Thursday, 21 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Chaudhry Rafiq Hayat

Chaudhry Rafiq Hayat

آج ایک سنجیدہ موضوع پر بات کرنا ہے اور جس نکتے پر فوکس رہے گا یہ کوئی انسان ہے اور نہ ہی کوئی گروپ اورنہ ہی کوئی لفظ ہے بلکہ یہ ایک کفیت ہے جس سے چودھری رفیق حیات جواں مردی سے "نمرود -آزما" ہیں۔ کہتے ہیں بس یہ ایک کیفیت ہے جس سے یہ نمٹنے میں میں کافی حد تک قسمت آزما ہوں۔ حالانکہ بڑھاپے کی کیفیت سے کبھی کسی نوجوان کی بن نہیں پاتی کبھی یہ اسے گرا لیتی ہے اور کبھی بڑھاپا۔ لیکن چودھری صاحب کی اینٹی بڑھاپا کیفیت سیر کو سوا سیر کی طرح پڑتی ہے۔

جب سے یہ پید ا ہوئے ہیں اسی بات سے خوفزہ رہتے ہیں کہ کہیں میں عمر رسیدہ نظر نہ آؤں لیکن صدق دل سے اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ اس کیفیت کے کسی طرح رونگٹے کھڑے کروں یا کان۔ حالانکہ بڑھاپے کی یہ کیفیت چودھری صاحب کے بزرگوں سے بھی کئی سال بڑی ہے۔ ان کے کئی دانش مند بزرگ کوشش کر چکے ہیں کہ وہ اپنے بڑھاپے سے بھی بڑے نظر آئیں اور اس پر اپنا تسلط قائم رکھیں لیکن اس جستجو کے رستے میں بھی کسی نہ کسی کا بڑھاپا آتا رہا ہے۔ یہ اپنی اس کیفیت سے نمٹ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی جھولی میں بیٹھ کر اس کے بال نوچ سکتے ہیں لیکن میں کبھی کبھار ان کی اس "لڑائی" سے تفریح لینے کے لیے ان کے پاس چلا آتا ہوں۔ چوہدری رفیق حیات صاحب کو ریٹائرڈ ہوئے دس سال ہوچکے ہیں مگر ہیں وہ چھہتر سال کے۔ ایک دفعہ جب ان کا ہاتھ پڑا انہوں نے اپنے بڑھاپے کو اوائل عمر میں پہلی شکست دی اور اپنی عمر چھ سال کم لکھوا لی تھی۔

ایک چھٹی کے دن میں وقار مجروح کو ساتھ لے کر ان کے گھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ اسی وقت ان کا بیٹا باہر آیا اس نے بتایا کہ اباجی بازار گئے ہیں ابھی آتے ہی ہوں گے۔ اتنے میں ایک گول مٹول سے بزرگ (قد لگ بھگ پانچ فٹ سے تین انچ کم) تیزی سے سائیکل پر آتے دکھائی دیے اور قریب آ کر سائیکل سے ایسے زور سے گرے کہ گھسیٹے چلے گئے۔ ان کے سر پر کپڑے کی وجہ سے کوئی بھی انہیں پہچان نہ سکا۔ میں نے پاس کھڑے لڑکے سے کہا کہ کیا دیکھ نہیں رہے ہو انہیں پکڑو اور اٹھاؤ۔ کہنے لگا آپ سب گھبرائیں نہیں۔ یہ میرے اباجی ہیں اور یہ سائیکل سے ایسے ہی اترتے ہیں۔۔

اتنے میں انہوں نے خود کھڑے ہو کر بغیر کپڑے جھاڑے مجھ سے ہاتھ ملایا اور اندر بیٹھنے کو کہا میں سوچ میں پڑ گیا کہ جب یہ بازار میں ایسے اترتے ہوں گے تو لوگ ان کو سڑک سے اٹھا کر بڑی زیادتی کرتے ہوں گے اور یہ ان کو ایسے پڑتے ہوں گے کہ وہ خود کو گرا ہوا محسوس کرتے ہوں گے ویسے ان کی یہ Fell loss fee آج تک کسی کو سمجھ نہیں آئی۔ اتنے میں وقار مجروح میرے کان میں کہنے لگا ان کا نام تو ایک زیر لگانے سے نسوانی سا ہو جاتا ہے لیکن انہوں نے اپنے بڑھاپے کو خوب زیر کر رکھا ہے۔ لوگ دوسروں کو ڈرانے کے لئے کسی بوڑھے کا ماسک لگا تے ہیں لیکن شاید اِنہوں نے اپنے پورے جسم پر کسی نوجوان کا "فل باڈی ماسک" چڑھایا ہوا ہے۔ ان کے بیٹے سے پتا چلا کہ ان کو کوئی خطرناک بیماری نہیں ہے بس چند ایک یہی گرنے اور گرانے والی ہیں۔ ابا جی اب Redbull والوں سے رابطہ کرکے پیرا جمپ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے انہیں بہت کہا ہے کہ کم از کم یہ کام نہ کریں ورنہ پیراشوٹ یا انشورنش کمپنی کے دیوالیہ ہونے اندیشہ ہے۔

