مقام ابراہیمؑ کعبہ شریف کے دروازے کے سامنے تقریباً تینتیس فٹ کے فاصلے پر جلوہ افروز ہے یہ عجیب و غریب برکات کا حامل پتھر کا ٹکڑا ہے جو کہ حضرت آدمؑ جنت سے حجر اسود کے ساتھ اپنے ساتھ لائے تھے۔ ترمذی شریف میں سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ حجر اسود اور حجرِ مقام ابراہیمؑ جنت کے یاقوتوں سے دو یاقوت ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی روشنی کو بند کردیا ہے ورنہ یہ مشرق سے مغرب تک ہر اک چیز کو منور کر دیتے۔ بعض روایات کے مطابق سارا کعبہ ہی مقام ابراہیمؑ کہلاتا ہے۔
سیدنا ابراہیمؑ جب کعبہ تعمیر فرما رہے تھے تو یہ پتھر اللہ کے حکم سے خود بخود اُوپر نیچے ہوتا اور آگے بڑھتا اور تعمیر کعبہ میں مکمل معاون ثابت ہوتا۔ جب خلیلؑ اللہ اس پر قدم رکھتے تو یہ قالین کی طرح نرم ہو جاتا اسی وجہ سے اس نے پائے خلیلؑ اللہ کو ابھی تک سینے پر سجا رکھا ہے۔ آپؑ کے پاؤں اسی پتھر پر تھے جب آپ کی بہونے آپؑ کا سر دھویا اور بالوں سے گرد صاف کی چنانچہ آپؑ حضرت اسماعیلؑ سے ملاقات کرنے مکہ تشریف لے گئے۔ سیدنا عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اور امیر المومنین سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں یہ کعبہ سے متصل تھا مگر حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کے دور میں اسے موجودہ جگہ نصب فرمایا گیا۔
روایت ہے کہ جس جگہ اب مقام ابراہیمؑ نصب ہے یہاں آپؑ کی جھونپڑی تھی جب آپؑ کام سے فارغ ہوتے تو یہ پتھر واپس اپنی جھونپڑی میں رکھ لیتے۔ لیکن آپؑ کے بعد اسے کعبہ شریف کے متصل نصب کر دیا گیا۔ ایک اور روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر اسے یہاں نصب کیا گیا۔ مقام ابراہیمؑ پر حضرتِ خلیلؑ اللہ کے دونوں قدموں کے نشان ٹخنوں تک کی گہرائی میں موجود ہیں۔ ابتدا میں یہ پتھر کھلا رکھا ملتا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور 17ہجری میں ایک دفعہ شدید سیلاب آیا تو مقام ابراہیمؑ اس میں بہہ کر نشیبی علاقے میں چلا گیا اور بڑی مشکل سے تلاش کرکے اور پھر اسے دوبارہ پیمائش کرکے اصل جگہ نصب کیا گیا۔ مطب بن وداعہ کے مطابق جس رسی سے اس کے اصل مقام کی پیمائش کی گئی وہ رسی ایک عرصہ تک تبرکاََ ان کے خاندان میں موجود رہی۔
مقام ابراہیمؑ پر سب سے پہلے جنگلہ یا شو کیس کس نے بنایا کسی روایت سے ثابت نہیں ہے۔ قرین القیاس یہی ہے جب مسلمان کثیر تعداد میں حرم شریف میں آنے لگے تو اس مقدس مقام کی زیارت اور اس کو چھونے کے باعث اس کی بناوٹ میں تبدیلی آنے لگی جس کے پیش نظر اس کو محفوظ کرنا ضروری سمجھا گیا جو کہ ابتدا میں کھلا رہتا تھا۔
قرآن کریم میں کئی جگہ اس کا مبارک ذکر آیا ہے۔ چنانچہ سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور ﷺ نے کعبہ شریف کا طواف کیا اور پھر مقام ابراہیمؑ کے پاس تشریف لائے تو حضرت عمر فاروقؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ کیا یہی ہمارے باپ حضرت ابراہیمؑ کا مقام ہے۔ جس کے بارے میں فرمان نبی ہے: واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی۔ ارشاد ہوا یہی وہ مقام ابراہیم ہے جسے نماز کی جگہ بنانے کا حکم ملا ہے۔ جب امام الانبیاء مکہ مکرمہ میں جلوہ افروز ہوئے تو آپ نے بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔ سات چکر پورے کر لینے کے بعد مقام ابراہیمؑ کے پیچھے کھڑے ہو کر طواف کی دو رکعات ادا فرمائیں۔
