قرآن پاک کی آیات میں جہاں رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنے کا حکم ہے وہاں بالکل ساتھ ہی زکواۃ کی ادا ئیگی کا بھی بڑا عظیم حکم ہے۔ بینکوں میں رکھی گئی رقوم پر زکواۃ کاٹ کر بیت المال میں جمع تو ہو جاتی ہے لیکن بڑے اکاونٹ ہولڈرز رمضان سے پہلے ہی اپنی رقم نکلوا کر زکواۃ کی ادائیگی سے خود کو بچا لیتے ہیں یا پھر از خود ائیگی کا بیان حلفی دے کروقتی طور پر بچ رہتے ہیں اور ایک اہم فریضہ کی ادائیگی محروم رہتے ہیں۔
زکواۃ کو اگر صحیح معنوں ادا کر دیا جائے تو کچھ عرصے میں ہی پورے معاشرے پر اس کے مثبت اثرات آ سکتے ہیں اور اس اثرات کے ثمرات کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں صرف کراچی شہر کے امراء کی ایک تعداد فرض کر لیں کہ اندازہ دس ہزار لوگ ایسے ہوں گے جن کے بینک اکاؤنٹس میں ایک کروڑ روپیہ ضرور ہوگا۔
اگر یہ دس ہزار اشخاص اپنے ایک سال کی جمع شدہ رقم یعنی ایک کروڑ کی رقم میں سے اس کا چالیسواں حصہ یا ڈھائی فی صد زکواۃ جو کہ مبلغ ڈھائی لاکھ روپیہ بنتی ہے، علیحدہ کر لیتے ہیں اور اسے دس ہزار نوجوانوں کو اس شرط کے ساتھ امداد کے طور پر دے دیتے ہیں کہ وہ اس رقم سے سنجیدگی سے کوئی کاروبار کریں گے اور اپنے کاروبار میں کامیاب ہوکر خود بھی زکواۃ ادا کیا کریں گے اور یوں دوسرے غرباء کی مدد کیا کریں گے تواس نیک عمل کے دور رس نتائج نکلنا شروع ہو سکتے ہیں۔
ایک کروڑ رقم کی زکواۃ ڈھائی لاکھ بنتی ہے اور کراچی کے یہ دس ہزار مخیر حضرات دس ہزار ضرورت مندوں یا نوجوانوں کو ڈھائی لاکھ فی کس کے حساب سے اکٹھی رقم دے کر ان نوجوان کو نا صرف پاؤں پر کھڑا کر سکتے ہیں بلکہ اس کے لواحقین کے لئے بھی مدد کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں تاکہ وہ اس سے اپنا کوئی نہ کوئی کام یا کاروبار شروع کرسکیں۔
اسی طرح لاہور میں کروڑ پتیوں کی تعداد کے بارے میں فرض کریں کہ یہ سات ہزار تک ہو تو ہر سال سات ہزار نوجوان اس سے مستفید ہو سکتے ہیں اور اگلے پانچ سالوں میں اس زکواۃ سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد چالیس ہزار تک پہنچ سکتی۔ اسی طرح چھوٹے بڑے شہروں میں ہر سال کئی ہزار لوگوں کی مالی کفالت ہوسکتی ہے اور یوں پورے پاکستان میں ایک سال میں تقریبا تیس ہزار نوجوان ہمارے کروڑ پتی مسلمانوں کی زکواۃ کے فیض سے اپنی بیروزگاری کو دفن کر سکتے ہیں۔
اگر مالدار لوگ یہ تہیہ کر لیں کہ غربت اور بیروز گاری کو صرف زکواۃ کی رقم سے ختم کرنا ہے تو اسے چند سالوں میں ہی اچھا رزلٹ حاصل کرکے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ زکواۃ نکالتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ نصاب کی یہ رقم اکٹھی کسی ایک شخص کو سونپنی ہے اور اس کو مختلف ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی رقم میں بانٹ کر بے مقصد بنانا نہیں ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کہ پورے پاکستان میں کم ازکم ہے 30000 ہزاربے روزگار اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں گے اور اگریہ سلسلہ اگلے پانچ سال تک جاری رہے تو ڈھیرہ لاکھ افراد اپنے وسائل پیدا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
