اپنے بچوں کے قتل کے بعد ہیرا کلس کہتا ہے "میں مصائب سے کھچا کھچ بھرگیا ہوں اور اب مزید کوئی گنجائش نہیں ہے۔" مصائب انسان میں درد پیدا کرتے ہیں اور درد تکلیف کو جنم دیتے ہیں، اس لیے زندگی کے مسائل کو سمجھنے کے لیے تکلیف کے مفہوم کو جاننا ضروری ہوتا ہے۔
آج ہمارے سماج کا اذیت ناک المیہ ہے کہ لوگ اس طرح جی رہے ہیں جیسے یہ کوئی عادت ہو، ان کی ساری تگ و دو اب صرف اس بات کے لیے ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سانسیں برقرار رکھ سکیں وہ جینا بھول چکے ہیں زندہ رہنے کے مقصد کو فراموش کرچکے ہیں جب کہ دنیا کے تمام مفکرین، سقراط سے لے کر ولیم جیمز تک سب اس بات سے متفق ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد حصول مسرت ہے، خوشیوں کا حصول ہے۔
عظیم یہودی نفسیات دان وکٹر فرینکل کو نازیوں نے جنگ عظیم دوم میں جیل بھیج دیا۔ اس نے ایک بارکہا تھا "انسان تمام تکالیف کو اٹھانے کے لیے تیار رہتا ہے اور جب تک اسے اس کے مفہوم سے آگاہی رہے " فرینکل نے دوران اسیری غیر انسانی تجربات پر بہت غور و فکرکیا کہ کیمپ کے ظالمانہ اور وحشیانہ تشدد کے باوجود آخر زندہ کیوں کر رہتے ہیں، جب اس نے قریب سے دیکھا کہ کون زندہ رہ سکا اورکون زندہ نہیں رہ سکا تو اس کی سمجھ میں یہ حقیقت آگئی کہ زندگی کا تعلق اس بات سے نہیں ہے کہ کون جوان ہے اور جسمانی قوت سے بھرپور ہے بلکہ اصل قوت مقصد میں ہوتی ہے اس طرح اسے زندگی کا مفہوم معلوم ہوگیا تکلیف کے مفہوم کو سمجھنا ایک طاقتور طریقہ ہے جو ہماری کوششوں کے دوران مدد گار ہوتا ہے لیکن تکلیفوں کا مفہوم جاننا کوئی آسان کام نہیں۔ تکلیفیں عام طور پر یک بہ یک آتی ہیں غیر محسوس طریقے سے جس کا کوئی مفہوم نہیں ہوا کرتا وہ حقیقی اور مثبت مفہوم سے عاری ہوتی ہیں اور جب ہم دکھ درد کے درمیانی عرصے میں ہوتے ہیں تو ہماری تمام ترکوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم ان سے بچ سکیں۔
اس دوران ہم بہت ہی معمولی سی کوشش کرپاتے ہیں اور پھر ہم اپنے دکھ درد کو بلا وجہ اور نا منصفانہ سمجھتے ہوئے حیرت زدہ ہوجاتے ہیں کہ "آخر میں کیوں " سکون کے عرصے میں یعنی تکلیف کی شدت کے تجربے سے دوچار ہونے کے بعد ہم اپنی تکلیف کے متعلق سوچ سکتے ہیں تاکہ اس کے مفہوم کو سمجھ سکیں اور اس وقت اس کوشش کے دوران جب ہم تکلیف کا مفہوم جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو اس مفہوم کی فصل کاٹتے ہیں، ہمیں اس مفہوم کو اس وقت تلاش کرنا چاہیے جب حالات بہتر ہوں، ایک ایسا درخت جس کی جڑیں زمین کے اندر مضبوطی سے گڑی ہوں بڑے بڑے طوفانوں کا مقابلہ کرسکتا ہے لیکن درخت کی جڑیں طوفان کی موجودگی میں اندر تک مضبوطی سے نہیں پھیل سکتیں۔ پھر ہمیں اپنی تکلیفوں کی وجہ معلوم کرنے کے لیے کہاں سے ابتدا کرنی چاہیے؟
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تلاش کی ابتداء اپنی مذہبی روایات سے کرنی چاہیے۔ گو مختلف مذاہب انسانی دکھ کی مختلف وجوہات گردانتے ہیں۔ تمام مذاہب اپنے نظریے کے مطابق انسانی تکلیفوں کے متعلق اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے بنیادی طریقے اپناتے ہیں۔ بدھ مت اور ہندو دھرم کے مطابق ہمارے دکھ درد کی وجہ ہمارے ماضی کے غلط اعمال ہوتے ہیں۔
