4اپریل 1979 کا دن پاکستان کی جمہوری اور عدالتی تاریخ کا سیاہ دن تھا، جب پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، اس عمل کو کسی بھی طرح سے سپورٹ نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ ہر لحاظ سے یہ ایک سیاسی قتل تھا۔
ہر سال بھٹو کی جب بھی برسی آتی ہے تو اُن کے بطور لیڈر سو اچھے اور سو برے اقدامات یاد آجاتے ہیں، کہتے ہیں مرنے والے کی صرف اچھی باتیں یاد کرتے ہیں اور "سچی" باتوں کو بھول جاتے ہیں، لیکن لیڈر جب جہان فانی سے کوچ کرتا ہے تو اس کی زندگی بہت سے لوگوں کے لیے ناصرف مشعل راہ بن چکی ہوتی ہے، بلکہ وہ اپنے ایسے کئی اقدامات سے قوم کی زندگیوں پر اثر ڈال چکا ہوتا ہے جسے لے کر اگلی کئی نسلوں کو یا تو اُن کا فائدہ ہوتا ہے یا اُن کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ خیر بھٹو صاحب میرے فیورٹ لیڈروں میں سے تھے، اُن کی زندگی سے اگر اچھی باتوں کو لیا جائے تو انھوں نے بے شمار ایسے کام کیے جس سے "مثبت پاکستان" کی داغ بیل رکھی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو 1958 تا 1960 صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تجارت، 1960تا 1962 وزیر اقلیتی امور، قومی تعمیر نو اور اطلاعات، 1962تا 1965 وزیر صنعت و قدرتی وسائل اور امور کشمیرجب کہ جون 1963تا جون 1966 وزیر خارجہ رہے۔ پھر انھوں نے معاہدہ تاشقند کی مخالفت کر کے استعفیٰ دے دیا، انھیں معاہدے میں جنگ نہ کرنے کی تجویز پسند نہ آئی۔ تاشقند سے واپسی پر ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان سے نہ صرف سیاسی راستے جدا کر لیے بلکہ وہ تواتر کے ساتھ تاشقند معاہدے کی خفیہ شق کا ذکر بھی کرنے لگے۔ پھر انھوں نے 1967 میں بائیں بازو کے قائدین کو اکٹھا کرکے پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی۔
انھوں نے "اسلام ہمارا مذہب، سوشل ازم ہماری معیشت، جمہوریت ہماری سیاست، اور طاقت کا سرچشمہ عوام، کا منشور لے کر 30نومبر 1967کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی بناکر، روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا۔ 1967میں بھٹو کی عوامی مہم کے آغاز سے 1970کے انتخابات تک بھٹو نے پورے ملک میں کئی دورے کیے اور اس دوران انھیں بھرپور عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ کچھ جگہوں پر ان پر حملے بھی ہوئے، لیکن انھوں نے 70کے الیکشن میں کئی ایک سیاسی اور نوابی خاندانوں کو پچھاڑ دیا۔ بہت سے ایسے اُمیدوار بھی الیکشن کا معرکہ سر کر آئے، جن کے پاس ذاتی ٹرانسپورٹ کا وجود ناپید تھا۔
ساہیوال سے ممبر صوبائی اسمبلی، نذر محمد نے اپنی انتخابی مہم مانگے تانگے کی سائیکل پر چلائی اور بڑے بڑے برج جن میں سردار احمدعلی اور سردار عارف نکئی نمایاں ہیں کو شکست سے دو چار کیا، اسی طرح لاہور میں شیخ رشید نے میاں طفیل محمد کو شکست دی، پھر خورشید حسن میر جیسے ایک گمنام وکیل نے راولپنڈی میں اصغر خان کو 35ہزار ووٹوں کی برتری سے شکست دی تھی، الغرض پیپلز پارٹی نے پہلی بار غریب عوام کو سیاست میں حصہ لینے پر اُبھارا، اُنھیں سیاسی شعور بھی دیا اور احتجاج کی زبان بھی۔ یوں پیپلزپارٹی پنجاب اور سندھ میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے والی متحدہ پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بنی۔
ان کے دورِ اقتدار میں پاکستان کا آئین بنایا گیا، جوہری پروگرام شروع ہوا، اسٹیل ملز اور ہیوی مکینیکل کمپلیکس جیسی صنعتیں لگیں، مزدوروں کے حقوق کے لیے قانون سازی سمیت متعدد ترقیاتی کام کیے گئے۔ میٹرک تک اسکول کی فیس معاف کی۔ طلباء کو مفت سفری سہولیات مہیا کیں، پھر انھوں نے ملک کی بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا، اس بارے میں مختلف آراء موجودہیں، لیکن میری رائے میں یہ ایک اچھا فیصلہ تھا، جس سے عام آدمی کو خاصا فائدہ ہوا، الغرض جتنے کام انھوں نے پانچ برسوں میں کیے اِتنے کام ان کے بعد آنے والے فوجی یا سیاسی لیڈر دس برسوں میں بھی نہیں کر پائے۔
