اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا ایشو بالکل ایسا ہی ہے جیسے جنوبی پنجاب صوبے کا نعرہ چند سال بعد پاکستان کے اُفق پر نظر آتا ہے، لیکن پھر منظر عام سے غائب ہو جاتا ہے۔
آج کل جنوبی پنجاب کا سیاسی ایشو تو ٹھپ ہے مگر اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا ایشو عروج پر ہے۔ ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی لگ رہا ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، لیکن بادی النظر میں اس مرتبہ بھی یہ کوشش محض آنیاں جانیاں ہی ثابت ہوں گی۔
میں یہ اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ ماضی میں اس ایشو پر ملک کے اندر اور باہر بھرپور مباحثوں کے بعد ہر دفعہ رائے منقسم ہوجاتی ہے کہ انھیں ووٹ کا حق دینا اچھا فیصلہ ہوگا یا نہیں۔ خیر اس بار جس تیزی سے قومی اسمبلی سے آئینی مسودے پاس کرائے جا رہے ہیں (گزشتہ دنوں ایک دن میں 17 قانونی بل پاس کرائے گئے)۔ حکومت ہر صورت میں اسمبلی سے وہ بل منظور کرانے کے لیے پرعزم ہے جس کے پاس ہونے کے بعد بیرون ملک آباد پاکستانیوں کو پاکستانی انتخابات میں ووٹ دینے کا حق مل جائے گا۔
پاکستان کی کل آبادی کا 6فیصد بیرون ملک رہتا ہے، یعنی 90لاکھ پاکستانی قانونی طور پر دنیا کے مختلف ملکوں میں رہ رہے ہیں جب کہ 30سے 35لاکھ غیر قانونی طریقے سے رہ رہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ان پاکستانیوں کا ڈیٹا نا تو نادرا کے پاس ہے نا ہی کسی دوسرے ادارے میں موجود ہے۔
اس لیے اب اگر بل منظور ہوبھی گیا ہے تو اس پر عمل درآمد کرانے میں سب سے پہلے الیکشن کمیشن کو ڈیٹا اکٹھا کرنا پڑے گا، اُس کے لیے اُسے نادرااور دوسرے اداروں سے مدد کی ضرورت ہوگی، پھر دھاندلی ہونے یا سافٹ وئیر کے ہائی جیک ہونے کا رونا پیٹا جائے گا، یا پھر ایسے ایسے عذر پیش کیے جائیں گے کہ ہر بندہ سوچ میں پڑ جائے گا کہ بیرون ملک پاکستانی اس قدر "بُرے" لوگ ہیں۔
جیسے لیگی رہنما احسن اقبال کہتے ہیں کہ اپوزیشن اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹوں کی مخالف نہیں ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایک شخص جو پیرس میں رہ رہا ہے، جو سان فرانسسکو میں رہ رہا ہے، جو لندن میں رہ رہا ہے اس کو ناروال، جیکب آباد اور لالہ موسیٰ کے حلقے کے مسائل کا کیا پتا ہے۔ انھیں اس بات کا پتا ہے کہ لندن کی آب و ہوا کیسی ہے، نیویارک کے اندر کرائم کی صورتحال کیا ہے، جو شخص بیرون ملک بیٹھا ہے اسے ہمارے ملک کے حالات کی خبر نہیں، وہ ہمارے حلقوں میں ووٹ نہیں دے سکتا۔
حقیقت ہے کہ جتنا بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان کے بارے میں علم ہوتا ہے، اتنا شاید ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ میں خود جب بیرون ملک جاتا ہوں تو پاکستان کے حوالے سے خبروں میں زیادہ دلچسپی لیتا ہوں، کیوں کہ یہ ایک فطری عمل ہے، اور پھرمیں جس پاکستانی سے بھی ملاقات کرتا ہوں تو ایسی ایسی پیش گوئیاں سننے کو ملتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ن لیگ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کے خلاف سپریم کورٹ بھی جا چکی ہے۔ حالانکہ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کی معیشت انھی اوور سیز پاکستانیوں کی وجہ سے چل رہی ہے۔
لہٰذااوور سیز پاکستانیوں کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل کام نہیں ہے، ان کی اہمیت کو جاننے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ پاکستان کے امپورٹ اور ایکسپورٹ میں قریباََ 25ارب ڈالر کا فرق ہے، اور یہ فرق بیرون ملک پاکستانی پورا نہ کریں تو پاکستان دیوالیہ ہو جائے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 10ماہ میں پاکستان میں ہر مہینے 2ارب ڈالر بذریعہ اوورسیز پاکستانی، پاکستان میں آرہے ہیں۔ اور یہی صورتحال رہی تو پورے مالی سال میں 28ارب ڈالر پاکستان آئیں گے، جو ایک ریکارڈ بن جائے گا۔
