وزیر اعظم عمران خان کے انتخابی منشور میں ایک بڑا وعدہ یہ تھا کہ وہ پولیس کے نظام کی خرابیاں دُور کرکے اسے عوام کی خدمت کا ادارہ بنائیں گے۔ وہ اکثر خیبر پختونخواہ کی پولیس کا حوالہ دیا کرتے تھے جہاں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے انکے بقول پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کرکے ایک مثالی ادارہ بنادیا تھا۔ تاہم گزشتہ دو برسوں سے وفا ق اور پنجاب میں انکی حکومت ہے لیکن وہ اب تک پولیس کی بہتری کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکے۔ ان کے دور میں پنجاب میں چار انسپکٹر جنرل پولیس مقرر کیے جاچکے ہیں حالانکہ قانون کے مطابق اس عہدہ کی مدت تین برس ہے۔ اب تک پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں کسی بھی پولیس چیف کو اسکی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ پولیس کے سیاسی اثر و رسوخ سے آزادانہ طور پر کام کرنے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ اسکے سربراہ کو ایک مقررہ مدت کے لیے کام کرنے دیا جائے تاکہ وہ اپنی بصیرت، صلاحیت اور تجربہ کے مطابق پولیس فورس سے کام لے سکے۔ امریکہ، یورپی ممالک، جاپان وغیرہ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ پولیس اصلاحات کے بلند بانگ دعوے کرکے اقتدار میں آنے والے عمران خان پولیس کے موجودہ نظام کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں، وہ بھی روایتی انداز میں پولیس کا نظام چلا رہے ہیں۔ کسی مثبت تبدیلی کا خواب ہَوا ہوگیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی پولیس اصلاحات نہ کرسکنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام اس تبدیلی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہمارے ملک میں حلقہ بندیوں کی بنیاد پر منتخب ہونے والے ارکان ِقومی وصوبائی اسمبلی موجودہ پولیس نظام میں تبدیلی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر اُوپر سے نیچے تک میرٹ کی بنیاد پر پولیس افسر تعینات کیے جائیں گے تو ارکانِ صوبائی اسمبلی بغاوت کردیں گے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم نہیں رہ سکے گی۔ حکومت کے اتحادی ٹوٹ جائیں گے۔ حکومتی پارٹی میں فارورڈ بلاک بن جائے گا۔ ارکانِ اسمبلی اسے اپنا حق سمجھتے ہیں کہ ان کے علاقہ میں انکی مرضی سے پولیس افسران کا تقرر کیا جائے۔ یہ پولیس افسران اس رکنِ اسمبلی اپنے حلقہ میں چودھراہٹ قائم رکھنے اور اسکے مخالفین کا ناطقہ بند رکھنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ حلقہ بندی کی بنیاد پر قائم پارلیمانی طرز حکومت کی ڈائنامکس، حرکیات ایسی ہیں کہ ارکان اسمبلی کی پولیس کے معاملات میں مداخلت کو روکا نہیں جاسکتا۔ یہ ایک خام خیالی ہے کہ برطانیہ کا پارلیمانی نظام حکومت ہمارے ملک میں بھی اسی طرح کام کرے گا جیسا یہ برطانیہ میں کرتا ہے۔ بعض پولیس افسران جاپان کے پولیس سسٹم سے بہت متاثر ہیں اور اس جیسا نظام پاکستان میں لانے کی وکالت کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستانی اور جاپانی معاشرہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جاپان میں نہ بڑے زمیندار ہیں، نہ قبائلی سردار، نہ برادری کی تقسیم۔ تعلیم کی شرح ہماری نسبت بہت زیادہ ہے اور معیشت بہت ترقی یافتہ۔