اُن کے بارے میں بہت سی "سچی اور کڑوی" باتیں بھی ہیں جن کا ذکر اس لیے بھی کیا جانا چاہیے کہ ہم بھٹو کے کئی اقدامات کا خمیازہ آج بھی بھگت رہے ہیں، جیسے یہ ہمارا شروع ہی سے قومی المیہ رہا ہے کہ لبرل لیڈر بھی دائیں بازو کی جماعتوں کے ہمیشہ یرغمال ہوتے آئے ہیں۔
بھٹو بھی نا چاہتے ہوئے، آخر میں دائیں بازو کے ہاتھوں یرغمال ہوگئے، اور آہستہ آہستہ اپنی پارٹی کو بائیں بازو کے رہنماؤں سے "آزاد" کرا لیا۔ انھوں نے اپنی پارٹی میں شخصی آمریت قائم کی، جس کسی نے اختلاف کیا، اُن کے ایک اشارہ ابرو پر ساری پارٹی نے اُس کا سماجی اور سیاسی مقاطعہ کر دیا۔ اسی لیے بالآخر معراج محمد خان، جے اے رحیم، میاں محمود علی قصوری، رسول بخش تالپور، علی احمد تالپور، ڈاکٹر غلام حْسین، حنیف رامے، مصطفی کھر، تاج لنگاہ، مختار رانا، عبدالخالق خان (روئیداد خان کے بھائی)، خورشید حسن میر وغیرہ جیسے بائیں بازو کے بڑے رہنماء اُن سے الگ ہو گئے۔
یہ تو تھا بائیں بازو کے رہنماؤں کا ساتھ چھوڑنا، ذراآگے چلتے ہیں! کہ بھٹو صاحب نے دائیں باز و کی جماعتوں کے دباؤ آکر سرکاری چھٹی جمعہ کو کر دی، صوبہ سرحد اور بلوچستان کی حکومتوں کو برطرف کیا، حیدرآباد ٹربیونل قائم کیا اور یوں صوبائی نفرتوں کا بیج بویا۔ اس دوران وہ تمام جاگیردار، قبائلی سردار و مشر، چوہدری، وڈیرے اور گدی نشین سیاستدان جن کو 1970کے الیکشن میں شکست ہوئی تھی۔
بھٹو کے قریب آگئے اور انھوں نے بھٹو پر اپنی سیاسی گرفت مضبوط کر لی، جب بھٹو نے 1971میں وزارت عظمیٰ سنبھالی تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ معراج خالد بنے جب کہ گورنر غلام مصطفی کھر بنے، پھر حنیف رامے وزیراعلیٰ بنے لیکن 1977 میں بھٹو حکومت کو زوال آیا تو اُس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواب صادق حسین قریشی اور گورنر پنجاب نواب صادق عباسی امیر بہاولپور تھے، اندازہ لگائیں کہ بھٹو کس قدر بدل چکے تھے!
جب بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو دائیں بازو کی جماعتوں نے بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور اُن کی حکومت کو چلتا کیا۔ اس دوران چونکہ بھٹو صاحب بائیں بازو کے رہنماؤں کو ناراض کر چکے تھے، اس لیے بھٹو تنہا رہ گئے، اور یہ ہی اُن کے زوال کا اصل سبب بنا اور بھٹو کے اس سیاسی یوٹرن نے ملک میں مارشل لاء کی راہ ہموار کردی اور ساتھ ہی دائیں بازو کی جماعتوں کی بالادستی قائم ہوگئی جس کا نتیجہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ موجودہ پیپلزپارٹی بھی بھٹو کے پہلے ترقی پسند رنگ کے بجائے دوسرے دائیں بازو کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔
وہ اصل راہ سے ہٹ چکی ہے۔ وہ اب پاور پالیٹکس پر یقین رکھتی ہے اور سیاست کو صرف شطرنج کا کھیل قرار دے چکی ہے۔ اُس کانظریات، احساسات اور جذبات سے کوئی تعلق نہیں، تبھی تو تین دفعہ اقتدار ملنے کے باوجود بھی وہ عوام کو ڈلیور نہ کر سکی۔ اور اپنی تمام تر توجہ اپنی حکومت کو بچانے کے لیے لگاتی رہی ہے، اور ابھی بھی لگا رہی ہے، لیکن تعجب ہے اس دوران اُسے عوام کہیں نظر نہیں آرہے۔ تعجب یہ بھی ہے کہ وہ 13سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے لیکن، وہاں بھی کوئی انقلاب نہیں لا سکی۔ پیپلزپارٹی اگر اپنے منشور پر عمل کرے تو واقعی پورے ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن سکتی ہے اور اقتدار بھی حاصل کر سکتی ہے۔