یہ میرے بچپنے کی بات ہے جب میں آٹھ یا نو سال کا ہوں گا ان دنوں میرے دادا کے پاس ایک نہایت وجیہہ خوبصورت جاذبِ نظر اور درویش صفت شخص اکثر سفید کپڑوں اور صاف ستھرے جوتے پہنے آیا کرتے تھے، باقاعدگی سے کلائی پر گھڑی اور سر پر سفید ٹوپی ہوتی اور بڑ ے اعتماد کے ساتھ تشریف فرما ہوتے۔ میرے دادا اور چچا کے ساتھ اکثر علمی باتیں کیا کرتے تھے جو کم از کم میری سمجھ سے بالا ہوتیں۔
1976ء میں میرے دادا سلطان احمد حسن صابری کی وفات ہوئی تو وہ میرے چچا پروفیسر نذیر احمد صابر کے پاس آنا شروع ہوئے۔ اس وقت مجھے پتہ چلا کہ یہ پروفیسر ڈاکٹر الف۔ د۔ نسیم ہیں اور ہمارے غریب خانے سے چند گلیاں چھوڑ کر ہی رہتے ہیں۔ دریں اثناء مجھے شوق ہوا کہ اب میں بھی ان کے پاس بیٹھ کر ان کی باتیں اور واقعات سنا کروں لیکن وہ گہری علمی اور معرفت کی باتیں ایک عرصہ بعد میری سمجھ آنا شروع ہوئیں یعنی ایک دفعہ یہ موضوع زیر بحث تھا کہ جس شئے کا نام ہوتا ہے اس کا وجود بھی ہوتا ہے چنانچہ میں اس دوران ان کے پاس بیٹھا رہتا اپنی انگلیوں اور کپڑوں سے کھیلتا رہتا اور کبھی نظر بچا کر ان کی طرف دیکھتا بھی رہتا۔ اگر اس وقت کسی چیز کی انہیں ضرورت ہوتی یا کسی کا کوئی اور حکم صادر ہوتا تواس کی تعمیل بھی کرتا۔
1996ء میں پہلی دفعہ میں ڈاکٹر صاحب کے گھر واقع حالی روڈ ساہیوال گیا اس وقت انہیں ریٹائرڈ ہوئے چند سال گزر چکے تھے اور وہ صادق پبلک اسکول بہاولپور میں درس و تدریس کی کچھ ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد اسے چھوڑ کر مستقل ساہیوال اپنے گھر قیام پذیر ہو چکے تھے۔ وہاں اسکول کے ایک شاگرد علی محمد مہر مرحوم نے سیاست میں داخل ہو کر نام بھی کمایا تھا اور وہ وزیر اعلی سندھ کے مرتبے پر فائز بھی رہے۔
اصل نام اللہ دتہ نسیم المعروف ڈاکٹر الف۔ د۔ نسیم کے گھر پر پہلی ملاقات کے دوران ہی انہوں نے اپنے متعلق کافی کچھ بتا دیا اور فرما دیا کہ میں نے علامہ محمد اقبال علیہ رحمت کے ایک ایک شعر کا ترجمہ و تشریح کر دی ہے اور یہ اب کتابی صورت میں چھپنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے مجھے کچھ کتابیں شاعری اور نعت کی بھی دکھائیں۔
پہلی دفعہ میں ان کی خدمت میں صبح گیارہ بجے کے قریب حاضر ہوا اور گھر کی بیل دی وہ خود ہی آہستہ آہستہ چل کر دروازے پر آئے اور مجھے دیکھ کر تبسم فرمایا اور ساتھ ہی کہا ٹھہرو میں بیٹھک کھولتا ہوں۔ کچھ ہمارے خاندان اور ان سے اپنا پرانا تعلق بتانے کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ آپ شام کے قریب چار ساڑھے چار پانچ بجے میرے پاس آجایا کرو اس وقت کچھ اور بھی لوگ آتے ہیں جن میں ممتاز شاعر علی رضا نعت خواں محمد انور وغیرہ بھی تشریف لاتے ہیں اور مختلف قسم کی اسرار و رموز کی باتیں ہوتی ہیں۔
