کبھی آپ کو پاگل خانے جانے کا اتفاق ہو تو وہاں آپ ایک ایسا نظارہ دیکھیں گے جو نہ صرف آپ کے لیے سوہان روح ہوگا بلکہ آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرم محسوس ہوگی۔ وہاں انسان بند ہیں اور ان کی حالت جانوروں سے بدتر ہے یہ لوگ دماغی عارضوں کا شکار ہیں طب انھیں تندرست نہیں کرسکتی۔
جسمانی سزا کے ذریعے انھیں راہ راست پر لانے کی کوششیں بے کار ثابت ہورہی ہیں۔ برسوں آخری سانس تک انسان اس چار دیواری کے اندر سسکتا رہتا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اکثر ڈاکٹر مریض کے خارجی اسباب اور علامات کو دیکھتے ہیں اور نسخہ تجویزکردیتے ہیں وہ مرض کے نفسیاتی پس منظر کے جھنجھٹ میں پڑنا نہیں چاہتے، اس بے رخی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پاگل خانے کے اندر جاکر بہت کم لوگ تندرست ہوتے ہیں۔ وہاں کے ڈاکٹر ذہنی اعمال کو نظر اندازکرکے محض جسمانی علامات کو سامنے رکھتے ہیں۔
اب نئی روش میں فرد کی جبلتوں، جنسی دبائو، اعصابی دبائو اور ذہنی الجھنوں کا تجزیہ دنیا بھر میں نئے روپ میں پیش کیا جا رہا ہے کہ علاج قید و بند میں نہیں بلکہ ماہر نفسیات کے کلینک میں ہے۔ اس سے سماج کی بہت سی مشکلات حل ہو رہی ہیں اور وہ ایک ایسے سماج کی تشکیل کررہے ہیں جو صحت مند ہونے کے علاوہ پر سکون بھی ہے۔ آج ہم اپنے سماج کو کہیں سے بھی دیکھ لیں ہمارا سماج ایک بڑے پاگل خانے میں تبدیل ہوکے رہ گیا ہے جس میں لوگوں کی اکثریت دماغی عارضوں کا شکار ہوچکی ہے اور ان کی حالت جانوروں سے بدتر ہے۔
جب ایک نارمل انسان اپنے سماج کی اصلیت اور حقیقت سے آشکار ہوتا ہے تو اسے اپنے انسان ہونے پر شرم محسوس ہوتی ہے۔ ایک بدبو دار، تمام غلاظتوں سے بھرا تمام ذلتوں کو اپنے اندر سمائے ہوئے سماج کے اندر بسنے والوں کا انجام اس کے علاوہ اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔ انسان بقول ہومرکے لکڑی یا پتھرکا بنا ہوا نہیں ہوتا بلکہ وہ گوشت پوست کا لوتھڑا ہوتا ہے جس میں ایک دل ہوتا ہے اور ایک دماغ ہوتا ہے۔ اس کے اندر احساسات ہوتے ہیں ہر اچھی، بری چیزکا اس پر اثر ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی، ظلم، ناانصافی، بے اختیاری اس کے اندر روتی ہیں، بے کسی، بے بسی چیخیں مارتی ہیں، بھوک، غربت، افلاس اس کے ساتھ مل کر ماتم کرتی ہیں۔
اس کا اور اس کے پیاروں کا چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے تڑپنا، سسکنا، اس کے خوابوں اور خواہشوں کا روز مرنا اور جینا اسے چین نہیں لینے دیتا ہے۔ ایسے سماج میں انسان پاگل نہیں ہوجائے گا توکیا ہوگا۔ برگساں یہ ثابت کر چکا ہے کہ " انسانی ذہن کسی بھی لمحے میں پوری طرح خالی نہیں رہ سکتا یا تو ہم کچھ محسوس کرتے ہیں یا سوچتے ہیں یا کچھ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں یا عملی طور پرکچھ کر رہے ہوتے ہیں۔"
عظیم ماہر نفسیات برائر نے 1880-82میں اس حقیقت کو جان لیا بعد میں اس حقیقت کو فرائیڈ نے بھی تسلیم کیا کہ ہر نفسیاتی مرض کا تعلق مریض کی گزشتہ زندگی کے ساتھ بہت گہرا ہوتا ہے اور اگر اس تعلق کو دریافت کر کے مریضوں کا علاج کیا جائے تو مریض بہت جلد تندرست ہوسکتا ہے۔ اس پر جب فرائیڈ نے ویانا میں ڈاکٹر برائر کے ساتھ مل کرکام شروع کیا تو ان کے پاس ایک اکیس سالہ مریضہ " اینا " کو لایا گیا یہ لڑکی بے حد ذہین تھی اور دو سالہ بیماری کے دوران وہ کئی ذہنی اور جسمانی عوارض کا شکار ہوچکی تھی وہ بیک وقت بعض اعضا کے فالج اور بے حسی کا شکار تھی، اس کے لیے آنکھوں کی حرکت ایک مشکل کام تھا اسی کی نظر کمزوری کا شکار ہوچکی تھی۔
