اسکول کے زمانے میں ماسٹر جی وقار مجروح کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ میرا یہ شاگر بڑا ظالم ہے میں جب بھی اسے ڈنڈے مارتا ہوں تو یہ آگے سے "دفاع" کرتاہے۔ بلاشبہ کمزور کا یا شکنجے میں آئے ہوئے صیاد کا اپنے دفاع کا خیال کرنا بھی جرم تصور کیا جاتا ہے اور زور آور کا کسی برہنہ ہاتھ پر حملہ جراَت مندانہ خیال کیا جاتا ہے لہٰذا وہ اپنے بھرپور حملے کے زور سے کسی کو وقتی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنے نہیں دیتا۔۔
ویسے دفاع کرنا ہر جاندار، مالدار، سردار و ناداراور چوکیدار سب کا جائز حق ہے جہاں دفاع حق سمجھا جاتا ہے وہیں جوابِ حملہ یا کم از کم احتجاج مخالف فریق کے "فرائض " میں شامل ہوتا ہے۔ آج کل احتجاج کرنے کے لئے استعمال میں لائی جانے والی سب سے پہلی اور ضروری چیز ایک ہی ہے اوروہ ہے "ٹائر"۔
یہ ایک ایسی ایجاد ہے جس کی وجہ سے انسان زمین پر تین سو میل فی گھنٹہ سے زائد رفتار سے دوڑنے کے قابل ہوچکا ہے اب تو جیٹ انجن کی وجہ سے کئی ایک نئے ریکارڈ بن چکے ہیں۔ پہلے پہل ٹائربنانے میں ربڑ کی جگہ چمڑہ وغیرہ استعمال ہوتا تھا لیکن 1880ء میں ڈن لوپ نے برطانیہ میں ٹائر ایجاد کرکے طیاروں و آٹو موبائل کو گراں قدر تیزی فراہم کردی ماسوائے ریل گاڑی اور بحری جہاز کے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بندووق اور پٹاخے یا دماغ کی تیز رفتاری کے لئے بھی ٹائر ضروری ہیں حالانکہ یہ بھی اکثر "چل "جاتے ہیں۔ اپنے احتجاج کی آواز کو تیز کرنے کے بھی مظاہرین ٹائروں کا استعمال ہی کرتے ہیں حالانکہ دانشور کہتے ہیں کہ ایک اچھے انسان اور شہری میں کمال کا فرق ہوتا ہے لیکن ہمارا سب سے بہتر ٹائر جنرل کا ہے اور ادنی نیشنل کا۔ ٹائر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اندر اور باہر سے ایک ہوتا ہے بھلے یہ کالا ہی ہوتا ہے لیکن بہروپیا یا دھوکے باز نہیں ہوتا حالانکہ یہ گول ہوتا ہے! یہ بھی ممکن نہیں کہ ٹائر ہر روانی کو تیز کردے مثلاً اگر سانس رک رہی ہو تو پھر "ٹائر" کہاں کام دے سکتا ہے لیکن جب یہ جل رہا ہو تو امن کی سانسیں رک رہی ہوتی ہیں۔ اس بات میں شک نہیں کہ جہاز کے اڑنے میں بھی ٹائر ہی مدد کرتا ہے لیکن کسی حکومت کے ڈسپلن کا رنگ اڑانے کے لیے مظاہرین اسی سے مدد لینے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
اگر کہیں ٹائر جل رہے ہوں تو حکمران بات کو ٹائر کی طرح گول کرجاتے ہیں او رکئی لوگوں سے جیت جاتے ہیں کیونکہ انہیں کئی قسم کے لوگوں کی پہلے ہی" ٹیوبی" حمایت حاصل ہوتی ہے۔ ٹائر کی شریک حیات ظاہر ہے ٹیوب ہوتی ہے جس کی قسمت میں سوائے ہوا خوری کے کچھ نہیں ہوتا حالانکہ سارا وزن اسی کے کاندھوں پر ہوتا ہے۔ آج کل کے معاشرے میں یورپی بودوباش غالب ہے اس لئے ٹائر بھی ٹیوب کے بغیر یعنی Tubless آرہے ہیں جسے آپ Lifeless ٹائر بھی کہہ سکتے ہیں اور جب گاڑی تھک جائے تو یہ ٹائروں پر کھڑی کردی جاتی ہے اور پھرٹائر ہی تا حکم ثانی گاڑی کی ساری اسمبلی کو اٹھائے رکھتے ہیں اس "اسمبلی" کو انجن سے حرکت دی جاتی ہے اور حرکت کو سٹیئرنگ کنٹرل کرتا ہے۔ بالکل گاڑی کی طرح ریاست کا انتظام بھی چلتا ہے۔ اونچے نیچے پتھریلے راستے اور موسمی اثرات صرف اور صرف ٹائر ہی برداشت کرتے ہیں اور فائدہ دوسرے پارٹس اٹھاتے ہیں۔ اس لئے ٹائر بنانے والوں نے اس کا نام بالکل صحیح رکھا ہے۔