بیٹے کی بات کاٹتے ہوئے چوہدری صاحب کہنے لگے مجھے "کیرے"نے لے لیا ہے بچپن سے ہی یہ زکام نما ہر وقت گرتا ہے ورنہ میں اب بھی آپ کو چوبیس سال کا دکھائی دیتا حالانکہ ان کا جسم ابھی بھی اتنا توانا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بازار میں کسی کے ساتھ ٹکرا جائیں وہ ایسے زمین پر گرتا ہے جیسے اسے ہینو کا ٹائر نکل کر لگا ہو۔ یہ کیرے کو بدنام کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے میرا بلڈ پریشر گرتا ہے اور کچھ اس کے باعث ہی فالج بھی گرچکا ہے ان کا یہی خیال ہے کہ؎

جو کبھی سنگِ گراں بن کے مرے سر پہ گرا

متواتر اچھی خوراک کی وجہ سے ان کی عینک کا نمبر بھی گر چکا ہے۔ سائیکل سے بھلے گریں لیکن صحت گرنے نہیں دیتے۔ کچن میں موجود کوئی بھی کچی پکی چیز اپنے معدے میں گرا لیتے ہیں اور نہ ہی دل میں کوئی گری ہوئی بات رکھتے ہیں۔ ایک دفعہ ان سے کسی نے پوچھا تھا کھیر میں گلاب جامن ڈال کر کیوں کھا رہے ہو کہنے لگے آج میٹھی کڑھی کھانے کو دل چاہ رہا تھا۔

ان کے سر کے بال اتنے گر چکے ہیں کہ اب ان پر کنگھی پھیرنے کی"گنج جائش" نظر نہیں آتی۔ بقول ان کے کیرا گرنے کی وجہ سے ہی ان کے سب دانت گر چکے ہیں اور جبڑا الف "لفنگا" ہو چکا ہے لہذا ان سے کئی لفظ بھی صحیح طرح ادا نہیں ہوتے خصوصا جب کچھ گنگنا رہے ہو ں تو الف گر جاتا ہے۔ منہ بنا کر کہنے لگے کہ اب

کجھ وی میں کھانا واں کھا نئین ہوندا۔۔
جو وی میں کہنا واں کہہ نئیں ہوندا

ان کا بیٹا ہم سے کہنے لگا اباجی نے ہمیشہ اور جگہ ہمارا ساتھ دیا ہے بھلے جیسا بھی کمرہ امتحان ہو۔ چودھری صاحب اسے کہنے لگے وہ باپ ہی کیا جو "سدباپ" نہ کرے۔ وقار مجروح تصیح کرتے ہوئے کہنے لگا چودھری صاحب سدباب ہوتا ہے سدباپ نہیں۔ وقار مجروح تفریح لیتے ہوئے کہنے لگا آپ نے غالب کا وہ شعر نہیں سنا کہ؎

"پلادے اونٹ کو ساقی جو ہم سے نفرت ہے"

چودھری صاحب دوبارہ کہنے لگے میرے جسم کے آنگن سے کچھ گرتا گراتا نہ۔۔ تومیں ابھی بھی بیس کا لگتا۔ وقار مجروح یوں محسوس ہوا جیسے انہوں نے بیس نہیں خبیث کہا ہو؟

