بجٹ کے حوالے سے ویسے تو ہر سال ہی بری خبریں سننے کو ملتی ہیں، لیکن اس سال تو انتہا ہو گئی ہے، ایسی ایسی خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ لگ یہ رہا ہے کہ معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ہمیں کوئی غیبی مدد درکار ہوگی۔
مثلاً بجٹ 2020-21ایسا خسارے کا بجٹ ہوگا جو گزشتہ 73سالوں میں آج تک نہیں پیش کیا گیا پھر ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ 1952کے بعد پہلی مرتبہ ملک کی معاشی ترقی منفی زون میں جا چکی ہے یا اس بار بجٹ خسارہ 3000ارب روپے سے زائد کا ہوگاپھر یہ بھی سنا گیا ہے کہ پہلی بار سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کی تجویز پیش کی جا رہی ہے وغیرہ اس جیسی خبروں سے عوام کے درمیان ایک عجیب ذہنی اضطراب پایا جا رہا ہے، کیوں کہ فروری سے شروع ہونے والی کورونا وبا نے عوام، حکومت اور معیشت سب ہی کو کچل کر رکھ دیا ہے۔
جب کہ حکومت کے لیے اس وقت پہلا چیلنج یہ ہے کہ معیشت کی کشتی کو مکمل طور پر ڈوبنے سے کیسے بچایا جائے۔ سنا یہ جا رہا ہے کہ حکومت ایسا بجٹ پیش کرے گی جس میں نئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو کیونکہ طویل نیم کرفیو کی وجہ سے صنعت، تجارت اور خدمات سب شعبے مندی کا شکار ہیں۔ صرف زراعت میں ترقی ہوئی ہے لیکن اس سے ٹیکسوں کی مد میں قابل ِذکر آمدن نہیں ہوتی۔ یوں بھی ٹڈی دل کے حملہ نے زراعت کی ترقی کو متاثر کردیا ہے۔
خیر بجٹ کے حوالے سے سوالات جو ذہنوں میں ابھر رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ موجودہ بجٹ کیسا ہوگا؟ عوام کو ریلیف ملے گا یا نہیں؟ معیشت میں بہتری اور ملازمتوں کے مواقعے پیدا کرنے کے لیے حکمرانوں کے ذہن میں کیا منصوبے ہیں؟ اور کیا ہم جلد ہی ان گھمبیر حالات سے نکل پائیں گے یا نہیں؟ یہ سب توآج بجٹ دستاویزات سامنے آنے کے بعد درست طور پر معلوم ہو سکے گا۔ اس سے پہلے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹوں میں اندازے ہی لگائے جا رہے ہیں، لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ بجٹ حکومت نہیں بنا رہی بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایات، منظوری اور مرضی کے مطابق بن رہا ہے۔ جس میں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور یہ یقینا ایسا بجٹ ہوگا کہ جس میں عوام کے لیے کچھ نہیں رکھا جائے گا۔
کیوں کہ اس وقت خزانے میں عوام کو دینے کے لیے ماسوائے طفل تسلیوں کے ہے ہی کچھ نہیں! اور پہلے سے موجود بجٹ میں ہی کٹ لگائے جارہے ہیں جیسے حکومت نے ترقیاتی بجٹ 701 ارب روپے سے کم کرکے 600 ارب روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں سے 530 ارب روپے وزارتوں، ڈویژنز کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے مختص کیے گئے ہیں جب کہ 70 ارب روپے فاٹا اور دیگر اہداف کے لیے ہوں گے۔ ترسیلات زر جو گزشتہ سالوں میں 20 ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے اس سال 18.8 ارب ڈالر حکومت کو موصول ہوئے ہیں۔ اس سال پاکستان کی موجودہ حکومت نے تقریباً 36 ٹریلین کے قرضے لیے ہیں اور 2700 ارب روپے ڈیٹ سروسز کی مد میں ادا کرنے تھے مگر کورونا کی وجہ سے 20 G ممالک نے پاکستان کے ذمے 1.8 بلین ڈالرز کے قرضے موخر کردیے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے قانون کے مطابق ہمارے قرضے جی ڈی پی کی شرح 67.72 فیصد کے برابر رہنے چاہئیں مگر پاکستان کی مجبوری ہے کہ اخراجات میں کوئی خاص کمی نہیں کی جاسکتی ہے ہمارے بجٹ کا 90 فیصد سے زیادہ وصولیاں قرضوں کی ادائیگی، دفاعی اور ترقیاتی اخراجات پر لگ جاتے ہیں۔ ان سب مسائل سے نکلنے کا واحد حل ہے کہ پاکستان کے 22کروڑ عوام میں سے 8کروڑ ہنر مند افراد کو استعمال کیا جائے، اور اسمال انڈسٹری یا لوکل انڈسٹری کو فروغ دے کر ملکی پیداوار بڑھائی جائے۔ ایسا کرنے سے ظاہر ہے ملکی درآمدات میں نمایاں کمی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
