Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Kamyabi Jad O Jehad Ke Baghair Haasil Nahi Hoti

Kamyabi Jad O Jehad Ke Baghair Haasil Nahi Hoti

چینی کہتے ہیں " اگر تم انھیں مانتے ہو، تو ان کا وجود ہوگا لیکن اگر تم نہیں مانو گے تو ان کا وجود نہیں ہے۔"

آئیے! اس کہاوت کے پیچھے موجود کہانی سنیے۔ تقریباً ایک ہزار برس قبل سونگ عہد سلطنت میں ژوکسی نامی ایک مشہور عالم ہو گزرا ہے، اس کا عقیدہ تھا کہ جنوں، بھوتوں کا وجود نہیں ہے چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک مضمون لکھے گا، جس کا عنوان ہوگا " بھوتوں کا وجود نہیں ہے " وہ اتنا بڑا عالم و دانا تھا کہ خود بھوت بھی اس سے ڈرتے تھے، اگر وہ کہہ دیتا کہ بھوت نہیں ہیں تو بھوتوں کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا تھا، جب بھوتوں کو پتہ چلا کہ وہ ایک ایسا مضمون لکھ رہا ہے تو انھوں نے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا اور اس مسئلے پر غور کیا۔

انھوں نے فیصلہ کیا کہ سب سے چالاک بھوت کو اس کے پاس بھیجا جائے تاکہ وہ اسے مضمون لکھنے سے باز رکھنے کی التجا کرے چنانچہ ایک رات اسمارٹ ترین بھوت ژوکسی کے ڈیسک پر آگیا اور اس کے پیر پکڑنے لگا۔ ژوکسی حیران ہوا اور پوچھا " بھوت تمہیں اس وقت مجھے ڈسٹرب کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ چلے جاؤ، یہاں سے اور تم میرے مطالعے کے کمرے میں آئے کیوں ہو۔"

بھوت نے جواب دیا میں یہاں آپ کے پاس ایک درخواست لے کر آیا ہوں۔" انسان یانگ کی دنیا میں رہتے ہیں اور بھوت پریت ین کی دنیا میں ہم الگ الگ دنیاؤں میں ہیں لہٰذا میں کسی بھی طرح سے تمہاری مدد نہیں کرسکتا " ژوکسی نے کہا۔"جناب اعلیٰ میں ایک خاص التجا کرنے آیا ہوں " بھوت نے کہا

" اچھا کہو"، ژوکسی بولا۔

تب بھوت نے ژوکسی کو اپنے آنے کی وجہ بتائی اور بھوتوں کی نجات کی خاطر اس سے مضمون نہ لکھنے کی درخواست کی۔

ژوکسی ہنسا اور کہنے لگا " ہم انسان تم بھوتوں کی بڑی مدت سے پوجا کرتے آئے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ تم بالکل ہی ختم ہوجاؤ" بھوت بولا " ہم بھوتوں میں بھی اچھے اور برے دونوں طرح کے بھوت ہیں۔" ژوکسی بولا " سنا ہے تم ہر کام کرسکتے ہو؟ کیا تم مجھے کمرے سے باہر لے جاسکتے ہو" بھوت نے کہا " یقینا جناب عالیٰ " ژوکسی کو خبر بھی نہ ہوئی کہ اگلے ہی لمحے وہ باہر تھا وہ بھوت کی قابلیت سے حیران ہوگیا مگر ایسا ماننے پر تیار نہ تھا۔

اس نے دوبارہ پوچھا " اچھا تم میرا جسم تو لے جاسکتے ہو، لیکن تم میرے دل کو حرکت دے سکتے ہو" بھوت نے کہا "یہ ناممکن ہے جناب والا ہم صرف چیزوں کو یا کسی شخص کے جسم کو حرکت دے سکتے ہیں اور یہ ہمارے موجود ہونے کا ثبوت ہے ہم فریب نظر میں وجود رکھتے ہیں اگر آپ عقیدہ رکھیں تو ہم وجود رکھیں گے لیکن اگر آپ عقیدہ نہ رکھیں گے تو ہم بھی وجود نہیں رکھیں گے آپ براہ کرم اپنے مضمون میں اس طرح کی کوئی بات لکھیں۔"

ژوکسی نے محسوس کیا کہ ان الفاظ میں کوئی ضرر نہیں ہے، چنانچہ اس نے بھوت سے وعدہ کرلیا کہ وہ ایسا ہی لکھے گا، بھوت خوشی خوشی چلا گیا، چنانچہ ژوکسی نے بھوت پریت وجود نہیں رکھتے کے عنوان تلے اپنے مضمون میں لکھا " اگر تم عقیدہ رکھو گے تو جنوں بھوتوں کا وجود ہوگا لیکن اگر تم ان پر عقیدہ نہ رکھو گے تو جنوں بھوتوں کا کو ئی وجود نہیں ہے۔ بالکل جوں کی توں صورتحال خوف کے ساتھ ہے اگر تم خوف کھاؤ گے تو اس کا وجود ہوگا اور اگر نہیں کھاؤ گے تو پھر خوف کا وجود نہیں ہوگا۔

آج سارا ملک خوف میں مبتلا ہے۔ مختلف خوف 22 کروڑ انسانوں میں زندہ ہیں۔ دہشت گردی کا خوف، موت کا خوف، بیروزگاری کا خوف، مہنگائی کا خوف، چوری اور ڈاکے کا خو ف، انتہا پسندی کا خوف غرض دنیا بھر کے خوف نے ہمارے ملک میں اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اتنا خوف ہے کہ خود خوف بھی خوف سے کانپ رہا ہے۔

