25سال قبل اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں تقریبا دو سو کے قریب افراد نے کرکٹ ہیرو اور ورلڈکپ کے فاتح کپتان عمران خان کی زیرقیادت ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی تو ملک کی دو بڑی جماعتوں کی موجودگی میں اس جماعت کا اقتدار میں آنا خواب لگتا تھا۔ لیکن مہذب دنیا اور زندہ معاشروں میں ایسی سیاسی جماعتیں جلد یا بدیر وجود پا ہی لیتی ہیں جو شہریوں اور حکومت کے مابین خلا کو پُر کرتی ہیں۔
تحریک انصاف بھی ایک ایسی ہی سیاسی جماعت ہے۔ عمران خان نے انصاف کی فراہمی، صحت، تعلیم، شہری حقوق، عوامی فلاح و بہبود، اظہار رائے کی آزادی، روزگار، مذہبی ہم آہنگی اور مساوی ٹیکس کے نظام کے بارے میں شعور بیدار کرنے کے لیے بنایا ہے۔ پارٹی کے قیام کے بعد عمران خان کی سربراہی میں 6 ممبروں کی مرکزی انتظامی کمیٹی نے کام کرنا شروع کیا جن میں نعیم الحق، احسن رشید، حفیظ خان، معاہد حسین، محمود اعوان اور نوشیروان برکی شامل تھے۔ پی ٹی آئی نے 1997 کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔
پی ٹی آئی ایک بھی نشست جیتنے میں ناکام رہی تھی لیکن بعد میں عمران خان نے ثابت کیا کہ پی ٹی آئی، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی متبادل سیاسی جماعت ہے۔ پھر 2002 میں دوسری مرتبہ پی ٹی آئی نے عام انتخابات میں حصہ لیا اور میانوالی سے عمران خان نے قومی اسمبلی کی ایک نشست اور کرک سے میاں نثار گل کاکاخیل نے کے پی اسمبلی میں ایک نشست حاصل کی۔ پی ٹی آئی نے 18 فروری 2008 کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا جو این آر او (قومی مفاہمت آرڈیننس) متعارف کرانے کے فیصلوں کی مخالفت کرنے کے سبب کیا گیا۔
الیکشن2008 کا حصہ نہ بننے سے تحریک انصاف کو ایک فائدہ یہ ہوا کہ اُسے ایک تو عوام کی توجہ حاصل کرنے کا بھرپور موقع ملا، جب کہ دوسری طرف پارٹی کے اندر سے دباؤ کی وجہ سے 2011ء تک بھرپور مہم چلانے کا موقع ملا اور اس طرح پی ٹی آئی 2011 میں ایک سیاسی قوت بن کر ابھری، پیپلز پارٹی سے شاہ محمود قریشی، مسلم لیگ (ف) سے جہانگیر ترین اور دیگر اہم رہنماؤں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی، اس کے علاوہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں ان کی بھی بڑی تعداد تھی جنھیں سیاسی حلقوں میں کوئی نہیں جانتا تھا، ان میں سرِ فہرست نام اسد عمر کا ہے۔
ایک مضبوط الیکشن مہم کے بعد 2013کے الیکشن میں تحریک انصاف 85لاکھ ووٹ لے کر ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن گئی، لیکن مرکز میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی، تاہم قومی اسمبلی میں 32سیٹیں حاصل کر کے اپوزیشن کی نشستیں سنبھال لیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں اکثریت حاصل کی اور جماعت اسلامی سے اتحاد کرکے صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔
اس دوران دھرنا سیاست کو بھی تحریک انصاف نے جنم دیا، نیٹو سپلائی اور ڈرون حملے کے خلاف پی ٹی آئی کا پہلا دھرنا 24 نومبر 2013 سے 26 فروری 2014 تک پشاور میں ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کو بھی ایکسپوز کیا۔
پی ٹی آئی ریسرچ ونگ نے یہ ثابت کرنے کے لیے 2100 صفحات پر مشتمل کتاب تیار کی کہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔ پی ٹی آئی نے انتخابی دھاندلی کی طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی توجہ مبذول کروانے کے لیے تمام قابل رسائی جمہوری ذرایع کا استعمال کیا۔ عمران خان کا مؤقف تھا کہ سپریم کورٹ انتخابات کے نتائج کا نوٹس لے۔ پی ٹی آئی نے 22اپریل 2014کو دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف اپنی تحریک شروع کرنے کا باضابطہ اعلان کیا۔ پنجاب اور اسلام آباد کے تمام شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔
بعدازاں پی ٹی آئی نے 14اگست 2014 کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کیا۔ اس دھرنے میں پی ٹی آئی کی جانب سے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا، یہ دھرنا تقریباً 5ماہ تک جاری رہا، تاہم 16دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گرد حملے کے بعد دھرنا ختم کردیا تھا۔ پھر 2016 میں پاناما پیپرز اسیکنڈل منظر عام پر آیا، جس کے بعد جب وزیر اعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا، تو اس میں بھی پی ٹی آئی پیش پیش تھی، اس مرتبہ پی ٹی آئی اپنی خواہش پوری کرنے میں کامیاب ہوئی اور سپریم کورٹ نے نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا، جس کے ساتھ ہی وہ وزارتِ عظمیٰ سے بھی نااہل ہوگئے تھے۔
اس کے بعد تحریک انصاف نے 2018 کا انتخاب جیتا، بلاآخر یہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی، تحریک انصاف کی وجہ سے ہمیں ایک بڑا فائدہ جو ہوا ہے، و ہ یہ ہے کہ ہم دو جماعتوں کی موناپلی سے نکلے، کئی نئے سیاست دان سامنے آئے۔ لیکن 2018کی انتخابی جیت کے بعد تحریک انصاف مسائل میں اُلجھ گئی جس وجہ سے عوام کو خاصے مسائل کا سامنا بھی رہا۔ تحریک انصاف نے طویل جدو جہد کے بعد اقتدار لے تو لیا، مگر اقتدار کی کوئی تیاری نہیں کی۔
الغرض تحریک انصاف نے عوام کو مایوس کیا، جس کی وجہ سے اُن دونوں روایتی سیاسی جماعتوں کو دوبارہ بڑا ریلیف ملا اور ان کی سیاست قائم رہی۔ تحریک انصاف نے میڈیا کے معاملے میں مس ہینڈلنگ کی، جس سے تحریک انصاف کی چھوٹی غلطی بڑی غلطی اور دوسری جماعتوں کی بڑی غلطیاں چھوٹی غلطی بن کر عوام کے سامنے آتی رہیں۔ یہ ایسی غلطی تھی جس کا خمیازہ آج بھی تحریک انصاف بھگت رہی ہے۔
بہرکیف تحریک انصاف کی 25سالہ جدوجہد نے جہاں عوام میں تحریک پیدا کی وہیں اسے گڈگورننس میں اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، تحریک انصاف کو خود احتسابی کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ قابل افراد کو آگے لانے اور رائٹ جاب فار رائٹ پرسن لگانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ عوام نے عمران خان کو کرپشن کے خاتمے، اور گورننس کو بہتر بنانے کے لیے ووٹ دیا تھا، تبھی عوام کا ایک بڑا حصہ کرپشن کے خاتمے کے لیے ان کے ساتھ کھڑا ہے، اور شاید تب تک کھڑا رہے جب تک انھیں اُمید کی کوئی کرن نظر نہ آجائے! باقی آگے اﷲ مالک!