حوزے سارا ماگو لکھتا ہے " پچپن میں پہلی بار میں گیس کا غبارہ ہاتھ میں تھامے ایک سڑک پر دوڑتا چلا جا رہا تھا میں بہت شاد اور مگن تھا کہ غبارہ ایک آوازکے ساتھ پھٹ گیا۔ میں نے پیچھے مڑکر دیکھا کہ سڑک پر قابل رحم انداز میں ایک پچکی ہوئی ربڑ کی بڑی سی شے پڑی ہوئی تھی۔
اب اس عمر میں آکر مجھے یہ سمجھ میں آگیا ہے کہ وہ پچکی ہوئی شے دنیا تھی" ہم سب کی زندگیوں میں بھی ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ہم دنیا کو اس کی اصل حقیقت، اس کے اصل معنوں میں جان لیتے ہیں، پہچان لیتے ہیں، لیکن اس سے ذرا پہلے ہم اس دنیا کو پا لینے اسے اپنی ملکیت بنانے کے لیے اپنی تمام تر قوت، ذہانت، علم اور طاقت لگا رہے ہوتے ہیں اپنے ہی جیسے انسانوں کو کچل رہے ہوتے ہیں انھیں روند رہے ہوتے ہیں اور ان کے زخمی جسموں پر اپنے بھاری پائوں رکھ کر بلندی پر جانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، ان کا حق مار رہے ہوتے ہیں، انھیں ذلیل و خوار کر رہے ہوتے ہیں۔
اکیلے میں بیٹھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے پیاروں تک سے جھوٹ پہ جھوٹ بولے جارہے ہوتے ہیں، دنیا کو پا لینے کے لیے تن، دھن کی بازی لگا رہے ہوتے ہیں، لوگوں کو شکست پہ شکست دے کر اپنے آپ کو فتح یاب بنا رہے ہوتے ہیں۔
اپنی کامیابیوں کی داستان جو دراصل ناکامیوں کی داستان ہوتی ہیں سینہ تان کر فخر و شان کے ساتھ سنا رہے ہوتے ہیں پھر اچانک وہ دن آجاتا ہے جب ہمیں اس جگہ لے جایا جا رہا ہوتا ہے جہاں جانے کے لیے ہم ساری زندگی نہ تو تیار ہوتے ہیں اور نہ ہی وہاں جانے کے لیے کبھی ہم نے سو چا ہوا ہوتا ہے۔ پھر ہمارے کتبے پر ہمارے اپنے جھوٹ پہ جھوٹ لکھوا رہے ہوتے ہیں۔
انیسویں صدی کا فرانسیسی ناول نگار، افسانہ نویس، معاشرتی اور مجلسی زندگی کا سچا اور کھرا لکھاری موپساں اپنی کہانی "La Morte۔ کتبہ " میں لکھتا ہے " عبارت لکھنے کے بعد وہ مردہ دیر تک ساکت بیٹھا رہا اپنی قبر کے کتبے کو تکتا رہا میں مڑا توکیا دیکھتا ہوں کہ سب قبریں کھل رہی ہیں اور سب مردے قبروں سے نکل کر باہر بیٹھے ہیں اور اپنی قبروں کے کتبوں پر اپنے رشتہ داروں کے لکھے جھوٹ مٹا رہے ہیں اور ان کی جگہ سچ لکھ رہے ہیں، میں نے دیکھا کہ وہ سب اپنے ہمسائیوں کو اذیت پہنچاتے رہے تھے۔
کینہ پرور، بے ایمان، منافق، جھوٹے، دغا باز، بہتان تراش، حاسد تھے وہ چوری کرتے تھے دھوکا دیتے تھے ہر شرمناک اور قابل نفرت حرکات کے مرتکب ٹہرے تھے۔ وہ شفیق باپ وہ وفا شعار بیویاں، وہ ایماندار لوگ وہ مرد اور عورتیں جنھیں بے داغ، بے گنا ہ کہا جاتا تھا وہ سب بیک وقت اپنے ابدی گھر کی دہلیز پر سچ لکھ رہے تھے وہ ہولنا ک اور مقدس سچ جس سے ان کی زندگی میں تمام لوگ نا آشنا تھے یا نا آشنا ہونے کا ناٹک کرتے ہیں۔"
ہمارے ملک کے قبرستانوں میں ان گنت ایسے مر دے ہیں، جو اپنے کتبوں پہ لکھے جھوٹ مٹانے اور سچ لکھے جانے کے لیے بے تاب ہیں وہ ننگے سچ جن سے کچھ تو واقف ہیں اور باقی سب ناواقف ہیں ہماری سیاسی اور سماجی تاریخ کے وحشیانہ سچ جو درد و تکلیف سے چیخ رہے ہیں۔ ماتم کر رہے ہیں۔
