شیکسپیئر اپنے ڈرامے King Lear میں دکھاتا ہے کہ جب تک شاہ لیئر پاگل نہیں ہو جاتا، زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اور گلو سٹر کو زندگی کی حقیقت اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا۔
سارتر نے کہا ہے "زندگی چپکنے والی غلاظت ہے جو بہتے بہتے جم گئی ہے" جب کہ کیرک گرد کہتا تھا " میں کبھی بھی بچہ نہیں تھا میں کبھی بھی جوان نہیں ہوا میں کبھی بھی زندہ نہیں رہا میں کبھی بھی کسی انسان سے محبت نہیں کر سکا زندگی کس قدر کھوکھلی اور لغو ہے کوئی کسی کو دفن کرتا ہے، کوئی میت کے ساتھ جاتا ہے۔
کوئی قبر میں تین بیلچے مٹی کے پھینکتا ہے آخر ستر برس کی عمر کب تک ساتھ دے گی کیوں نہ اس زندگی کا فوری طور پر خاتمہ کر دیاجائے کیوں نہ آدمی قبرستان میں ڈیرے ڈال دے، کیوں نہ قبر میں گھس جائے۔" کہو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95 فیصد انسانوں کے یہ ہی احساسات و جذبات ہیں کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ آج پاکستانی سارتر کی بات سے متفق ہیں کہ زندگی چپکنے والی غلاظت ہے۔
پاکستانیوں میں کوئی ایک شخص دکھا دو جو دل سے ہنستا ہو جسے کوئی غم نہ ہو کوئی فکر نہ ہو کوئی پریشانی نہ ہو جو چین سے سوتا ہوخدا کے واسطے کسی ایک شخص کا نام بتادو جس کے اندر کوئی شور نہ مچاتا ہو جس کے اندر ننگی چیخیں نہ چیختی ہوں جو روز نہ مرتا ہو جو روز نہ جیتا ہو خدا کے واسطے کسی ایک شخص کاپتہ بتلا دو جو روزاپنی قبر نہ کھودتا ہو۔
اس وقت ماتم کرنے کو دل کرتاہے جب محلوں میں بیٹھے اونچے اونچے تختوں پر براجمان موٹے موٹے پیٹ والے یہ کہتے ہیں کہ" ملک ترقی کررہاہے، ملک سے غربت کا خاتمہ ہورہاہے، خوشحالی آرہی ہے، لوگوں کا سکون لوٹ رہا ہے۔" ارے! کوئی ان اندھوں اوربہروں کو ملک کی گندی اور غلاظت سے بھری بستیاں دکھا دے، خون تھوکتے انسان دکھا دے اپنے آپ کو پیٹتی بہنوں اور بیٹیو ں کو دکھا دے، بھوکے سوتے بچوں کو دکھا دے تڑپتی بلکتی سسکتی ماؤں کو دکھا دے۔
خدا راکوئی تو اٹھے جو ان اندھوں اور بہروں کو ملک کی بستیو ں میں لے جائے۔ انجلس کہتا ہے " محل میں رہنے والے اور جھونپڑے میں رہنے والے مختلف طریقوں سے سوچتے ہیں " گویاجب تک جھونپڑے میں رہنے والے کو محل میں یا محل میں رہنے والے کو جھونپڑے میں نہیں رکھا جائے گا، اس کے سو چنے کے انداز اور طرز احساس کو بدلا نہیں جاسکتا۔ اس لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے امیروں بااختیا روں، جاگیرداروں تم ہم 95 فیصد انسانوں سے بالکل الگ ہو بالکل مختلف ہو تم اور ہم ایک کیسے ہوسکتے ہیں جب کہ تم ہمارے غموں اور دکھوں کو محسوس ہی نہیں کرسکتے ہو۔
تم ہمار ے جیسے کیسے ہوسکتے ہو کہ تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ غربت اور افلاس کس بلا کانام ہے فاقوں کی تکلیف کیسی ہوتی ہے بیروزگاری کاغم جسم کوکیسے کاٹتا ہے، خواہشوں اورامیدوں کے قتل عام پر دل کیسے روتا ہے نہیں تم اور ہم الگ الگ ہیں تمہارا پاکستان الگ ہے ہمارا پاکستان الگ ہے۔ تمہارے خون کا رنگ الگ ہے ہمارے خون کا رنگ الگ ہے۔ تمہارے جسم الگ ہیں ہمارے جسم الگ ہیں۔
میرے ملک کے اہل ثروت اگر تم کواس بات کا احساس ہو جائے کہ تم کیسی بے مصرف، بے معنیٰ، بے مقصد اور بے کیف زندگی گزار رہے ہو تو تم زر و جواہرات و ہیرے کے انبار اٹھا کر گلی میں پھینک د ولیکن مشکل تو یہ ہی ہے کہ تمہارا یہ احساس بھی سلب ہو چکا ہے۔