:The Third Man" کتاب کے مصنف گراہم گرین نے مشاہدہ کیا کہ اٹلی میں تیس بر س تک BOR GiAS کے تحت رہ کر بھی جنگ و جدل، خوف و دہشت، قتل اور خون خرابے کا بازار گرم رکھا تھا لیکن لوگوں نے Leonardo Davinci، Michelan Angelo اورRenaissanceتخلیق کیے جب کہ سوئزرلینڈ میں پانچ سو سال تک برادرانہ محبت اور سکون رہا جمہوریت اور امن رہا لیکن انھوں نے کیا تخلیق کیا؟ صرف کو کوگھڑیاں۔ عظیم شاعر ولیم ورڈ سورتھ نے کہا تھا کہ " سخت اذیت اور غم نے میر ی روح میں انسانی ہمدردی پیدا کردی۔"
بدھ مت کی ایک شاخ Mahayanaجو چین، جاپان اور تبت میں رائج ہے کہتے ہیں کہ اگر آپ بیمار پڑ جائیں درد میں مبتلا ہو جائیں یا دکھ میں تو آپ اسے ایک موقع جان کر سوچیے کیا میری یہ تکالیف دوسری تمام ذی حیات کی تکلیفوں کا بدل ہوسکتی ہے اس تجربے کے تحت کیا میں اس بات کا اہل ہو سکتا ہوں کہ دوسری ذی حیات کی ایسی تکلیفوں کا مداوا کرسکوں۔
مثال کے طور پر آپ صومالیہ کے ایک بھوکے بچے کا تصور کرسکتے ہیں اور محسوس کیجیے کہ اس منظر کو دیکھ کر آپ کا قدرتی رد عمل کیا ہو گا جب آپ تکلیف میں مبتلا بچے سے ہم آہنگی کے گہر ے جذبات محسوس کریں گے۔ تو پھر آپ ذہنی طور پر اس کے تمام دکھ، درد، غربت، بھوک اور محرومی کے محسوسات خود لے لیں گے اور ذہنی طور پر اپنی آسانیاں، دولت اورکامیابیاں اس بچے کو دے دیں گے چنانچہ ایسی " لینے اور دینے " کی مشقوں کے تصورکرنے سے آپ اپنے ذہن کی تربیت کرسکتے ہیں ایسی مشق کو وہ "ٹانگلن" مشق کہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں یہ ہماری تکلیفیں ہیں جو بنیادی عنصر کی حیثیت میں ہمیں دوسروں سے جوڑے رکھتی ہیں یہ وہ عامل ہے جو ہمیں دیگرزی حیات سے متحد رکھتا ہے۔ ڈاکٹر پال برانڈ کے مطابق زندگی کے مسائل کو سمجھنے کے لیے تکلیف کے مفہوم کو جاننا مفید ہوتا ہے، انھوں نے " درد کی حفاظت" کا تخلیقی تصور پیش کیا۔ ان کا خیال ہے کہ ہمیں درد محسوس ہونے سے قبل ہی اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہم تکلیف کے تجربے کے اگر مشکور نہیں ہوسکتے لیکن درد کے ادراک کے سسٹم کے شکر گزار ہوسکتے ہیں۔
انسانی حیات کی ابتدا اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے شروع ہوتی ہے کہ دکھوں کی کوئی بھی حیثیت ہو اس کا مقابلہ جواں مردی سے کیا جانا چاہیے دوسری طرف ہم جس طرح اپنے دکھوں اور تکلیفوں کے آگے بے بس ہوگئے ہیں ان سے لڑے بغیر ہار مان لی ہے وہ بحیثیت انسان ہمیں زیب نہیں دیتا۔ ہمارے دکھ اور تکلیفیں ہماری استاد ہیں جو چیخ چیخ کر ہمیں کہہ رہی ہیں کہ زندگی کا واحد مقصد حصول مسرت ہے اور اسے حاصل کیے بغیر تمہارا مرنا جائز نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم دکھوں اور درد کی شدت سے نڈھال ہوچکے ہیں۔
زندگی کی تمام راحتیں، مسرتیں اور لذتیں ہمارے لیے حرام قرار دے دی گئی ہیں ڈھونڈنے سے بھی آسانی کا کوئی راستہ نہیں مل پا رہا ہے یہ بھی سچ ہے کہ ہم اپنی تمام تر ہمتیں ہار بیٹھے ہیں۔ بے بسی کی اس سے زیادہ آگے اورکوئی حد نہیں پائی جاتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے دکھوں اور تکلیفوں نے ہمیں وہ ہمت اور قوت عطا کر دی ہے جو ابھی تک ہم نے اپنے اندر ڈھونڈی نہیں ہے ہم سے پہلے بہت پہلے اور حال ہی میں بہت سی اور قوموں پر ہم سے زیادہ برا وقت آچکا ہے۔
ہم سے زیادہ تکلیفیں اور دکھ انھوں نے اٹھائے وہ بھی دکھ، درد اور تکلیفوں سے نڈھال ہوچکے تھے، لیکن انھوں نے ان ہی میں سے اپنی زندگی کا حقیقی مقصد ڈھونڈ نکالا۔ انھوں نے اپنے درد کی حفاظت کی اور اسی درد نے انھیں ان کی منزل تک پہنچنے میں مدد کی اور رہنمائی کی۔ ہمیں بھی اپنے درد کا شکرگزار ہونا چاہیے کیونکہ اگر درد نہ ہوتا تو ہمیں راحتوں، مسرتوں اور لذتوں کی طرف جانے کا ر استہ کون دکھاتا۔