اگر میں کہوں کہ پاکستان جلد ہی ایک خوشحال، کامیاب ملک ہوگا تو ہوسکتا ہے آپ ہنس پڑیں، اسے آپ دیوانے کا خواب قرار دے دیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ ناممکن ممکن ہوتا آیا ہے۔ ایک روز ایڈیسن کو خیال میں آیا کہ بجلی سے روشنی پیدا کی جاسکتی ہے۔
انسان خدا جانے کب سے رات کو دن بنانے میں کوشاں چلا آرہا تھا، اس نے ہر اس شخص کو منیلو پارک آنے کی دعوت دی جو اس کے ایجاد کردہ بلب کو دیکھنے کا خواہاں تھا۔ 1880کے نوروز پر ہزاروں افراد منیلو پارک پہنچے وہاں اسٹیشن سے تجربہ گاہ تک سیکڑوں لیمپ دو تاروں میں لٹکے ہوئے، سڑک کے دونوں طرف روشن تھے پھر ایڈیسن نے فیصلہ کیا کہ وہ نیویارک کے پورے علاقے کے لیے سب سے پہلے بجلی کی روشنی مہیا کرے گا۔
آخر ایک بجلی گھر تعمیرکیا گیا نو سو عمارتوں میں تار لگا دیے تھے اور چودہ ہزار لیمپ جا بجا روشن ہوئے۔ نیویارک ہیرلڈ نے لکھا " بجلی کے ہزاروں لیمپ سیکڑوں عمارتوں پر لگا دیے تھے، شہرہ آفاق موجد کے اشارے پر سوئچ دبایا گیا توگیس کی مدہم روشنی کے بجائے ایک مستقل روشنی ہوگئی جس میں ہر شخص گھنٹوں تک پڑھ لکھ سکتا تھا، یہ تمام مصنوعی روشنیوں سے بہتر تھی جس شے کو غیر ممکن قرار دیا جا رہا تھا۔ منیلو پارک کے ساحر نے اسے ایک عام حقیقت بنا دیا، گویا بجلی کا دور شروع ہوگیا۔"
نیویارک کے تمام افراد بازاروں میں نکل آئے تاکہ بجلی کی روشنی دیکھیں، جب وہ 1869کو بوسٹن سے بذریعہ جہاز پہنچا تھا تو اس کے پاس پیسے ہی نہ تھے کہ کچھ خرید سکے، لیکن اس نے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا۔ الیگزانڈرگرے ام بیل، ولیم فریس گرین، چارلز اے پارسز، جان ہاگڈ ڈنلپ، گولی ایلمو مارکونی، ولبر اور اور ول رائیٹ، ہنری فورڈ، لارڈ ردر فرڈ، جان لوگی، سر فرینک وٹل اور سررابرٹ واٹسن واٹ ان سب شخصیات نے تنہا ناممکن کو ممکن کردکھایا ہے۔
یاد رکھیں حرکت میں برکت ہے سکوت میں موت ہے رک جانے والے مارے جاتے ہیں۔ برک نے کہا تھا "سب کچھ ایک خواب سے شروع ہوتا ہے " عقل وخرد اور امید وہ چیزیں ہیں جن کی آج ہمیں ضرورت ہے جب گوتھس نے روم کو تاخت و تاراج کیا تو روم ایک تنگ و تاریک گاؤں میں تبدیل ہوگیا جب ہم اس بات پر غورکرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے لوگوں نے مایوس ہو کر ہتھیار ڈال دیے تھے خوف کے مارے آگے بڑھنے سے انکارکر دیا تھا۔
