Saturday, 21 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Yakjehti Dot Qaum

Yakjehti Dot Qaum

یہ زیادہ عرصہ پرانی بات نہیں کہ جب ہمارے ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر ایک کروڑ ڈالر سے بھی کم ہوا کرتے تھے اور جب یہ ایک کروڑ ڈالر کی حدود کو چھونے لگتے تو ہمارے لیڈران بلند و بانگ دعواؤں سے اس کی تشہیر کرتے تھے۔ اکتوبر 99 میں یہ اثاثے تقریباً 80کروڑ ڈالر کی شکل میں ایک عظیم حیثیت رکھے ہوئے تھے۔ ذرائع کے مطابق آج کل پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر کی حدوں کو عبور کر چکے ہیں جبکہ 2017 میں یہ چوون ارب ڈالر کی حدوں کو بھی چھونے والے تھے۔

یہ مالیاتی ذخائر بھی گھریلو اثاثوں کی طرح ہوتے ہیں اگر کسی گھر میں زندگی میں استعمال ہونے والی تمام آسائشیں مثلاً فریج، ٹی وی، کار، فون، ائیر کنڈشنز اور بینک بیلنس ہو تو خاندان کو کافی سہولتیں اور طمانیت میسر ہوتی ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ گھر میں امن بھی ہو اور وہ گھریلو چپقلش سے آزاد ہو۔ دیکھا گیا ہے کہ اگر گھر میں پیسے کی ریل پیل ہو تو خاندان کی چھوٹی موٹی رنجشیں ویسے ہی پٹڑی اتر جاتی ہے اور جہاں لڑائی جھگڑے کا بول بالار رہتا ہو وہاں سے برکت ایسے بھی اُٹھ جاتی ہمارے شاعر برکت برنولوی کو مشاعرے سے اٹھا دیا جاتا ہے۔

اگر گھر میں چپکلش جاری رہے تو گھر کے سربراہ کے گھر سے پاؤں باہر رکھتے ہی پیچھے سے برتن آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ پہلے ذرا بڑے آتے ہیں بعد میں جو ہاتھ لگے چنانچہ وہ تجربے کی بنیاد پر پلو بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اس طرح کی بے چینی سے گھر خالی ہونا شروع ہوتے ہیں۔

بہرحال اُمید ہے آنے والے خوشگوار عرصے ہمارے اثاثے بڑھنے سے بھی یقینی طور پر لڑائی جھگڑوں اور تعصب میں کمی آئے گی اور خوشحالی کی راہ پر چلتے ہوئے ہم ایک ہو جائیں گے۔ آپ موجودہ حالات سے اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ زر کی حرکت پذیری کے باعث سٹاک مارکیٹ میں بے حد تیزی آتی ہے۔ اسی سال مارچ میں سٹاک ایکسچینج کا انڈیکس 2346 پر ختم ہوا تو سٹاک ایکسچینج کے حلقے اسے ایک اعلیٰ ترین کامیابی قرار دے رہے تھے لیکن چھ سات ماہ گزرنے کے بعد یہ حیرت انگیز طور پر بڑھ کر چھالیس سو انڈیکس کی حد کو چھو چکا ہے اور اس میں نشیب و فروز بھی معمول کا حصہ ہیں جو کہ نہایت اطمینان بخش ہے کیونکہ ہم سے کئی گناہ بڑے ملک بھارت کا ممبئی سٹاک ایکسچینج (بی ایس ای) بھی اسی اعداد و شمار پر بند ہوتا ہے۔

اسٹاک ایکسچینج کی ملک کی اکانومی کو ماپنے کا ایک نہایت مستند آلہ ہوتا ہے یہ ایک عام بازار کی طرح بازار ہوتا ہے جہاں اشیاء کی بجائے کمپنیوں کے حصص کی خریدوفروخت ہوتی ہے اور اکنامکس کے قانون طلب ورسد کے مطابق ہی و ہاں حصص کی قیمتیں طے ہوتی ہیں۔ اگر کسی کمپنی کے حصص کی خریداری کے خواہش مند زیادہ ہو جائیں تو حصص کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔

یہ حصص یا شیئرز کیا ہوتے ہیں کسی فرد واحد کے لیے کسی بڑے پراجیکٹ کا آغاز کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور اس کے لیے ایک کثیر سرمایہ دارکار ہوتا ہے اور اس سرمائے کے حصول کے لیے سٹاک ایکسچینج کے قانونی ممبران میں حصص فروخت کرکے حصہ داراوں میں ان کے حصص پر منافع تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان پر کئی اور قسم کی مراعات اور بونس شیئر وغیرہ بھی دئیے جاتے ہیں۔