تمہارے نصیب میں یہ لکھا جاچکاہے کہ تم سونے کی بھاری صلیب اٹھائے اٹھائے پھرتے رہو، خو اہ اس کے بوجھ تلے تمہارے کندھے شکستہ ہوجائیں، تم تھک کر نڈھال ہو جاؤ، ہانپتے کاپنتے پھر اٹھ کھڑے ہو اور اس صلیب سے پھر چمٹ جاؤ، یہ ہی تمارا مقدر ہے جب سکندر اعظم 325 ق م میں شمالی مغربی ہندوستان میں گھو ما تو وہ پنجاب میں اور اس کے آس پاس مقامی باشندوں کے ساتھ لڑائیوں کے ایک سلسلے میں الجھا اور ساری کی ساری جیت لیں لیکن وہ اس قابل نہ ہوسکا کہ اپنے سپاہیوں میں اتنا جوش و خروش پیدا کر سکے کہ وہ طاقتور شاہی نندا خاندان پر حملہ کرسکیں جو مشرقی ہندوستان کے شہر پٹالی پترا (جواب پٹنہ کہلاتا ہے) اور جو ہندوستان کے بیشتر حصے پر حکومت کرتا تھا، تاہم سکندر اعظم خاموشی سے یونان واپس جانے کے لیے تیار نہ تھا اور ارسطو کے اچھے شاگر د کے طورپر اس نے خاصاوقت ہندوستان کے فلسفیو ں اور نظریہ سازوں (مذہبی اور سماجی) کے ساتھ پر سکون گفتگو منعقد کرنے میں گذارا۔
ایک زیادہ پر جو ش مباحثے میں دنیا کے فاتح نے جین فلسفیو ں کے ایک گروہ سے پو چھا کہ" وہ اس کی طرف توجہ دینے کو کیوں نظرانداز کررہے ہیں " اس سوال کا جواب اس نے یہ پایا۔" بادشاہ سکندر ہر شخص صرف زمین کے اتنے حصے کامالک ہوسکتا ہے جتنے پر ہم کھڑے ہوئے ہیں۔
آپ بھی ہم میں سے باقی سب کی طرح ایک انسان ہو سوائے اس کے کہ آپ ہر وقت مصروف رہتے ہواور کسی اچھائی کے لیے نہیں۔ اپنے گھر سے اتنے میل ہامیل دو رسفر کررہے ہو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے ایک پریشانی کا باعث ہو آپ جلد ہی مرجاؤ گے اورتب آپ صرف اس قدر زمین کے مالک ہوگئے جو آپ کو اپنے اندر چھپانے کے لیے کافی ہوگی "۔ میر ے ملک کے بااختیاروں، طاقتوروں اور اہل ثروت یہ ہی بات تمہارے سو چنے کی بھی ہے اور باربار سوچنے کی ہے لیکن کیاکریں تمہاری سو چنے کی صلاحیت بھی سلب کرلی گئی ہے۔
اس لیے تم اپنی سزا پوری کرتے رہو اورمیر ے جیسے 95 فیصد لوگ اور تو ہم کچھ کرسکتے ہیں نہیں اس لیے آئیں جی بھر کے رولیں کہیں ایسانہ ہو کہ ہمارے دل ہی پھٹ جائیں اس لیے کہ ہم بہت ضبط کرچکے ہیں بہت دکھ سہہ چکے ہیں بہت برداشت کرچکے ہیں خیال رہے ہم سب گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان ہیں پتھر یالکڑی کے نہیں جیسا کہ ہومر نے کہا تھا اس لیے ذہن میں رہے ہمارے دل پتھر کے بنے ہوئے نہیں ہیں ہمارے احساسات سیمنٹ کے نہیں ہیں ہمارے جذبات بجر ی کے نہیں ہیں کہ ان پر کسی بات کا اثر نہ ہو اسی لیے کہتا ہوں آئیں جی بھر کر رولیں تاکہ ہماری اندر کی ساری اذیتیں ساری تپش آنسوؤں کے ذریعے باہر نکل آئے اور ہمارے اندر کا جلتا سمندر ٹھنڈا ہوسکے۔
جارج اور ویل نے اپنی مشہور تصنیف میں لکھا تھا کہ ایک تصوراتی مملکت کی " سچائی کی وزارت " پر پارٹی کا منشور تحریر تھا جو کچھ اس طرح سے تھا " جنگ امن ہے، آزادی ایک غلامی ہے، جہالت ایک قوت ہے۔" ان ہی سب چیزوں کو آج ہم اپنے ملک میں رونما ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، ہر وہ طریقہ اور راستہ جس سے لوگ کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جائیں، ہمارے ملک میں اپنایا جارہاہے نتیجے میں آج لوگ مردوں سے زیادہ بد ترین زندگی گذار رہے ہیں۔ اسی لیے ہمیں اپنی تمام خواہشوں، آرزؤں کو آگ لگا دینا چاہیے، اپنے سارے خواب جلا دینا ہونگے اپنی سو چ کو مٹی میں دفن کر دینا ہوگا۔