اس میں بھی شک نہیں کہ اس سے مخیر ہزار کی دولت میں بھی برکت پیدا ہوگئی اور دولت کی تقسیم میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا اور اسی طرح معاشرہ میں مزید لوگوں کی آمدن بڑہنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گئے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جو لوگ غریبوں پر خرچ کرتے ہیں ان کا مال کبھی کم نہیں ہوتا اس طرح دولت کا ارتکاز بھی ایک جگہ نہیں ہوگا روپے پیسے کی موومنٹ اور سرکولیشن ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں آ جائیگی اس سے افراط زر میں کمی آئے گی۔
دولت کا مختلف ہاتھوں میں پہنچنا اس کا آگے سے آگے پھیلنا کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا ضامن ہوتا ہے اگر اسلامی ممالک اپنی زکواۃ کی مناسب تقسیم کا نظام ٹھیک کرلیں تو انہیں کسی قرضے یا کشکول پھیلانے کی اور اسی وجہ سے پیدا ہونے والے دوسرے معاشی مسائل میں الجھنے کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئے گی۔
اسلام کا دیا ہوا زکواۃ کا نظام دولت کی تقسیم کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے اس کے نتائج چند ہی سالوں میں آنا شروع ہو جاتے ہیں اگر ہم تجربے کو طور پر موجودہ سال سے اپنے مخیر حضرات کو درخواست کریں کہ وہ اپنے بینک میں جمع شدہ رقم جو ایک سال سے پڑی ہے اس کا ڈھائی فی صد یا چالیسواں حصہ نکال کر کسی بالغ پڑھے لکھے ضرورت مند کو امداد کے طور پر دے دیں تو ابھی سے برکات کا نزول شروع ہو سکتا ہے اور اس کے معاشی ترقی پر بہت عالیشان نتائج آ سکتے ہیں۔
زکواۃ کے بارے میں مزید گزارش ہے کہ یہ تو صرف ایک مثال ہے کہ جن کے بینک اکاؤنٹ میں پیسے پڑے ہیں صرف وہی ایسا کریں یا کر سکتے ہیں مگر ان میں تو وہ لوگ بھی شریک ہو سکتے ہیں جن کے پاس مختلف ذرائع میں دولت جمع ہے بھلے وہ ذرِ نقد کی صورت میں ہے یا کسی دوسری اجناس کی صورت میں۔ اس بارے میں دلائل دے کر ہمارے علماء اساتذہ پروفیسر اور سیاست دان بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور اس عمل کی باقاعدہ تبلیغ کی جا سکتی ہے جو اپنے ارد گرد کے ماحول میں زکواۃ کی موثر ادائیگی کی ترغیب میں موثر ثابت ہو سکتی ہے۔
اگر کسی ملک کی معاشی صورتحال بہتر نہیں ہوتی تو اس قوم کی معاشرتی صورت حال کا آئیڈیل ہو نا بھی ناممکنات میں سے ہوتا ہے اور نتیجہً معاشرے میں جرائم کی بیماریاں ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہو کر پورا معاشرہ کو بیمار کر دیتی ہیں لہذا زکواۃ کی ادائیگی کے حکم کی پیروی میں اگر ہمارے صاحب نصاب لوگ اسی رمضان سے باعمل ہو جائیں تو قوم کے بے روزگار نوجوانوں کی ایک تعداد کے معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں ؎
یہ نیکی باسعادت ہے: خیرات اعلی عبادت ہے
اسلام کا دیا ہوا زکواۃ کا نظام ایک نہایت اعلی معاشی نظام ہے اور یہ باآسانی قابل عمل بھی ہے بس ذرا دل بڑا کرنا چاہیے۔ آج تک کسی نے اوپر والا اور دینے والے ہاتھ کو غریب اور مفلس ہوتا کسی نے نہیں دیکھا۔ قرآن پاک کے شروع میں ہی اللہ تعالی کا حکم یہ ہے جو کچھ آپ کو دیا گیاہے اس میں سے خرچ کرو بھلے وہ مال و زر کی صورت میں ہو یا علم و اجناس کی صورت میں۔
یہ دنیا کا مسلمہ اصول ہے کوئی بھی چیز اچھی نیت سے ضرورت مندوں پر خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتی اب لاہور شہر کو دیکھ لیں یہاں زیادہ تر ہسپتال غیرمسلموں نے بنائے ہیں اور وہاں پر بغیر کسی رنگ و نسل کے سب کا علاج ہوتا ہے اور ان لوگوں کا نام آج بھی سب کے دل پر نقش ہے ورنہ کئی مالدار دنیا میں آئے اور گم نامی میں چلے گئے اور اب ان کا نام و نشان نہیں ہے۔