اسٹاک ایکسچینج کی روزانہ کی بنیاد پر خرید و فروخت اور جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور پچاس کروڑ کی خریداری کو ایک انڈیکس شمار کیا جاتا ہے اِردگرد کے عالمی حالات ہوں یا قوی حالات بے چارے ا سٹاک ایکسچینج کو ہی ان حالات کے نشیب و فراز سے اوّلین واسطہ رہتا ہے نائن الیون کے واقعہ کے بعد دنیا کے بڑے بڑی سٹاک ایکسچینج کافی عرصے تک اپنے قدموں پر کھڑے نہیں رہ سکے تھے لیکن حیرانی کی بات ہے کہ جن کمپنیوں کے دفاتر ٹوِن ٹاور میں تھے ان کے آج بھی وارے نیارے ہیں۔

خوش قسمتی سے کچھ ایسی صورت حال ہمارے ملک کے اتھ بھی رہی لیکن ہمارے بازار حصص نے چند دن کے کریش کے بعد تیزی سے ٹیک آف لیا مگر اس پر اس واقعہ کا زیادہ اثر نہیں پڑا اور وہ آگے بڑھتا رہا۔ نائن الیون کے بعد دنیا کی کئی ائیر لائنز اور بیشتر کمپنیاں کریش کر گئیں لیکن ہمیں اللہ کے فضل سے کوئی زیادہ مشکلات پیش نہیں آئیں کیونکہ ہمارے جہاز پہلے ہی کم تعداد میں تھے۔ باقی دنیا کی طرح ہمارے ملک میں بھی کچھ عرصہ خشک سالی رہی لیکن آج کل ہمارے ملک میں پانی کی اتنی فروانی ہوگئی ہے کہ اب ہمیں اس کے سٹوریج کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور اس کے لیے دو بڑے ڈیم بنانے بہت ضروری سمجھے جا رہے ہیں جو کہ افہام و تفہیم سے عنقریب پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے۔

ہم نے جوہری میدان میں کامیابیاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ میزائل ٹیکنالوجی جیسی جدید اور اہم کامیابیاں بھی حاصل کر لی ہیں، ہمارا پنا جے ایف تھندر دنیا میں اپنا مقام بنا چکا ہے۔ اگر ہماری آبادی بڑھ رہی ہے تو اس سے ہمیں اعلیٰ اذہان بھی حاصل ہو رہے ہیں ہمارے ملک کے لوگوں میں ٹیلنٹ اور ذہانت کی کمی نہیں لیکن صرف اس بنجر زمین کے لیے تھوڑے سے پانی کی ضرورت ہے ہمارے مواصلاتی نظام نے بھی عالمی سطح کے معیار کو چھونا شروع کر دیا ہے ہمارے پاس موٹروے جیسی عظیم سڑکیں ہیں سول ایوی ایشن اتھارٹی ملک میں جدید ترین ائیر پورٹ بنا رہی ہے اور فضاؤں میں محفوظ اور قابل اعتماد "شاہراہیں" تعمیر کر رہی ہے۔

ہمارے پھل اور سبزیاں عالمی معیار کی حامل ہیں ہماری ذہین مائیں بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج ہے جس نے دشمن کے ناپاک ارادوں کو ہمیشہ خاک میں ملائے رکھا ہے۔ ہمیں اُمید کی کرنیں عادل فریدی کے اس شعر میں دکھائی دے رہی ہیں۔

اداس مت ہو کہ موسم بدل رہا ہے میاں

وہ دیکھ شاخ سے پتا نکل رہا ہے میاں

مثبت تنقیدی اور تعمیری مشق سخن جاری رکھیے کیونکہ اس میں شک نہیں کہ اس وقت ملک میں بے روزگاری بہت بڑھ چکی ہے اسی وجہ سے ڈکیتیاں اور قتل وغارت کے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ کہیں کہیں لاقانونیت اور بے انصافی کی مشق جاری ہے فرقہ پرستی تعصب اور مہنگائی بھی اپنے عروج پر ہے لیکن ہر عروج کو زوال بھی تو ہے۔ اگر ہم انصاف اور یکجہتی کو اپنا لیں تو جہاں ہمیں عشروں میں منزل حاصل ہوگی وہاں ہمیں چند سالوں میں باعزت مقام حاصل ہو جائے گا۔

مایوسی کفر ہے اور ہم مسلمان ہیں حوصلہ رکھیے اور پختگی سے پُرامید رہیے ان شاء اللہ صوفی برکت علی صابری مرحوم (ادارہ دارلاحسان) کی پاکستان کے بارے میں خوشگوار پیشین گوئیاں اب پورا ہونا شروع ہو چکی ہیں لہٰذا آج ہی اپنے دلوں اور اذہان پر یکجہتی قوم کی سائٹ کھول لیجیے یقین کیجیے پاکستان ترقی کی منزل کو فتح کرنے کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے۔ آخر میں ایک قطعہ

دل کی باتیں دل کھول کر بتائیں بڑے شوق سے
دل کرتا ہے تو دل کو تڑپائیں بڑے شوق سے

دل کے آستانے پر آمد اور مڑنے کی ہے نیت
آنا ہے تو آ جائیں ورنہ جائیں بڑے شوق سے