بالکل ہمارے حال کی طرح۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم نے بھی مایوس ہوکر ہتھیار ڈال دیے ہیں اور خوف کے مارے آگے بڑھنے سے انکارکر رہے ہیں جوکچھ بچ گیا ہے اسے کسی صورت داؤ پر لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں، ہمیں ناممکن پر یقین ہے ممکن پر نہیں لوگ اور لوگوں کا ہجوم دو مختلف چیزیں ہیں جب لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے مقصد سے ہٹ جاتی ہے اور عقل و خرد، امید، آگہی اور اپنے آئیڈیل سے بیگانہ ہوجاتی ہے تو لوگوں کا یہ جم غفیر ایک ہجوم میں بدل جاتا ہے مقصد کے بغیر لوگ ایک ایسا ہجوم بن جاتے ہیں جن میں ہر ایک اپنی ذات کے لیے زندہ رہتا ہے۔ اس کے سامنے صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل کس طرح کرنی ہے اور بس۔
یاد رکھیں لوگوں کا بے مقصد اور بے منزل ہجوم ہر وقت اپنی ہوس کی پوجا کا متمنی رہتا ہے، یہ ہجوم نہ چاہتے ہوئے اس نظام کو بچانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے جو پہلے ہی مر چکا ہوتا ہے وہ اپنی ساری توانائی اسے دوبارہ زندہ کرنے کے لیے لگا رہا ہوتا ہے، یہ انوکھا وقت دنیا میں صرف ہم پر ہی نہیں آیا ہے ہم سے پہلے تمام ترقی یافتہ، خوشحال اورکامیاب ممالک پر آچکا ہے، انگلینڈ میں انیسویں صدی میں معاشی استحصال، سیاسی جبر، ناانصافیوں اور مظالم کی حقیقی تصاویر ہمیں اس دور کے ادیبوں کی تحریروں میں ملتی ہیں۔
ایلیٹ ایک پسماندہ اور ذلتوں کے مارے خاندان کی منظرکشی کرتے ہوئے کہتا ہے " جب خاندان ذلت کی گہرائیوں میں گر گیا تو اپنی جائیداد اونے پونے داموں نیلام کرنا پڑی۔ باپ مایوسی کی حالت میں نشے کا عادی ہوگیا اور ماں نے غصے اور ذہنی انتشار کا شکار ہو کر اپنے بیٹے کو مار ڈالا۔ بہن غربت اور مایوسی سے تنگ آ کر اپنی عصمت بیچنے پر مجبور ہوگئی" اس نظم کا اختتام ان سطرں پر ہوتا ہے۔
" او خدایا روٹی کسی قدر مہنگی ہے اور خون کس قدر سستا ہے" تھامس ہڈ نے 1844میں شرٹ پر ایک نظم میں کہا کہ " جب تم مرغ کی اذان سنو تو کام، کام، کام یہاں تک کہ تاروں کی لو تمہارے خون سے چمکنے لگے جو لوگ اس شرٹ کو پہنتے ہیں انھیں کیا معلوم کہ اس کی قیمت کتنی بھاری ہے" اسی طرح چارلس ڈکنز اور تھیکرے نے اپنے ناولوں میں انگلینڈ کے پسے ہوئے طبقات کی نمایندگی کی جب کہ بلزاک زولا اوروکٹر ہیوگو نے اپنی تحریروں میں اس دورکے فرانس کی نقشہ کشی کی۔ تمام تر نا انصافیوں، ذلتوں کے باوجود وہاں کے لوگوں نے خواب دیکھنا بند نہیں کیے۔ ناممکن کو نا ممکن نہیں مانا اور آخر ناممکن کو ممکن کردکھایا سب سے پہلے انھوں نے اپنے خوف اور مایوسی کو تختہ دار پر لٹکا دیا پھر تاریخ بن گئے۔
ہم بھی ناممکن کوممکن کرسکتے ہیں، بس ہمیں پہلے اپنے خوف اور مایوسی کوقتل کرنا ہوگا، اپنے خوابوں پر یقین اور بھروسہ کرنا ہوگا اور پھر ہم بھی ایک ترقی یافتہ، خوشحال اورکامیاب قوموں کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے۔ آئیں! اپنے آپ پر یقین اور بھروسہ کریں اور نئی امید کو زندہ کریں۔