اسی خوف نے جیتے جاگتے انسان کو ردی اور ناکارہ انسانوں میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، اگر کسی قوم کو تباہ کرنا مقصود ہو تو پھر آپ اس کو خوفزدہ کردیں، وہ قوم خود بخود تباہ ہوجائے گی، یہ معاملہ ہمارے ساتھ انتہائی باریکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

خوف ایک ذہنی بیماری ہے خوف اپنے آپ کو خواہ مخواہ ادنیٰ، کمزور، لاغر سمجھنے کا نتیجہ ہے اپنے آپ کو مظلوم اور مصیبت زدہ سمجھنے کی عادت خائف رہنے سے پیدا ہوتی ہے، خوف ہمارے ذہن کو منتشر کر دیتا ہے۔ صلاحیتوں کو تباہ کر دیتا ہے، اس کی وجہ سے ساری ناانصافیوں، سارے ظلم و ستم، معاشی قتل عام، عدم مساوات کے خلاف آپ چپ سادھے رہتے ہیں۔ آپ اپنے تمام تر حقوق سے چپ چاپ دستبردار ہوجاتے ہیں، آواز اٹھانا تو دور کی بات ہے، آپ قاتلوں، ڈاکوؤں، لٹیروں کے خلاف بات سنتے بھی ڈرتے ہیں۔

برنارڈ شا نے کہا ہے ہمیں مایوس اور خوفزدہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے کیونکہ مایوسی اورخوف گناہ کی بد ترین شکل ہے جب کہ بقراط نے کہا ہے خوف اور مایوسی انسان کے سب سے بڑے دشمن اور خدا کے عذاب ہیں۔ خدارا، اس کھیل کو سمجھنے کی کوشش کریں جو آپ کے خلاف کھیلا گیا ہے۔

یاد رکھیں، کھیل کھیلنے والے کامیاب ہوگئے ہیں، یہ بھی ذہن نشین رکھیں کہ اگر کسی شخص کو اپنے آپ پر اعتماد نہ ہو اور اس کی قوت ارادی کمزور ہو اور وہ خوفزدہ ہو تو وہ واقعات کے ہاتھوں ایک کھلونا بن جاتا ہے، حالات اسے کٹھ پتلی بنا کر نچانے لگتے ہیں اور ہوا کا ہر جھونکا، اسے اڑاتے پھرتا ہے۔ اپنے اوپر یقین رکھنا جہاد کا درجہ رکھتا ہے۔ ڈر، مایوسی اور وہم زندگی کا زہر ہیں حوصلہ، قوت اور خود اعتماد ی زندگی کا امرت ہیں، انگریزی کہاوت ہے جب ارادہ بن جائے تو راستہ مل جاتاہے۔ کوئی رکاوٹ کسی مصمم ارادے کا راستہ نہیں روک سکتی۔

آئیں! ہم اپنے لیے اپنے پیاروں کی خاطر سب سے پہلے اپنے تمام خوف کو شکست دے دیں اور ان غاصبوں، لٹیروں، چوروں، انتہا پسندوں، دہشت گردوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں جنھوں نے ہماری زندگی دوزخ بنا رکھی ہے تو پھر آپ خود ہی دیکھ لیں گے کہ یہ سب کے سب کس طرح بھاگتے ہیں۔ اس لیے کہ عوام سے بڑی طاقت کوئی اور نہیں ہے اور یہ سب کے سب انتہائی بزدل، ڈرپوک ہیں جو بظاہر طاقتور نظر آتے ہیں لیکن اصل میں ان کا حال بالکل دیمک زدہ لکڑی کی طرح کا ہے۔

انتہائی کھوکھلے اور بوسیدہ۔ کامیابی اتفاقیہ طور پر نہیں ملا کرتی یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہمارے رویے ہمارا اپنا انتخاب ہوتے ہیں چنانچہ کامیابی انتخاب ہوتی ہے، اتفاق نہیں اورکامیابی جدوجہد کے بغیرحاصل نہیں ہوتی۔ بیالوجی کے استاد نے طلباء کو بتایا کہ تتلی کس طرح خول کو توڑکر باہر نکلتی ہے پھر اس نے خول ان کے سامنے رکھ دیا اور بتایا کہ دوگھنٹے بعد اس میں سے تتلی نکلے گی، اس نے انھیں منع کیا کہ کوئی تتلی کی مدد نہ کرے اس کے بعد وہ کلاس روم سے باہر چلاگیا۔

ٹھیک دوگھنٹے بعد خول ٹوٹنے لگا اور تتلی باہر آنے کی جدوجہد کرنے لگی اس کی حالت دیکھ کر ایک طالب علم سے رہا نہ گیا اور اس نے استاد کی ہدایت کو نظراندازکرتے، تتلی کی مددکے خیال سے خول کو توڑ دیا تتلی آزاد ہوگئی لیکن تھوڑی ہی دیر میں مرگئی جب استاد کو پتہ چلا تو اس نے طلباکو سمجھایا کہ خول کو توڑنے کی جدوجہد تتلی کو وہ قوت عطا کرتی ہے جس سے وہ زندہ رہتی ہے چونکہ طالب علم نے اس کو جدوجہد نہیں کرنے دی تھی اس لیے وہ مرگئی۔ زندگی میں آزادی، ترقی، خوشحالی، اختیار، مساوات کاجدوجہد اور خواہش کے بغیر حصول ناممکن ہے۔