آئیں، انھیں لکھ ڈالیں اور انھیں ان کی تکلیفوں اور اذیتوں سے نجات دے دیں۔ ان کے سچ لکھے جانے سے مردوں کے ساتھ ساتھ ان انسانوں کو بھی اذیتوں اور تکلیفوں سے نجات حاصل ہوجائے گی جو ان کی زندگیوں کے اصل سچ سے واقف اور آشنا ہیں کیونکہ جب وہ ان کی قبروں کے کتبوں پر لکھے جھوٹ پڑھتے ہیں تو نجانے کتنی اور اذیتیں اور تکلیفیں ان سے چمٹ جاتی ہیں ہمیں اب جھوٹ مٹا کر سچ لکھ ہی دینا چاہیں کیونکہ وہ سچ سالوں سے ہمیں اندر سے نو چ رہے ہیں۔
ہمارے علاوہ دنیا بھی ماضی میں اپنے اپنے سچ کی وجہ سے اذیتوں اور تکلیفوں میں مبتلا تھی بالاخر انھوں نے سچ کو تسلیم کرکے اپنے آپ کو ہر تکلیف اور اذیت سے نجات دے دی۔ آمروں کو قبروں سے نکال کر پھانسی دی جاچکی ہے۔ چرچ اپنی ماضی کی تمام غلطیوں پر معافی مانگ چکے ہیں اور مسلسل مانگ رہے ہیں۔ دنیا کے مالک ماضی کی اپنی اپنی زیادتیوں اور جرموں پر معافی مانگ چکے ہیں۔ دنیا بھر سے شر مناک جھوٹ مٹائے جاچکے ہیں۔ نجانے کتنی قبروں کے کتبے تبدیل کیے جاچکے ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں جو ابھی تک اپنے شرمناک جھوٹ سے چمٹے اور لپٹے ہوئے ہیں۔
ہم اپنے آپ سے سچ بولنے سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ان ہی جھوٹ کی وجہ سے ہم اور ہمارا سماج کھوکھلا ہو چکا ہے۔ ہر شے ملبہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ملک کی ہر چیز تباہ و برباد ہوچکی ہے۔ کوئی بربادی ایسی باقی نہیں بچی ہے جس کا انتظار باقی ہے، لیکن پھر بھی ہم جھوٹ پہ جھوٹ بولے جا رہے ہیں لکھے پہ لکھے جار ہے ہیں۔ انتہائی بے شرمی سے جھوٹی تاریخ پڑھاتے جا رہے ہیں، جھوٹے قصے جھوٹی کہانیاں سنائے جا ر ہے ہیں۔
عظیم روسی ادیب لیو ٹالسٹائی اپنی کتاب " اعتراف " میں لکھتا ہے " میری زندگی بالکل ختم ہوکر رہ گئی یہ سچ ہے کہ میں سانس لینے کھانے، پینے اور سونے پر قابو نہیں پاسکتا تھا لیکن میرے اندر زندگی کی کوئی رمق نہ تھی کیونکہ میرے اندر ایسی کوئی خواہش ہی باقی نہ تھی جسے پورا کرنے کی تمنا سے میں اس کے خلا کو پرکر پاتا۔
اگر ایسے میں کوئی جادوگر آکر مجھ سے میری خواہشات پوچھتا تو یقین جانیے کہ میں کچھ نہ بتا پاتا حتی کہ میں تلاش صداقت بھی ترک کرچکا تھا اور مجھے سچائی کی طلب بھی نہ تھی کیونکہ سچائی مجھ پر افشا ہوچکی تھی وہ یہ کہ زندگی کا کوئی مقصد اور مفہوم نہیں۔ جب میں زندگی کے سوال کے جواب ڈھونڈ رہا تھا تو مجھے محسوس ہوا جیسے میں کسی جنگل میں گم ہوگیا ہوں، مجھے صرف ایک بات کا درست اندازہ ہو سکا کہ میں ایک کبھی نہ ختم ہونے والے راستے میں کھو چکا ہوں۔ درخت کی بلندی پر چڑھ کر میں صرف یہ ہی جان سکا کہ نجات کہیں نہیں ہے۔"
آج ہمارے سماج میں ہر سوچنے والے، غور و فکر کر نے والے۔ سچ سے واقف انسانوں کا وہ ہی حال ہوچکا ہے جو ٹالسٹائی کا ہوگیا تھا۔ جھوٹ ہمیں اندر سے مسلسل نوچے جا رہے ہیں ہم نہ ختم ہونے والی اذیتوں اور تکلیفوں میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ ہمارے سماج سے بد ترین سماج دنیا بھر میں کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اس کے باوجود ہمیں روز سننا اور پڑھنا پڑتا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم یہ بات ان لوگوں کو سنا رہے اور پڑھا رہے ہیں جو نجانے کب کے مرچکے ہیں۔