وہ سرکو سیدھا نہ رکھ سکتی تھی۔ کھانا کھاتے ہوئے اسے خوراک سے کراہت محسوس ہوتی تھی۔ مختلف معالجین کے زیر علاج رہنے کے باوجود اس کے مرض میں افاقہ نہیں ہوا تھا۔ برائر نے تنویم کے ذریعے اس کے علاج کی کوشش کی لیکن اس طریقہ علاج سے مریضہ صحت یاب ہوتی نظر نہ آئی۔ البتہ اس نے یہ محسوس کیا کہ جب مریضہ اس سے اپنی بیماری کے موضوع پرگفتگو کرتی ہے تو وہ قدرے افاقہ محسوس کرتی ہے۔ اس نے مریضہ سے اپنی بیماری کی ابتدا کے حالات بیان کرنے کے لیے کہا، مریضہ نے اپنی زندگی کے بہت سے تاریک گوشوں پر روشنی ڈالی۔
جوں جوں وہ اپنی زندگی کے راز افشا کرتی گئی وہ اپنے آپ کو بہتر محسوس کرتی چلی گئی۔ برائر اس امر پر خود بھی حیران تھا کہ اس نے مریضہ کو اس سے قبل کس قدر دوائیاں دی تھیں اور اس کا ہر ممکن علاج کیا تھا مگر وہ صحت یاب نہ ہوسکی، لیکن اب مریضہ اپنے حالات سنانے کے بعد تندرست ہونے لگی تھی۔
اس سلسلے میں فرائیڈ خود لکھتا ہے " یہ دریافت ہمارے لیے خود بھی حیرت انگیز تھی کہ جب ہم ہیجان انگیز واقعے کو یاد دلانے میں کامیاب ہوئے تو ساتھ ہی اس سے وابستہ جذبہ بھی ہم نے بیدار کردیا جب مریض نے اس واقعے کو تفصیل سے بیان کر دیا اور اس کے بارے میں اپنے محسوسات کا الفاظ کے ذریعے اظہار کردیا تو بیماریوں کی مختلف علامات فوراً ختم ہوگئیں اور پھر کبھی رونما نہ ہوئیں " ایک بار اعصابی امراض پر بحث ہورہی تھی کہ فرائیڈ نے ایک با تصویرکارڈ نکالا جس پر ایک گنوارکی تصویر تھی جو ایک کمرے میں کھڑا پھونکیں مارکر بجلی کا بلب بجھا رہا تھا۔
اس نے بتایا کہ اگر آپ لوگ بیماری کی علت کو براہ راست پکڑنا چاہتے ہیں تو آپ بالکل اس گنوارکا سا عمل کرتے ہیں، چاہیے تو یہ کہ آپ سوئچ کو تلاش کریں جس سے بجلی کو بند کیا جاسکتا ہے۔
فرائیڈ کہتا ہے کہ ہماری نفسیاتی زندگی کا مقصد مسرت حاصل کرنا اور اذیت سے بچنا ہے۔ شلر نے کہا تھا "دنیا کا سارا نظام بھوک اور محبت نے چلایا ہے" فرائیڈ کے مطابق بھوک سے مراد وہ جبلتیں ہیں جو فردکی تحفظ ذات کا باعث ہیں۔
فریڈک نطشے اپنی کتاب " ماورائے خیر و شر " میں لکھتا ہے " اذیت کے موضوع پر جوکتابیں جرمن میں لکھی گئی ہیں وہ ہر اس انسان کے لیے ہیں جس کے پاس تیسرا کان موجود ہے کس طرح ایک پریشان انسان آوازوں کی گردش کرتے ہوئے طوفان کے سامنے کھڑا ہوتا ہے جو کسی بھی چیز اور سر کے مطابق محسوس نہیں ہوتیں جو رقص نہیں کرتیں " جب البرٹ شوٹیزر 1952میں امن نوبیل انعام لینے اوسلو تشریف لائے تو انھوں نے ساری دنیا کو چیلنج کیا اورکہا کہ حالات کے مقابلے کی جرأت پیدا کرو۔ ہمارے سامنے اب صرف دو ہی راستے بچے ہیں، ایک تو یہ کہ اسی طرح اپنے پاگل خانے میں گھٹ گھٹ کر جیتے رہیں اور نئے پاگلوں میں اور اضافہ کرتے رہیں یا پھر ہم اپنے اندر حالات کے مقابلے کی جرأت پیدا کریں۔
یاد رکھیں ہمارے پاس بھی تیسرا کان موجود ہے۔ اس لیے آئیں ! اس میں پاگل خانے سے آنے والی آوازیں غور سے سنیں جو ہم سے کہہ رہی ہیں کہ ہماری زندگی کا واحد مقصد مسرت حاصل کرنا اور اذیت سے بچنا ہے۔ آئیں ! ہم اپنے اندر چھپے سارے دکھ اور اذیتیں اپنے آگے اگل کر خالی ہوجائیں اور ان لوگوں کی زندگی جنھوں نے ہماری زندگی دوزخ بنا رکھی ہیں۔ دوزخ بنا کے رکھ دیں اور ان کو موجودہ جگہ سے اٹھا کر ایک نئے پاگل خانے منتقل کردیں اور اپنے پاگل خانے کو ایک پر مسرت جنت میں تبدیل کردیں۔