بہرحال میں ان کے پاس کہے ہوئے وقت کے مطابق ان کی بیٹھک میں جانا شروع ہوا تو وہاں معاشرے کے مختلف مکاتب فکرکے لوگ ان کے پاس فیض پانے آتے اور مختلف موضوعات پر بحث ہوتی۔ میں نے ان کی شخصیت میں ایک بھرپور مومن کی صورت دیکھی اور اس میں عشق رسول کوٹ کوٹ کر بھرا دیکھا۔ اولیاء کرام، دینی احکام سے محبت اور اس کا چرچا ہر وقت ان کی زبان سے جاری و ساری دیکھا۔ اکثر فرماتے کہ میں خواجہ محمد دیوان چشتی صابری جو کہ ہوشیار پور کے ایک نو مسلم بزرگ تھے کا مرید ہوں اور یہ مرید اس وقت ہی ہو گئے تھے جب وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے کیونکہ ان کی والدہ پہلے ہی سے ان کی مرید تھیں یعنی آپ بچپن ہی سے سلسلہ چشتیہ صابریہ میں داخل ہوگئے تھے۔
آپ ککے زئی پٹھان تھے اور اپنے خاندان کے بارے میں اکثر واقعات سناتے رہتے تھے چونکہ بچپن ہوشیار پور میں گزرا اس لیے اس کا بھی ذکر اکثر ہوتا رہتاتھا۔ بڑے ہی وضع دار شخص تھے اور ہمیشہ یہ تلقین کرتے تھے کہ دوستوں کے ساتھ کبھی معاملات یا کوئی اُدھار لین دین اور کسی قسم کا سودا نہ کیا کرو کیونکہ اس سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر الف۔ د۔ نسیم مرحوم و مغفور کی پیدائش 30 نومبر 2018ء بمقام ہوشیار پور انڈیا میں ہوئی جسے وہ اکثر یا دکیا کرتے تھے اور اپنے جنم بھومی کا ذکر دوستوں سے کیا کرتے، فرماتے ہیں
فصل بہاری میں مجھے رکھو جکڑ کے
موج پر آجاؤں میں زنجیر تو کھڑکے
کیوں طعنہَ غربت ہمیں دیتے ہیں عزیزاں
ہم بھی تو کسی دیس سے آئے ہیں اُجڑ کے
آپ کے والد کا نام شیر محمد تھا اور فرماتے کہ میں نے 1935ء میں میٹرک جبکہ1937ء میں ایف اے کیا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ محکمہ ٹیلی گراف میں ملازمت بھی کی۔ اسی دوران منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔ بعد ازاں تعلیم کے سلسلہ کا دوبارہ آغاز ہوا اور 1947ء کے آغاز میں بی اے کا امتحان دیا اور اسی دوران پاکستان بن گیا اور فسادات شروع ہو گئے اما بعد جب رزلٹ آیا تو میں اس میں اچھے نمبروں سے پاس ہوا۔
1948ء میں ایم اے اردو کی پہلی کلاس پنجاب یونیورسٹی میں شروع ہوئی تو اس میں ڈاکٹر صاحب نے فوری داخلہ لے لیا اور ان کے مطابق اس وقت ان کی کلاس 150 طلباء پر مشتمل تھی جن میں سے آپ نے گولڈ میڈل بھی حاصل کیا اور دو سو روپے نقد انعام کے حق دار بھی قرار پائے۔ اسی بنا پر 1950ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی میں درس تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا اور یہ تقریبا دو سال تک جاری رہا 6 اکتوبر 1952ء کو ٹرانسفر ہو کر ساہیوال آ گئے اور پھر گورنمنٹ کالج ساہیوال میں درس و تدریس کے ایک عظیم سلسلے کا آغاز کر دیا۔
علم کی پیاس مزید بجھانے کے لئے ڈاکٹر صاحب نے اللہ کا نام لے کر شمس العماء کا خطاب حاصل کرنے کی ٹھانی۔ 1956ء سے 1959ء تک آپ نے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر فرمایا۔ جب یہ مقالہ پروفیسر ڈاکٹر سید عبداللہ کے پاس آیا تو ان کے یہ الفاظ تھے کہ "جس نے بھی یہ مقالہ لکھا ہے تو مجھے یقین ہے اس کی کمر ٹوٹ گئی ہوگی" کیونکہ وہ مقالہ نہایت جامع اور ریفرنس سے بھرپور اور علم و ہنر کی اعلیٰ مثال تھا۔ آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ وہ پاکستان میں اُردو کے پہلے یا دوسرے پی ایچ ڈی تھے۔
