سی پی این ای کے سالانہ اجلاس کی غرض سے گزشتہ ہفتے مجھے کراچی جانا پڑا، اجلاس میں شعبہ صحافت خاص طور پر پرنٹ میڈیا سے جڑے مسائل کا ذکر ہوا اور حکومت وقت سے انھیں حل کرنے کے لیے مطالبات کیے گئے، اور ساتھ ہی سی پی این ای کے تمام عہدیداروں کو مئی2022 تک اپنی ذمے داریوں کا تسلسل جاری رکھنے کی منظوری دی گئی۔
راقم نے حسب سابق اس سال بھی ایک ہفتہ کراچی میں گزارا، کراچی کے عام آدمی کے مسائل میں رتی برابر بھی فرق محسوس نہیں کیا۔ البتہ وہاں کہیں کہیں انتظامی معاملات میں پہلے سے بہتری ضرور نظر آئی، خاص طور پر کورونا ایس او پیز کے حوالے سے سندھ حکومت کے انتظامات بہتر تھے، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کورونا کی روک تھام کے لیے ذاتی طور پر انتظامی معاملات میں دلچسپی لیتے نظر آئے۔
لہٰذاتاجر برادری اور عام آدمی کے مسائل کو دیکھ کر جس بات نے مجھے ایک ہفتے تک اپنی گرفت میں لیے رکھا وہ یہ تھا کہ کراچی کے شہریوں کے مسائل جیسے 20سال پہلے تھے آج بھی ویسے ہی ہیں، وہاں عام تاجر کے مسائل جیسے 2دہائیاں قبل تھے، آج بھی ویسے ہی ہیں۔
سیاسی پہلو کچھ یوں ہے کہ کراچی کے 18ایم این ایز میں سے صرف دو ایم این ایز، عبدالقادر پٹیل اور قادر خان مندوخیل کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے، باقی تمام ایم این ایز، ایم کیو ایم، تحریک انصاف یا دوسری جماعتوں سے ہیں۔ کراچی سے سندھ اسمبلی کی 42سیٹوں میں سے پیپلزپارٹی کا صرف ایک ایم پی اے سعید غنی منتخب ہوئے ہیں، جب کہ باقی تمام سیٹوں پر ایم کیو ایم، تحریک انصاف ہیں۔ یوں کراچی شہر میں پیپلزپارٹی کی نمایندگی نہ ہونے کے برابر ہے، ایسے میں پیپلزپارٹی کی ترجیحات میں کراچی کیوں ہوگا؟
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ یہ دنیا کاچھٹا بڑا شہر ہے جس کی آبادی غیر سرکاری ذرایع کے مطابق 3کروڑ(یعنی سندھ کی کل آبادی کا نصف سے زیادہ یہاں آباد ہے) جب کہ سرکاری ذرایع کے مطابق تقریباََ سوا دو کروڑ ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈا بھی کراچی میں ہے۔
کراچی 1947 سے 1960 تک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہا، کبھی اس شہر کو ایشیا کا پیرس بھی کہا جاتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس شہر میں ہندوستان سے آنے والے لاکھوں مہاجرین آباد ہونا شروع ہوئے۔ 1959 میں پاکستان کے دار الحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی۔ پورے پاکستان سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں اور اس وجہ سے یہاں مختلف مذہبی، نسلی اور لسانی گروہ آباد ہیں۔
کاروباری لحاظ سے اگر دیکھیں تو ملک بھر کا 60 فیصد ریونیو یہ شہر فراہم کرتا ہے۔ یہاں پاکستان کی سب سے بڑی اسٹاک مارکیٹ ہے، گاڑیاں بنانے والی فیکٹریاں ہیں، مرکزی اسٹیٹ بینک سمیت مختلف بینکوں کے ہیڈ آفسز ہیں، ملٹی نیشنل اور سیلولر کمپنیوں اور پروڈکشن ہاؤسز کے ہیڈ آفس ہیں۔ یہاں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا گھر اور مزار ہیں۔
ملک کی بلند ترین اور خوبصورت عمارتیں اسی شہر میں ہیں، مواصلات کے تمام جدید نیٹ ورکس دستیاب ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ سے ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکا سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں ٹریڈنگ گیٹ وے کی تاریخی حیثیت ہے۔ ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے بیرون ملک سے آنے والا تیل اور خام مال کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم پر آتا ہے اور یہیں سے ایکسپورٹ آئٹمز دنیا بھر میں بھیجی جاتی ہیں۔ کراچی فن و ادب کا گہوارہ ہے۔
اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ یا بد قسمتی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور کراچی کے ستارے آپس میں نہیں ملے اور ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے۔ میں نے جس شخص سے بھی بات کی، اُس نے سندھ حکومت سے شکوہ ہی کیا، اُن کے مطابق کراچی سے سوتیلی اولاد جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
سندھ میں جتنے وزراء اعلیٰ آئے ہیں، ان میں سے کسی ایک تعلق بھی کراچی سے نہیں تھا۔ حالیہ وزیر برائے لوکل گورنمنٹ ناصر حسین شاہ کا تعلق بھی سکھر سے ہے، وزیر ریوینیو اینڈ ریلیف ڈیپارٹمنٹ مخدوم محبوب زمان کا تعلق ضلع مٹیاری سے ہے، وزیر برائے ماس ٹرانزٹ اویس قادر شاہ کا تعلق سکھر اور سب سے اہم وزارت انڈسٹریل اینڈ کامرس جام اکرام اللہ دریجو کے پاس ہے جن کا تعلق بھی کراچی سے نہیں ہے۔
جب صوبائی حکومت کے وزراء کی بھاری اکثریت کا تعلق کراچی سے نہیں ہے، زیادہ تر وزراء وڈیرے ہیں، یا نواب! لہذا انھیں کراچی شہر کے زمینی حقائق یا عام شہریوں کے مسائل کا اندازہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اس لیے اُن کی بیوروکریسی سے بھی نہیں بنتی۔ کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے نئے سیٹ ا پ کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
کراچی میں شہری حکومت کا قیام وقت کی ضرورت ہے تاکہ اس شہر کے باسیوں کا احساس محرومی ختم کیا جاسکے، اس سے وہاں انویسٹمنٹ آئے گی، تاجروں کے مسائل کو حل کرنے کا موقع ملے گا، اور وہاں کا جو مقامی وزیر ہوگا اُسے علم ہوگا کہ اُس نے عوام کے مسائل کو کیسے حل کرنا ہے؟ یہی حل میرے خیال میں گوادر کا بھی ہے۔