایم کیو ایم نے انجام دیے۔ شہر کی تباہی میں وہ برابر کی ذمہ دار ہے۔
کراچی کے انفراسٹرکچر میں گزشتہ با رہ برسوں میں بہت کم سرمایہ کاری کی گئی۔ پیپلز پارٹی جب اقتدار میں آتی ہے، کراچی شہر کو نظر انداز کیا جاتا ہے کیونکہ اسے یہاں سے ووٹ نہیں ملتے۔ اس بار تواسکے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری لیاری کی پکی سمجھے جانے والی اپنی خاندانی نشست سے بھی ہار گئے تو جذبہ انتقام اور بھی زیادہ ہے۔
رواں مالی سال کراچی شہر سے سندھ حکومت کو سوا تین سو ارب روپے کی آمد ن متوقع ہے لیکن سالانہ ترقیاتی بجٹ میں اسکے لیے صرف پچیس تیس ارب روپے کی اسکیمیں مختص ہیں۔ حالانکہ اس شہر کے بنیادی مسائل حل کرنے کی خاطر سالانہ ڈیڑھ دو سو ارب روپے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
کراچی شہرسے کما کر اپنی جھولیاں بھرنے والے بہت ہیں لیکن اس پر خرچ کرنے والا کوئی نہیں۔ بارش کے بعد جب بھی شہر میں سیلاب آتا ہے چند روزاسکا اثر رہتا ہے۔ موجودہ حالات میں بہتری کے لیے کوئی ٹھوس کام ہوجائے تو معجزہ ہی ہوگا۔