معاشرے کے مختلف لوگ جن میں اسٹوڈنٹس پروفیسرز اور عام مزدور کسان بھی شامل تھے تقریبا سارا دن ان کے پاس آیا کرتے تھے اور ان سے انہیں کے درجے کے مطابق باتیں ہوتی تھیں پھر آخر میں وہ پندرہ یا بیس منٹ کے لیے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے تھے جو بڑا علمی جذباتی اور پر تقصیر ہوتا تھا کیونکہ بڑے بدیع الاسلوب تھے اورگفتگو میں جس موضوع پر بات چل رہی ہوتی ویسے ہی اس کے ریفرنس سے دیتے اور یہ گفتگو بڑی عام فہم ہوتی اور ہر کسی کو باآسانی سمجھ آ جاتی۔
ایک روز ضرورت محسوس کرتے ہوئے میں نے چند گھریلو استعمال کی چیزیں ان کے لئے لے گیا تو انہوں نے اسی وقت کاغذ لے کر ایک نظم جو پندرہ سے زائد اشعار پر مشتمل تھی مجھے ارسال کر دی جن میں ان تمام اشیاء کا ذکر تھا۔ یہاں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ کسی کا ادھار نہیں رکھتے تھے۔
ایک دفعہ میں نے چند اشعار لکھ کر پیش کیے جو کچھ یوں تھے;242; ہر چمکتی چیز کی ہم بندگی کرتے نہیں
مر تو ہم جاتے ہیں لیکن خودکشی کرتے نہیں
خشک آنکھیں تر نہیں کرتے فراق و ہجر میں
ہم محبت میں ریاکاری کبھی کرتے نہیں
فرمانے لگے کبھی شعر یا تحریر میں اپنی شخصیت کو گراتے نہیں ہیں اور اپنے آپ کو زیادہ مجبور اور بے کس بھی ظاہر نہ کرنا یہ کہہ کر انہوں نے دوسرے مصرعے مر تو ہم جاتے ہیں کو مرتے تو جاتے ہیں میں بھی بدل دیا۔ ایک دفعہ اپنا یہ شعر سنایا تو مذاق میں کہنے لگے تم نے تو آج اپنا بڑا نقصان کروا آئے ہو شعر یہ تھا
وہ ہم کو دیکھ کر بڑے حیران ہو گئے
جن کے لئے تھے چاک گریبان ہو گئے
ایک دفعہ میں نے اپنا فکاہیہ مضمون "نادان دامادِ ایشیاء" آپ کی خدمت میں پیش کیا تو کہنے لگے پڑھ کر سناوَ۔ میں نے چند سطریں سنائیں تو ایک دم قہقہ لگایا۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا سر! کوئی بات یاد آئی تو کہنے لگے نہیں اس جملہ پر ہنسا ہوں اور جب میں نے یہ بتایا کہ مضمون کے عنوان میں جو تینوں حروف ہیں اگر ان کو الٹا بھی دیا جائے تو وہ وہی رہتے ہیں تو مزید تبسم فرمایا۔ وقتاً فوقتاً ان کی اس متبسمی تعریف نے میرے اندرکے لکھاری کو جلا بخشی۔
ڈاکٹر صاحب کا پانچ مرلے پر مشتمل سنگل سٹوری کرایہ کا گھر جو کہ گول چکر مسجد کے قریب تھا صرف دو افراد ہی رہتے تھے (یہ گھر ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے سعودی عرب میں مقیم بیٹے شاہد طیب نسیم نے خریدلیا تھا) وہاں پر ان کی نہایت وفا شعار بیوی شام کے وقت وہاں پر موجود جتنے بھی لوگ موجودہوتے ان کے لیے چائے کا انتظام کرتیں۔ میں نے تقریباً ان کے ساتھ پانچ چھ سال کا آخری اور بابرکت وقت گزارا جو کہ شاید ہی کسی نے گزارا ہو۔ وہ مجھ سے ہر قسم کی رازونیاز کی باتیں بھی کر لیتے تھے کیونکہ آپ جناب مجھ سے خصوصی محبت بھی رکھتے تھے اور اس کے پیچھے صرف میرا مذہبی و خاندانی تعلق و انس تھا۔