ٹائر انگریزی کا وہ لفظ ہے جس کا مطلب ہے تھک جانا۔۔ جو انسان، قوم یا ٹائر تھک جائے تو اس کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔۔ جیسے جو درخت پھل دینا بند کردے کاٹ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جو ٹائر پنکچر ہونا شروع ہوجائے وہ مظاہرین کے ہاتھ لگ جاتاہے اور وہ اس کو دوسرے ٹائروں کے ساتھ "ستی "کر دیتے ہیں۔۔
ٹائر یعنی عوام کے اوپر اسمبلی ہوتی ہے اور اس اسمبلی میں وزراء کا انجن ہوتا ہے اور انجن کوکنٹرول ظاہر ہے انسان کرتا ہے یعنی جو سٹیئرنگ کی بجائے سیٹ پر بیٹھا ہوتاہے اور اسے صرف اس ٹریفک پولیس کا ڈر ہوتا ہے جس نے اپنے وارڈن کھڑے کیے ہوتے ہیں۔ یہاں ایک بات اہم ہے کہ اگر ٹائر "ہی جواب" دے دیں تو انجن کا بھی "سوال" ہی پیدا نہیں ہوتاکہ وہ چل سکے گا یہ کہ نہیں؟
یہ سمجھنے کے لیے کہ اگلا بندہ سمجھدار ہے خود بھی سمجھدار ہونا چاہئے لیکن احمق کو جانچنے کے لیے اس فارمولے کی ہوا کا پریشر مزید بہترکرنا پڑتا ہے۔ یہاں ایک سوال ذہن میں گردش کرتا ہے کہ پہلے ٹائر ایجاد ہوا تھاکہ پنکچر؟ وقار مجروح کے بقول پنکچر پہلے سے موجود تھا اسی لئے تو گاڑیوں کی رفتار پنکچر تھی۔ اچھے شہریوں کے خیال میں کسی سے ٹکر لینا آسان نہیں ہوتا بھلے یہ گینڈا ہی کیوں نہ ہو۔۔
جرمن مفکر فریڈ کہتا ہے کہ کوئی یہ کہے کہ وہاں آزادی کا راج ہے تو وہ جھوٹ بولتاہے کیونکہ آزادی راج نہیں کیا کرتی۔۔ لہٰذا وہ ٹائر ہی کیا جو آزادی سے سڑکوں پرگھوم نہ سکے۔ جیسا کہ پیچھے عرض کیا گیا مظاہرین اپنے مظاہرے کی رفتار کو بڑھانے کے لیے ٹائر کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر کسی جگہ صرف ایک ٹائر "آن " ہو تو وہ بھی کافی ہوتا ہے۔ خیال یہ رہے کہ اس میں افیم نہ بھری ہو۔۔ لکیر کے فقیر کو صرف لکیر سے غرض ہوتی ہے نہ کہ اس کی لمبائی چوڑائی سے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر ٹائر جل رہے ہوں تو دوسری طرف آنسو گیس کا چلنا بھی بعید از قیاس نہیں ہوتا یہ دونوں ہی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ٹائر پارٹی (دھواں گروپ) والوں کو چاہئے کہ وہ صرف ٹائر ہی جلایا کریں ساتھ گاڑی کی اسمبلی اور انجن جلانے کی کوشش نہ کریں ورنہ آنسو گیس والے انہیں سیلف مار یں گے اور آنسو بھی نکلنے نہیں دیں گے۔۔
اے ٹائر جلانے والو! جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا کہ عوام ہی ملک اور قوم کے ٹائر ہوتے ہیں لہٰذا اپنے آپ کو مت جلائیں یقین کیجئے یہ وقت نہیں ہے ہ میں ہر طرف سے گھیرنے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ چائنا مال کی وجہ سے ہماری انڈسٹری بند ہونے کو ہے اور اسے چائنا ہی کے تالے لگنے والے ہیں۔ کم از کم ایسی خود سوزی کرکے اپنے آپ کو ایک پرانا ٹائر ثابت نہ کیجئے! ورنہ چھوٹے ٹائر سے بڑے ٹائر بھی جل سکتے ہیں۔۔ کہیں یہ نہ ہو کہ آپ خود یہ محسوس کریں کہ "اب اس کا خاتمہ نہیں ہے اور نہ ہی خاتمے کا آغاز ہے لیکن شاید یہ آغاز ہی کا خاتمہ ہے"۔
کئی لوگ خود سوزی کرکے حکومت کے ٹائر ٹیوب "مکانے" کے چکر میں ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں دھواں ایسے چھوڑنا چاہئے کہ وہ کم از کم کچھ عرصے ک اپنی سیاہی پیچھے چھوڑ دے جیسے دانشور اپنی تحریراور تقریرکے ٹائر جلاتے ہیں اور میڈیا اپنی خبروں کے ٹائر جلا کر پرامن احتجاج کرتے ہیں۔ آلودگی اور شر پسندی کا دھواں کوئی بھی برداشت نہیں کرتا۔ ویسے بھی احتجاج کا دھواں ان آنکھوں میں خرابی پیدا کرتا ہے جو کھلی ہوں۔۔