خیر یہ الگ بحث ہے کہ ایک دم اتنے زیادہ پیسے بیرون ملک سے کیوں آرہے ہیں، لیکن مختصرااتنا ضرور کہوں گا کہ پاکستان نے ہنڈی کے ذریعے رقوم پاکستان منتقل ہونے کی اعلیٰ سطح پر روک تھام کی ہے اور بیرون ملک سے پاکستان پیسے بھجوانے کے عمل کو انتہائی سادہ اور آسان کر دیا ہے۔
اگر پاکستان اس میں مزید بہتری لائے توہم ہنڈی یا حوالے کے ذریعے آنے والی رقوم کا مکمل خاتمہ کر سکتے ہیں اور ایف اے ٹی ایف کے شکنجے یعنی گرے لسٹ سے بھی باہر آسکتے ہیں۔ لہٰذاماہرین معاشیات کے نزدیک ایک اندازے کے مطابق اگر ہنڈی کے کاروبار کو مکمل ختم کردیا جائے تو بیرون ملک سے پاکستان سرمایہ منتقل ہونے کا تخمینہ 35سے 40ارب ڈالر سالانہ تک کا لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے حکومت کو پیسے بھیجنے یا وصول کرنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی، ٹیکس وغیرہ کی چھوٹ دینا ہوگی اور اپنا مارک اپ کم کرنا ہوگا۔ تبھی ہنڈی یا حوالہ کے ذریعے پیسوں کی منتقلی کو روکا جا سکتا ہے۔
خیر اتنے زیادہ پیسے پاکستان کوبھیجنے والے اوورسیز پاکستانی اگر چند ایک سہولیات کا مطالبہ کریں تو ہمارے تیور دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ہم ان کے خلاف کورٹ میں بھی چلے جاتے ہیں۔ آپ دیکھیں آزاد کشمیر کے الیکشن سر پر ہیں، جس میں 45 براہ راست نشستوں میں سے 33آزاد جموں و کشمیر کے علاقے میں واقع ہیں جہاں 28لاکھ 17 ہزار سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں 12لاکھ 97 ہزار خواتین شامل ہیں جب کہ 12پاکستان کے دیگر حصوں کی ہیں جس کے 4لاکھ 30 ہزار 456 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں ایک لاکھ 70 ہزار 931 خواتین شامل ہیں۔
ان 12نشستوں میں سے 9پنجاب میں ہیں، جن کے لیے الیکشن کمیشن لاہور اور دیگر اضلاع میں باقاعدہ اہتمام کرتا ہے اور پاکستان میں موجود کشمیریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیتا ہے۔ لہٰذااگر اسی طریقہ کار کو فالو کرتے ہوئے بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی ووٹ کی اجازت دے دی جائے اور کوئی بہتر طریقہ اپنایا جائے تو یہ 73سال پرانا مسئلہ حل ہو سکتا ہے، اور معذرت کے ساتھ کشمیر کے لوگ کشمیر کی ترقی کے لیے اتنا کردار ادا نہیں کرتے جتنا بیرون ملک پاکستانی کرتے ہیں۔
ن لیگ کو پنجاب میں 9کشمیری سیٹوں کا ہر دفعہ فائدہ مل جاتا ہے، اور اُسے آزاد کشمیر میں حکومت بنانے یا مضبوط اپوزیشن بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس لیے وہ اس طریقہ کار کو سپورٹ کرتی بھی نظر آتی ہے، مگر بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ایسا کرنے کے حق میں نہیں۔ ویسے ہم نے بیرون ملک ووٹنگ کا پہلا فیز ہی مکمل نہیں کیا یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا ہی تجربہ نہیں کرسکے۔
ہمارے سیاستدان، ادارے، الیکشن کمیشن سب چاہتے ہیں کہ یہ چکر یوں ہی چلتا رہے۔ بہرکیف حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ 30ارب ڈالر سالانہ بھیجنے والوں کو ملک میں اور تو کوئی سہولت مہیا نہیں کی گئی، نہ ایئر پورٹ پر اور نہ ہی کسی دوسری مد میں انھیں کوئی خصوصی سہولت یا مدد فراہم کی جاتی ہے بلکہ انھیں لوٹنے کے نت نئے بہانے تلاش کیے جاتے ہیں۔ پھر ان اوور سیز پاکستانیوں سے دنیا بھر میں جہاں جہاں ان کے سیاسی ونگز قائم ہیں، ان سے 30، 40ڈالر یا پاؤنڈ یا درہم ماہانہ لیے جاتے ہیں جو کروڑوں روپے کی شکل میں سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس میں جمع ہوتے ہیں لیکن انھیں ووٹ دینے کی سہولت سے محروم رکھا جاتا ہے، کیا یہ منافقت کا آخری درجہ نہیں ہے؟ اور کیا ایسا نہیں ہے کہ گھر کے کماؤ پوت کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