اسے فوراََ ٹوکتے ہوئے کہا تم میری باتیں غور سے نہیں سن رہے ہو اور اپنے گرے ہوئے الفاظ میرے منہ میں ڈال رہے ہو۔ وقار مجروح منہ بنا کر پوچھنے لگا ان سب بیماریوں کا زکام کس پر گرتا ہے کہنے لگے بتایا تو ہے "کیرے" پر۔ کہنے لگا اچھا جی کیرا نوی صاحب۔۔ اچانک ان کی بیوی بھی ہمارے پاس آکر بیٹھ گئی اور کہنے لگی چودھری صاحب ماشااللہ گرتے گراتے گھر کے کام کاج اور بھاگ دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ ریلو کٹے تو آپ سنا ہوگا لیکن یہ ہمارے گھریلو کٹے ہیں۔ بچے انہیں اکثر کہتے ہیں کہ موٹرسائیکل لے جائیں مگر یہ کہتے ہیں موٹر سائیکل سے ان کے سٹائل میں اترتے ہوئے چوٹ لگ سکتی ہے۔ ویسے ان دونوں کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ موسمیاتی کی تبدیلوں کے ساتھ ساتھ شائد زمین کی گریوٹی بھی پہلے سے بڑھ چکی ہے۔

رفیق حیات صاحب اپنی رفیق حیات کو ابھی تک اپنی دلہن کہتے ہیں وہ بھی ان کی باتوں پر پورا پورا اعتبار کرلیتی ہے۔ رفیق صاحب کی طبیعت میں پوری مٹھاس تو ہے مگر محلہ پھیکا کہہ کر بلاتا ہے۔ چودھری رفیق حیات کہتے ہیں میری رفیق حیات اتنی سگڑہے کہ جب میرے پاس اس کی تعریف کے لئے الفاظ نہیں ہوتے تب مجھے تصویروں سے مدد لینی پڑتی ہے۔ یہ میری دلہن بھی ہے اور الجھن بھی۔ عطاء اللہ نیازی عیسٰی خیلوی کے گیتوں کی عملی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ یہ بھی میاں والی کی ہے اور خیر سے میاں والی بھی ہے اور میاں بھی ایسا کہ جس پر گرمیاں بھی اثر نہیں کرتیں۔ ہم گھر میں یہ ایک دوسرے کے کپڑے اور جوتے بھی پہن لیتے ہیں۔ اس کو سامنے دیکھ کر ایک دم گنگنانے لگے۔۔

قمیض تیری کالی۔۔ توں لا لئی میں پالئی

ان کی بیوی نے خود چائے بنا کر ہمارے آگے رکھی۔ وقار مجروح نے بسکٹ چوہدری صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا لیں چوہدری صاحب آپ بھی لیں۔ چاچی اسی وقت کہنے لگی یہ صرف "گالا" کھاتے ہیں۔ وقار مجروح پوچھنے لگا کہ صرف آپ سے یا سارے محلے سے؟ چاچی نے فوراََ اُسے ٹوکا اور کہا تم اپنی طرف سے نون غنا کا اضافہ کرکے ہماری لڑائی نہ کروا دینا۔ میں گالا بسکٹ کہہ رہی ہوں گالاں نہیں۔

کہتے ہیں کبھی جوانی میں محلے دار مجھے پپو کہتے تھے اور پورے محلے میں "پپو لیرٹی" تھی۔ لوگ مجھے دیکھ عش عش کرتے تھے۔ وقار مجروح کہنے لگا حالانکہ انہیں غش غش کرنا چاہئے تھا۔ صفائی کے اتنے شوقین تھے کہ اپنی توصاف رکھتے لیکن اگلے کی جیبیں بھی صاف کر دیتے تھے۔ اسی وجہ سے ایک دفعہ چاچی نے ان سے کہا تھا

جیب تیری خالی مینوں بھیج میاں والی

لگتا ہے ابھی تک انہوں نے بڑھاپے کو مکمل سبکدوش کر رکھاہے یا پھربڑھاپے نے بغاوت کی ہوئی ہے۔ آج کل ان کی صرف ایک شخص کی بنتی ہے وہ ہے ڈاکٹر حکیم بخش ہومیو۔ اپنی صحت کے بارے میں بہت سے سوالات کا جواب انہوں نے اس بات سے دیا؎

معاملہ ہے اس کا بڑا ہی پیچیدہ
بڑھاپے کو میرے تم لو ہی نہ سنجیدہ

وقار مجروح کہنے لگا جیسے چوہدری رفیق حیات ہیں ایسا کسی ملک کا خزانہ ہونا چاہئے اس کے وزیر جتنے مرضی عمر رسیدہ ہوں لیکن وہ اپنے خزانے کو کبھی "لاغر" نہ ہونے دیں۔