پاکستان کے معاشرہ کی ساخت، سماجی حالات، عمرانی حقائق (سوشیالوجی) اور لوگوں کے عقائد اور روّیے برطانیہ اور جاپان سے حد درجہ مختلف ہیں۔ پاکستان میں جاگیردارانہ اور قبائلی معاشرت کا غلبہ ہے، برطانیہ، یورپ اور جاپان کے ملکوں میں متوسط طبقہ کا۔ ان کے ہاں قانون کی حکمرانی ہے، ہمارے ہاں حکمرانوں کا قانون ہے۔ برطانیہ میں، جہاں سے ہم نے جمہوریت کا سبق سیکھا ہے، ارکان اسمبلی کا کام قانون سازی اور پالیسی معاملات پر بحث و مباحثہ ہے۔ ہمارے ارکان اسمبلی کو اس کام میں سب سے کم دل چسپی ہوتی ہے۔ امریکہ، برطانیہ یا یورپ کے کسی ملک میں کوئی رکن اسمبلی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ پولیس چیف کے پاس جا کر سفارش کرے کہ کسی خاص افسر کو فلاں علاقہ کا تھانیدار مقرر کردو یاکسی مقدمہ کی تفتیش ایک افسر سے تبدیل کرکے کسی دوسرے افسر کو سونپ دو۔ یورپ کے ملکوں میں ایسا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے ہاں اس قسم کی مداخلت عام سی بات ہے۔ جو پولیس افسر رکن اسمبلی کی سفارش نہیں سنتا اُسکا تبادلہ کردیا جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر دیانتدار اور سیاسی اثر و رسوخ کے سامنے نہ جھکنے والے پویس افسران کو اچھی پوسٹنگ نہیں دی جاتی بلکہ کھڈے لائن لگادیا جاتا ہے۔ موجودہ پولیس کا نظام عوام کی نظر میں جتنا بھی بُرا ہو لیکن یہ پاکستان کے حکمران طبقہ کی ضروریات اور مفادات پورا کررہا ہے۔ اس حکمران طبقہ میں بڑے زمیندارقبائلی سردار، بڑے بزنس مین، مذہبی رہنما، سول و ملٹری افسران، میڈیا اور سیاستدان شامل ہیں۔ پولیس کے اعلیٰ افسران بھی حکمران طبقہ کا حصّہ ہیں۔ پولیس سے متعلق اس طبقہ کے لوگوں کا کوئی کام نہیں رُکتا۔ مقدمہ درج کرانا ہو تو ایف آئی آر بھی آسانی سے درج ہوجاتی ہے۔ تفتیش بھی شروع ہوجاتی ہے اور پسند کے افسر سے مرضی کے مطابق تفتیش بھی ہوجاتی ہے۔ پولیس کانسٹیبلوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس حکمران اشرافیہ کی حفاظت پر مامور رہتی ہے۔ پولیس کا نظا م خواص پر مشتمل ایک مخصوص طبقہ کی خدمت کے لیے بنایا گیا ہے۔ کچھ لوگ سادہ لوح ہیں۔ وہ غلط طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ پولیس کا کام عوام اور معاشرہ کی خدمت کرنا ہے۔ حقیقت میں عوام کا پولیس سے صرف اتنا تعلق ہے کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں سے اِس ادارہ کے سالانہ سینکڑوں ارب روپے کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔
ہمارا پولیس کا نظام ہماری جاگیردارانہ ریاست اور معاشرت کا لازمی حصّہ ہے۔ جب تک ملک کے حکمران طبقہ کی ساخت میں تبدیلی نہیں آتی، پولیس میں بامعنی اصلاحات نہیں ہوسکتیں۔ پاکستان کے اقتدار کے ڈھانچہ میں مڈل کلاس کا کوئی مقام نہیں، غریب عوام تو دُور کی بات ہے۔ اسمبلیوں کے الیکشن میں صرف بڑے زمیندار، قبائلی سردار اور دولت مندلوگ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ حلقہ بندیوں پر مشتمل پارلیمانی نظام میں یہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ متوسط طبقہ کے لوگ کبھی نظام ِاقتدار کاحصّہ بنیں گے۔ سفید پوش آدمی تو اب بلدیاتی کونسلر کا الیکشن بھی لڑنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ جب تک موجودہ سیاسی نظام قائم ہے، پولیس بھی موجودہ شکل میں رہے گی۔ جو لوگ خرابی کے اصل ذمہ دار ہیں ان کے ہوتے ہوئے خرابی دُور کرنا ممکن نہیں۔ پولیس اصلاحات کا عمل پُورے سیاسی نظام سے جڑا ہوا ہے۔ اس مکمل نظام کو تبدیل کیے بغیر پولیس کے نظام میں اصلاح ممکن نہیں۔ البتہ سیاستدانوں کا یہ پیشہ ہے کہ وہ عوام کو سبزخواب دکھاتے رہیں۔ (ختم شد)