Monday, 30 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Chilkon Ka Sardar

Chilkon Ka Sardar

ایک ایسا پھل ہے جس کے چھلکے نے سکھوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے اسے کیلا یا banana کہتے ہیں۔ اسے دیکھتے ہیں سردار جی کو منہ"بنانا" پڑ جاتا ہے۔ کیلے کے چھلکے کا ذکر ہو اور اس سردار جی کا نہ ہو جن کی رنگت سڑک پر پڑے کیلے کے چھلکے کی طرح ہو جاتی ہے اور منہ سے یہ نکلتا ہے لو جی! آج پھر گھسیٹیں لگیں گی۔

سردار جی بچپن سے ہی چھلکے کو دیکھ کر چھلکنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔ دیکھا جائے تو یہ زندگی کیلے کے چھلکے پر ایک پاؤں رکھ کر کھڑے ہونے کا نام ہے۔ سردار جی جب بھی گھر میں بور ہو رہے ہوں وہ گھر والوں سے کہتے ہیں لو جی میں ذرا تازہ دم ہو کر آتا ہوں اور گھر سے باہر نکلتے ہی کسی چھلکے پر پاؤں رکھ دیتے ہیں گویا یہ ان کا comfort zone ہے اور اس "صحت مندانہ خودکشی" کو فریش ہونا قرار دیتے ہیں اس وجہ شاید ان کا سارا سسٹم ریفریش ہو جاتا ہے حالانکہ پیر آنے سے پہلے اچھا خاصا قابل رَشک انسان قابل اَشک ہو جاتا ہے۔

ایک دفعہ کیلے کے چھلکے سے اسی بارے سوال کیا گیا کہ تمہاری سردار جی سے کون سی دشمنی ہے کہ تم ہر دفعہ سردار جی کو ہی اپنے غضب کا نشانہ بناتے ہو۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اس نے بتایا میرے اوپر پاؤں دھرنے والے باقی تمام لوگوں سے چند قدم آگے پائے جاتے ہیں میں تو ایک طرح کا ایکسیلیٹر ہوں سردار جی کا منہ گھر کی طرف ہو تو آدھا راستہ ویسے ہی کافور ہو جاتا ہے۔۔ مگر میں ویسے ہی بدنام ہوں کیونکہ ایک بیکار چیزہوں کسی کے کام تو آ نہیں سکتا بس پاؤں کے نیچے آتا ہوں یا قہوے کی پتی میں۔۔ حالانکہ میرے اندر جو گودا چھپا ہے کبھی اس پر بھی پاؤں رکھ کر دیکھیں۔

میں ایک مزاحیہ کردار کی طرح لوگوں کو تفریح فراہم کرتا ہوں۔ میری پشت پر ایک بیوقوف پاؤں دھرتا ہے اور پھر دس بندے اسے دیکھ کر دتفریح لیتے ہیں۔ آپ ابھی یہیں کچھ دیر انتظار کریں جیسے ہی کوئی سردار میرے اوپر پاؤں رکھے گا پھر آپ دیکھیں گے کہ کیسے سب تماشائی لطف انداز ہوتے ہیں۔ "ٹکٹ لے کے ہم بھی دیکھیں گے ہم دیکھیں گے" میرے اوپر سے پھسل پھسل کر انکی اتنی مشق ہو چکی ہے کہ بڑھاپے میں پھسل کے اور پھر یک دم کھڑے ہو کر یہ گنگناتے ہیں ؎

یہی تو میں حران ہوں
ابھی تو میں جوان ہوں

کیلے سے مزید پوچھا گیا کہ تمہارا تعلق کس خاندان سے ہے اس نے کہا باقی پھلوں کا تو کوئی نہ کوئی خاندان ہوتا ہے جیسے سڑس وغیرہ لیکن یہ کیلا اپنی ذات میں اکیلا ہی ہے میں پھلوں کا راجپوت ہوں بلکہ میں وہ "بنانا" ہوں جن کے نانا دادا سب کیلے ہیں، بھلے وہ بنانا ریپبلک کے ہوں۔۔

