تحریک انصاف کی حکومت نے یکم جولائی سے بالآخر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ قائم کردیا ہے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی سطح کا ایک سینئر افسراس سیکریٹریٹ کا سربراہ ہوگا۔ اٹھارہ اہم صوبائی محکموں کے اسپیشل سیکرٹری بہاولپور میں سیکرٹریٹ میں بیٹھیں گے اور ان محکموں سے متعلق اکثر و بیشتر فیصلے بہاولپور میں ہوجایا کریں گے۔ ایک ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس ملتان میں تعینات ہونگے جن کے پاس انسپکٹر جنرل ایسے اختیارات ہونگے۔
جنوبی پنجاب گیارہ ضلعوں پر مشتمل ہے جن میں بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، لیّہ، مظفر گڑھ، ملتان، لودھراں، خانیوال، وہاڑی شامل ہیں۔ ان تمام اضلاع میں سرائیکی بولنے والے اکثریت میں ہیں۔ صرف وہاڑی ایسا ضلع ہے جہاں پنجابی بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ اگر وہاڑی کو نکال دیا جائے تویہ دس سرائیکی اضلاع تین کروڑ سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہیں یعنی موجودہ پنجاب کی تیس فیصد آبادی ان علاقوں میں رہتی ہے۔ ان دس ضلعوں میں قومی اسمبلی کے 272 میں سے 39 حلقے شامل ہیں۔ یہ پنجاب کے پسماندہ ترین علاقے ہیں جہاں کم سے کم اسیّ فیصد آبادی یا تو بہت غریب ہے یا غربت سے بھی نیچے۔ آبادی کی اکثریت کاشت کاری سے وابستہ ہے، صنعتی شعبہ بہت چھوٹا ہے۔ طویل عرصہ سے جنوبی پنجاب کی دولت ملک کے دیگر حصوں میں منتقل ہوتی آرہی ہے۔ یہ علاقہ پورے پاکستان کو گندم فراہم کرتا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں جو گندم پیدا ہوتی ہے وہ وہاں کے رہنے والوں کی ضرورت کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں اتنی زیادہ گندم پیدا ہوتی ہے جو باقی پنجاب، خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور سندھ کی ضروریات بھی پوری کرتی ہے۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ محنت کش کسان جو یہ گندم پیدا کرتے ہیں مفلوک الحال ہیں۔ وہ اپنی غربت کے باعث سستے داموں گندم بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں جسے ذخیرہ اندوز آڑھتی اور مل مالکان مہنگے داموں شہری علاقوں میں فروخت کرتے ہیں۔ اسی طرح سرائیکی علاقہ میں سفید سونا یعنی کپاس پیدا ہوتی ہے جس پر ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کا دارومدار ہے۔ کپاس اور ٹیکسٹائل ہمارے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کاشتکاروں سے سستے داموں کپاس خرید کر انڈسٹری اربوں، کھربوں روپے کماتی ہے اور حکومت کو بھی اس سے ٹیکس وصول ہوتے ہیں۔ البتہ طویل عرصہ تک حکومت کے ترقیاتی کاموں کی فہرست میں جنوبی پنجاب ترجیح نہیں رہا۔ سرکاری ملازمتوں میں بھی سرائیکی اضلاع کے عوام کا حصہ آبادی کی تناسب سے بہت کم ہے۔ اسی لیے اس علاقہ میں احساس محرومی نے جنم لیا اور بات الگ صوبہ کے مطالبہ تک جا پہنچی۔
تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت صوبہ کے جنوبی اضلاع میں ملنے والی کامیابی سے ہی ممکن ہوئی۔ وسطی پنجاب سے تو اسے بہت کم نشستیں ملی تھیں۔ عمران خان نے الیکشن کے موقع پر جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن وفاق اور پنجاب میں اپنی پارٹی کی حکومت بنانے کے بعد اب تک وہ یہ کام نہیں کرسکے۔ نیا صوبہ بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے جس کے لیے قومی اسمبلی اور سینٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ تحریک انصاف کے پاس دو تہائی تو کیا سادہ اکثریت بھی نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں متعدد چھوٹی جماعتوں کے تعاون سے وزیراعظم عمران خان کو سادہ اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ سینٹ میں تو ایسا بھی نہیں ہے۔ ایک عام قانون پاس کرانے کی غرض سے پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں سادہ اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک حکومت مؤثر قانون سازی نہیں کرسکی کیونکہ سینٹ پر اپوزیشن کا غلبہ ہے۔ کچھ یہی حال صوبہ پنجاب میں ہے جہاں تحریک انصاف نے ق لیگ اور آزاد امیدواروں کی حمایت سے وزارت ِاعلی قائم کی ہوئی ہے۔ ان ناسازگار حالات میں وزیراعظم عمران خان نے ایک بڑا فیصلہ تو یہ کیا کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنایاتاکہ کسی حد تک سرائیکی علاقہ کے عوام کو مطمئن کیا جاسکے۔ یہ ایک اہم اقدام تھا کیونکہ وزیراعلیٰ صادق حسین قریشی کے اکتالیس سال بعد پہلی مرتبہ جنوبی پنجاب کو وزارت اعلیٰ کا منصب ملا۔
وسطی پنجاب کی اشرافیہ نے عثمان بزدار کی پہلے دن سے شدید مخالفت کی، اُنکے خلاف سخت پروپیگنڈہ مہم چلائی، افسرشاہی نے بھی ان سے عدم تعاون کی پالیسی اختیار کی لیکن وزیرعظم عمران خان اپنے موقف پرڈٹے رہے۔ میڈیا جو بھی شور مچائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کو بزدار کی وزارت اعلیٰ کا سیاسی فائدہ ہُوا ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں مشکل معاشی صورتحال کے باوجود جنوبی پنجاب میں ترقیاتی کاموں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اب جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام سے ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے رہنے والوں کے لیے مزید آسانیاں پیدا ہونگی۔ راجن پور اور رحیم یار خان جیسے دُور دراز علاقوں سے عوام کو لاہور کے چکر نہیں کاٹنا پڑیں گے۔ انکے زیادہ تر مسائل بہاولپور سیکرٹیریٹ میں حل ہوجایا کریں گے۔ ماتحت پولیس سے متعلق اکثر شکایات کا ازالہ ملتان میں ہوجایا کریگا۔ جنوبی اضلاع کے بڑے زمینداروں کی اجارہ داری میں کمی آئیگی کیونکہ ان کیلئے تو لاہور آنا جانا آسان تھا۔ وہ لاہور آکر اپنے کام کروالیتے تھے۔ دِقّت تو درمیانہ طبقہ اور غریب لوگوں کے لیے تھی۔ ان کیلئے لاہور کا سفر اور قیام و طعام ممکن نہ تھا۔ اب انکی رسائی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں اعلیٰ افسران تک ہوجائے گی جہاں وہ اپنا مقدمہ پیش کرسکیں گے۔ عین ممکن ہے کہ بڑے زمینداروں، جاگیر داروں کو بھی یہ بات پسند نہ آئے اور وہ اس نئے نظام کی مخالفت شروع کر دیں۔ پاکستان بننے سے اب تک ان سرائیکی جاگیرداروں نے اقتدار کے خوب مزے لوٹے ہیں لیکن اپنے عوام کو انکے بنیادی حقوق سے محروم اور معاشی طور پر پسماندہ رکھا۔
وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والی افسر شاہی کی پنجاب کے اقتدار اور وسائل پر مضبوط گرفت ہے، وہ اس تجربہ کو ناکام بنانے کے لیے مہم چلاسکتی ہے۔ اس تجربہ کو کامیاب کرنے کے لیے حکومت کو اِس بیوروکریسی کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کا قیام اس علاقہ کے عوام کو انکے سیاسی اور معاشی حقوق دلوانے کی جانب اہم پیش رفت ہے۔ اگر حکومت ثابت قدمی سے اس منصوبہ پر عمل پیرا رہی تو اس سے گورننس بہتر ہوگی اور عوام کو ریلیف بھی ملے گا۔