ہمارے سامنے ترکی، ملائیشیا، جرمنی، چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مثال سب کے سامنے ہے، یہ ممالک لوکل انڈسٹری کو فروغ دے کر اوپر آئے۔ ترکی کی مصنوعات کو سب سے بڑا چیلنج یورپ سے ہے لیکن ترکی نے کوالٹی اور جدت دے کر ایسی مصنوعات تیار کیں جو یورپ نہ چاہتے ہوئے بھی ترکی سے خریدنے پر مجبور ہے۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت بھی چین سے ایک حد تک چیزیں خریدتا ہے مگر مجال ہے کہ وہ اپنی لوکل انڈسٹری کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے۔ جرمنی کی مثال لے لیں جس نے دنیا بھر میں کھلونوں کے کاروبار سے آغاز کیا اور پھر بڑی گاڑیاں بنانے کی ایک عالمی منڈی میں بدل گیا۔
آج جرمنی مسلسل تیسرے برس دنیا کے سب سے بڑے ٹریڈ سرپلس رکھنے والے ملک کا اعزاز حاصل کرنے کی راہ پرگامزن ہے۔ 300ارب ڈالر سرپلس رکھنے والا یہ ملک آج دنیا کو 34فیصد گاڑیاں فراہم کر رہا ہے۔ جاپان اور چین بھی انھی ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ جنہوں نے محض گھریلو استعمال کی اشیاء خاص طور پر الیکٹرانک اشیاء کی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں لگائیں اور اس انڈسٹری کے وہ بے تاج بادشاہ بن گئے۔ نیوزی لینڈ نے اپنے ہم وطنوں کو سیب کی کاشت کرنے کی ترغیب دی اور آج نیوزی لینڈ سیب ایکسپورٹ کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔
امریکا نے مائیکروسافٹ کمپنی کی مدد سے بے تحاشہ اربوں ڈالر کما کر نہ صرف ملکی معیشت میں حصہ ڈالابلکہ ملک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اور آج امریکا کی 30سے زائد کمپنیوں کا کاروبار دنیا کے کئی ممالک کے کل بجٹ کے برابر ہے۔ پھر آپ آسٹریلیا کی مثال لے لیں جس نے محض لائیو اسٹاک کے ذریعے اپنی معیشت کو سہارا دیا۔ آج آسٹریلیا سعودی عرب کو قربانی کے موقعے پر بھیڑیں دینے والاسب سے بڑا ملک ہے جس کا تخمینہ اربوں ڈالر لگایا جا سکتا ہے۔
جب کہ پاکستان میں بھی کئی ایسے شعبہ جات ہیں جن پر اگر حکومت توجہ دے تو ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں، جیسے اس وقت پاکستان میں تقریباً3ہزار آٹو پارٹس مینوفیکچررز کام کر رہے ہیں اور اِس انڈسٹری نے باعزت روزگار اور آمدنی کے تقریباً 3 ملین مواقعے پیدا کیے ہیں، پانچ لاکھ ماہر کاریگروں کو بلا واسطہ اور 2.4 ملین افراد کو بالواسطہ ملازمت فراہم کی ہے۔ اس انڈسٹری نے 400 ارب روپے کی غیر معمولی سرمایہ کاری کا حجم پیدا کیا ہے اور قومی خزانے کو سالانہ 90 ارب روپے بطور ٹیکس ادا کرتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس انڈسٹری کے مالکان کا زیادہ تر تعلق بیرون ممالک سے ہے جو منافع باہر لے جاتے ہیں اور پاکستان کے زرمبادلہ کو کروڑوں ڈالر کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
لہٰذاکورونا کے بعد کی صورتحال میں اس وقت ملک کو کم از کم 3کروڑ بے روزگار افراد کا سامنا ہے۔ ان افراد کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے بجٹ میں چھوٹے قرضوں کو آسان شرائط پر دیا جانا ضروری ہے اور فی الوقت ہمیں یہ بات سمجھنے کی شدت سے ضرورت ہے کہ اسمال انڈسٹری کسی بھی ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ لہٰذاہمارے نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ اسمال انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے میدان میں آئیں۔ وہ اگر حکومت سے اصرار کریں گے تو یقینا حکومت اُن کے لیے کچھ نہ کچھ کرے گی۔
لیکن جب حکومت کو ڈر ہوگا کہ نوجوان نسل میں ہنر کی کمی ہے تو اس حوالے سے حکومت کبھی پیسہ خرچ نہیں کرے گی۔ لہٰذانوجوان کاروبار شروع کرنے کے لیے مقامی حالات، ڈیمانڈ، سپلائی، پوزیشنز کا جائزہ لیں، صنعتی علاقوں میں جائیں اپنے دوست اقارب جو کسی کاروبار سے منسلک ہوں ان کے پاس کچھ وقت گزاریں اور اپنی ذہنی استعداد، قابلیت، معلومات اور دلچسپی کے مطابق کسی کاروبار کا انتخاب کریں۔
وہ کوئی چھوٹا کارخانہ لگا سکتے ہیں جس میں اوزار بن سکیں یا خوراک کی فراہمی کے لیے پیکیجنگ یا ٹریڈنگ جیسے مال ایک جگہ سے دوسری جگہ سپلائی کرنا بھی متوقع شعبے ہوسکتے ہیں۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ہر پراڈکٹ جو مارکیٹ میں موجود ہے اس کے پیچھے ایک پورا مارکیٹ میکنزم موجود ہے۔ اس کو اگر سمجھ لیا جائے تو یقینا ہم بھی اس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں ورنہ ہم یہی سوچتے رہ جائیں گے کہ شاید کوئی غیبی قوت آئے اور وہ ہماری جھولی میں ہزاروں روپے رکھ کر چلی جائے!