ایک بات اہم ہے جو اندر سے نرم ہوتے ہیں الزامات کی زد میں بھی وہی آتے ہیں۔ بہت کم چھلکے ایسے ہیں جو skit پروف ہیں جیسے وقار مجروح کہتا ہے کچھوا اور مگر مچھ واٹر پروف مچھلیاں ہیں وہ کچھ گھنٹے پانی میں رہ کر ڈوبے بغیر واپس کنارے پر لوٹ آتی ہیں۔ میں چونکہ پورا سال ٹھیلے کی زینت بنا رہتا ہوں اس لیے بدنا م ہوں حالانکہ آم خربوزے کینو اور تربوز کے چھلکے سے بھی لوگ "سٹمپ" ہو جاتے ہیں لیکن پیروں کے نیچے سے زمین کا نکلنا اس ناچیز کی وجہ سے ہوتا ہے۔۔

بقول سردار پولید سنگھ وہ ایک دفعہ پولیس بھرتی کا ٹیسٹ دینے گیا تو پولیس والوں نے سب لڑکوں سے کہا کہ مستقبل کے چھلڑو اس کمرے میں آ جاؤ۔ انہی کی برادری کے ایک سائنسدان نے ایک ایسے کیلے کا بیج تیار کرنے کی کوشش کی ہے جس کا چھلکا سرخ ہو اور وہ دور سے اشارے کی طرح نظر آ جائے یا پھر ہر چھلکا وائی فائی کر دیاجائے لیکن بات گودے سے آگے نہ جا سکی ہے چنانچہ پھسل کر گرنے کا دورانیہ ابھی ایک دو سال کے لئے بڑھ گیا ہے۔

امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق جب انسان قہقہہ لگاتا ہے تو وہ جب سب پہلے جس چیز پر نظر کرتا ہے وہ اس کی پسندیدہ ہوتی ہے بلکہ انسان پھبتی کس کے بھی صرف اسی کو دیکھتا ہے جو اس کا ٹارگٹ ہو تی ہے اور سردار جی دونوں حالات میں صرف کیلے کے چھلکے کو ہی دیکھتے ہیں سردار کی بیوی اگر ساتھ ہو تو چھلکے کو دیکھ کر ان کے منہ سے یہ نکلتا ہے؎

پھسلوں گا میں اب شام سویرے

اور پاؤں کو تیرے کوئی موچ نہ آنے دوں گا

پر دھکا میں نہ دوں گا

سردار جی کیلے کے اندر سے دشمن ہیں حالانکہ قصور صرف چھلکے کا جیسے گدھے سے گرنے والا کمہار پر غصہ کرتا ہے۔ وہ اکثر یہ بھی کہتے ہیں"میں کنوں کنوں آکھاں مینوں کینوں کھوا دے"۔ چنانچہ رگڑیں کھا کر ایک منجی پر آرام کرتے ہوئے "منجیت سنگھ" کو دیکھ کر ان کے کسی بزرگ نے نصیحت کی کہ اوہ! "آرام زادے" آج کے بعد تم کیلے سے کنارہ کش ہو جاؤ اب بائیکاٹ کر دو اس کا اور بس آم کھایا کرو اور خریدا بھی اس وقت کرو جب بارش ہو رہی ہو۔ وہ اس بات ایسے پکے ہوئے ہیں کہ بادل دیکھتے ہی ان کے منہ سے پانی کے ساتھ یہ نکلتا ہے لو جی پا جی! آج پھر آم لانے پڑھیں گے۔ اس مجبوری کی وجہ سے کئی دفعہ ا نہیں مار پڑتے پڑتے بچی ہے کیونکہ جب وہ وہ بارش ہوتے ہی دکاندار سے دو کلو آم تولنے کا کہتے ہیں تو وہ ہاتھ میں باٹ لے کر انہیں کاٹنے کو دوڑتا ہے اور ساتھ یہ کہتا ہے کہ اتنے پالے میں تیرے کیڑے پیو دے امب؟ چنانچہ اس پالے کے موسم میں بھی ان کا کسی نہ کسی دکاندار سے پالا پڑا رہتا ہے۔۔