ابو نعیم نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ حضرت عمرؓ کا ہاتھ پکڑ کر مقام ابراہیم کے پاس لے گئے اور فرمایا کہ یہ مقام ابراہیمؑ ہے حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ کیوں نہ ہم اسے نماز کی جگہ مقرر کر لیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہمیں ابھی تک اس بات کا حکم نہیں دیا گیا ہے لیکن اس دن سورج غروب ہونے سے پہلے آیت مبارکہ نازل ہوگئی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ جب طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کر اس آیت پاک کی تلاوت فرمائی واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی۔ پھر آپ اس طرح کھڑے ہوئے کہ مقام ابراہیمؑ آپ ﷺ کے اور کعبہ شریف کے درمیان تھا اور آپ ﷺ نے طواف کے دو نفل ادا فرمائے بعد ازاں حجر اسود کا استلام کیا۔ آپ ﷺ کا یہ استلام سعی کے لیے تھا جس طرح بیت اللہ شریف کا طواف حجر اسود سے شروع ہوتا ہے اسی طرح سعی سے پہلے بھی حجر اسود کا استلام ضروری ہے۔
تاریخ میں درج ہے کہ مقام ابراہیمؑ کی جسامت صرف ایک ہاتھ یعنی اٹھارہ انچ ہے جو مربع شکل میں ہے اس کے نیچے اور اُوپر دو طوق ہیں۔ سونے کا طوق خلیفہ متوکل علی اللہ نے چڑھایا تھا قدم اندر دھنسے ہوئے اور ترچھے ہیں۔ جن کی گہرائی سات انگل کے قریب ہے اور دونوں قدموں کے درمیان دو انگل فاصلہ ہے۔ بیچ کا حصہ لوگوں کے چھونے سے گھس گیا ہے۔ یہ مقدس پتھر ساگوان کی مرابع شکل لکڑی پر رکھا ہوا ہے اور اس کے اُوپر ایک ساگوان کا صندوق ہے جس کے نیچے دو زنجیریں لگی ہوئی ہیں اور ان میں دو تالے ڈال دیے گئے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق مقام ابراہیم پر بھی ایک کپڑا موجود ہوا کرتا تھا جو برقعے کی مانند ہوتا اور ہر سال غلاف کعبہ کے ساتھ ہی بنایا جاتا تھا۔ خلیفہ مہدی عباسی 160ھ میں جب حج بیت اللہ کرنے آیا تو اس نے اور اس کے اہل خانہ نے مقام ابراہیمؑ میں آبِ زم زم ڈال کر نوش کیا اسے عقیدت سے چوما اور اس پر ہاتھ پھیرا۔
مقام ابراہیم کا رنگ زردی اور سرخی کے درمیان ہے مگر اس پر سفیدی زیادہ غالب ہے اور وزن میں کم ہے لہذا کمزور سے کمزور انسان بھی اسے اُٹھا سکتا ہے۔
اس پتھر کی بلندی آٹھ انچ ہے اور تمام پتھر کا محیط ایک سو چھیالیس سینٹی میٹر ہے۔ اس پر پاؤں کے نشان تقریباََ چار انچ گہرے ہیں۔ انگلیوں کے نشان لوگوں کے چھونے سے ہزاروں سال پہلے ہی مٹ چکے ہیں جو آج کل نظر نہیں آتے۔ البتہ ایڑیوں کے نشان غور سے دیکھنے سے محسوس ہوتے ہیں اور دونوں قدموں کے درمیان فاصلہ بھی ماند پڑ چکا ہے۔
اگرچہ قدم شریف کے نشانات کو چار ہزار سال کا عرصہ ہو چکا ہے مگر پھر بھی اس کے واضع نشانات ابھی باقی ہیں۔ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ میں نے خود ان مبارک پاؤں کی انگلیوں اور تلوے کے نشان کا دیدار کیا ہے۔ پھر لوگوں کے بکثرت چھونے سے وہ نشان ماند پڑ گئے۔ قبل ازیں یہ پتھر حج کے مہینوں میں خانہ کعبہ کے اندر رکھ دیا گیا تھا تاکہ زائرین کو طواف کے معاملے میں مشکلات نہ ہوں۔ لیکن سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے دست حق سے جہاں اس کو نصب فرمایا تھا اسی جگہ آج بھی محفوظ ہے اور انشاء اللہ قیامت تک رہے گا۔ روایات میں ہے کہ ایک دفعہ والئی بحرین اس کو زبردستی اٹھا کر لے گیا تھا اور تقریباََ تیئس سال بعد اس سے واپس لے کر اپنی جگہ پر نصب کیا گیا۔
قرآن فرماتا ہے جہاں جہاں حضرت ابراہیمؑ دعا کے لیے کھڑے ہوتے تھے تم بھی وہاں اللہ کریم سے گریہ و زاری کرکے دعا مانگو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ فنا فی اللہ ہونے والے مقربین کو انعامات سے نوازتا ہے اور یہ اس کی کبریائی کی ایک جھلک ہے۔ جہاں حضرت ابراہیمؑ کے قدموں کے نشان ہیں وہاں حضور ﷺ نے بھی نماز پڑھی اور ہمیں بھی اس کا حکم فرمایا اس سے یہ درس بھی ملتا ہے کہ جہاں رحمت اللعالمین اور شاہِ انبیاء ﷺ بنفس نفیس تشریف فرما ہیں اس مقام کو کیا مرتبہ حاصل ہے۔ اسے اللہ اور اس کے حبیب ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