آم ہرگز ایک عام پھل نہیں جو ہر گرج چمک کے ساتھ آپ کو میسر آ جائے لہذا اب سردار جی بارش ہوتے ہی لنگڑے آم کی آئس کریم سے گزارا کرلیتے ہیں۔ بقول عطاء الحق قاسمی "بہرحال لنگڑا آم بھی آموں کی دوڑ میں شامل تو ہے" بلکہ پوری تن دھی سے میراتھن سیزن میں اک یہی تو آخر تک کھڑا نظر آتا ہے۔ آم کا چھلکا بھی پھسلن کے لئے کسی کیلے کے چھلکے سے کم نہیں ہوتا بشرط پیر کسی "عام" سردار کا ہو۔ اگر یہ آم کا چھلکا کسی کمپنی نے بنایا ہو تو اس برانڈڈ چھلکے کے اوپر پر واضح لکھا ہوسکتا ہے اس پر پاؤں رکھنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے سے مشورہ کریں۔ جیسے چہرے کو دھوپ سے بچانے والے مہنگے ترین سن بلاک پر لکھا ہوتا ہے "دوا کو دھوپ سے بچائیں" یقین مانیں جو دواء خود روشنی سے خراب ہو جائے وہ کسی کا رنگ روپ دھوپ سے سیاہ ہونے سے کیسے بچائے گی؟

کئی لوگوں کو بندر کی طرح چھلکے ادھر ادھر پھینکنے کی عادت ہوتی ہے مگر سولر پاور سے چلنے والا بے چارہ سردار اور شاہ سوار ہی اس میدان جنگ میں کیوں سلپ ہوتا ہے؟ ایک سردار جی کے پتا نے اسے کئی دفعہ سمجھایا چھلکے سے اتنا نہ ڈرا کرو بس فاصلہ رکھا کرو۔ انہوں نے مزید واضع کیا کہ پیر اور چھلکے کا فزکس کے لحاظ سے سائنسی تعلق ہے کیونکہ دونوں کے نیچے تین نقطے ہیں حالانکہ ایسی بات ہوتی تو مگر مچھ اور کچھوے کے نیچے بھی ایسے ہی تین ہیں وہ کبھی چھلکے تو کیا پانی سے بھی نہیں پھسلتے۔۔

ایسے ہی ایک سردار جی سڑک پر پر گرے ہوئے تھے ان کا سر پھٹ چکا تھا لوگ ان کی مدد کے لیے ان کے پاس دوڑے آئے اور ان میں بھی زیادہ تر سردار ہی تھے سردار جی نے ماتھے پر خون روکنے کے لئے ہاتھ رکھا ہوا تھا ساتھ کہہ رہے تھے مترو! یہ تربوز کا چھلکا پڑا آپ کو نظر آرہا ہے ان میں سے ایک بولا جی مجھے نظر آ رہا ہے دوسرے سے پوچھا کیا تجھے نظر آرہا ہے؟ اس نے کہا جی جی وہ سامنے پڑا ہے وہاں موجود ایک عورت سے پوچھا کہ آپ کو بھی نظر آرہا ہے؟ اس نے بھی کہا جی سردار جی بڑے اچھے طریقے سے نظر آ رہا ہے پھر سردار جی نے علی الاعلان پوچھا کیا سب کو نظر آ رہا ہے ان میں سے ایک نے یہ بھی کہہ دیا کہ کس"الو" کو نظر نہیں آ رہا؟ سردار جی کہنے لگے "مجھے نظر نہیں آیا" دراصل سردار جی نے کیلے کے چھلکے سے بچتے ہوئے تربوز پر پاؤں دھر دیا تھا۔

اصل بات یہ ہے کہ زبان کے پھسلنے کو کسی کیلے کے چھلکے کی ضرورت نہیں ہوتی حالانکہ وہ اس کام میں چھلکوں کا سردار ہے، اس کا اردگرد کا ماحول بھی اسے پھسلنے کا موقع فراہم کرتا ہے ہماری تیسری دنیا کے راستے میں بڑی طاقتیں کیلے یا دوسرے پھلوں کے چھلکوں کی طرح ہیں اور یہ تیسری دنیا سوچ کے سکھ ہیں جب تک یہ تیسری دنیا انہیں دیکھ کر گھبراتی رہیں گی یہ ترقی کی ہر شاہراہ سے پھسلتے رہیں گے حالانکہ ان کے پاس اپنے بھی کئی قسم کے چھلکے ہیں ہیں جن کی اپنی پھسلن بہت ہے لیکن کمزور۔۔