اگر میں کسی دن ان کی خدمت میں نہ جاتا تو ان کا ٹیلی فون آ جاتا اور وہ پوچھتے کہ طبیعت ٹھیک ہے۔ آپ اپنی زوجہ کے ہمراہ کئی دفعہ میرے غریب خانے پر بھی تشریف لائے اور دعاؤں سے نوازا۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے جی پی فنڈ کو سود سے پاک کرنے کی درخواست دے دی۔ فرماتے ہیں اس کے اگلے ہی سال مجھے انعام کے طور پر کئی عمرے اور حج کی سعادت نصیب ہوگئی جس کا وسیلہ بظاہر شاہد نسیم بنے۔ جدہ ائرپورٹ سے باہر نکلتے ہی ہر طرف "بیبسی" لکھا پایا تو سوال پیدا ہوا کہ سعودی عرب والوں کو کون سی بے بسی آن پڑی ہے بعد میں بیٹے نے بتایا کہ یہ پیپسی لکھا ہے۔
ان کے بیٹے حسن جاوید جو کہ چیچہ وطنی کے گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے ذرا سی طبیعت خراب ہونے پر وصال فرما گئے۔ میں نے اس واقعہ کے بعد ان کی صحت کو خرابی کی طرف ہی جاتے ہی دیکھا۔
ایک دفعہ فرمایا کہ میں نے اپنی جوانی کے ساتھ ادھیڑعمری بھی ساہیوال کو دے دی ہے اور بڑھاپے کو اپنا ساتھی بنا کر گوشہ نشینی اختیار کر لی ہے اور میں اپنی بقیہ زندگی کے دن بھی یہیں گزار رہا ہوں لیکن ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ میری اور میری بیوی کی قبر ساہیوال میں نہیں بنے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ دونوں میاں بیوی لاہور میں میانی صاحب میں سپرد خاک ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک شعر
ناز سے چلنے والو دیکھو مٹی میں وہ سوتے ہیں
گال تھے جن کے لال گلابی دانت تھے جن کے دُردانے
ایک دن اداس بیٹھے دکھائی دیے اور فرمایا میں نے اپنی ساری زندگی ساہیوال میں گزاردی ہے لیکن اب پتا نہیں میری مٹی کہاں ہے۔ پھر ایک دن فرمانے لگے کہ ہم دونوں میاں بیوی کی قبریں لاہور میں بنیں گی جو اس وقت ناممکن سی بات لگی اور یہ آپ کے وصال فرمانے سے دو سال پہلے کی بات ہے۔ بالآخر بیمار ہوئے تو آپ کو لاہور لے جایا گیا جہاں بیٹی کے گھر واقعہ علامہ اقبال ٹاوَن میں وفات پائی۔ آپ کی وفات کے پانچ ماہ پانچ دن بعد آپ کی بیوی بھی رحلت فرما گئیں۔
آپ کے چار بیٹے حسن جاوید نسیم، پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید، طاہر نسیم، شاہد طیب نسیم دو بیٹیاں جن کا ذکر اکثر کرتے اور شفقت و محبتِ پدری آنکھوں سے ظاہر ہوتی۔ پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید بذات خود ادبی قد کاٹھ کی حامل ایک ممتاز شخصیت ہیں اور کوئی ادبی محفل ان کے بغیر نامکمل محسوس ہوا کرتی ہے ترکی کی ایک معروف یونیورسٹی میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں اور آج کل جی سی یونیورسٹی لاہور میں اپنی علمی ادبی ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں اور ان کی بے شمار کتابیں بھی شاءع ہو چکی ہیں۔
ادب کی بے پناہ خدمت کے باوجودکسی حکومت یا تنظیم نے انعام یا اعزاز دینے کا آج تک کوئی بندوبست نہیں کیا حتی کہ کوئی شاہراہ بھی ان کے نام نہیں کی۔ آپ شروع شروع میں مشاعروں میں شرکت کے لئے جاتے تھے لیکن بعد میں شاعروں کے رویہ کی وجہ سے معذرت کر لی تھی۔ میں نے ساہیوال میں دو مشاعرے کروائے تھے ان دونوں میں وہ شریک ہوئے تھے۔ ایک دفعہ معروف اینکر اور مزاح نگار گل نوخیز اختر ساہیوال تشریف لائے تو میں انہیں بھی ان سے ملانے لے گیاتھا۔
ان کی کتابیں نسیم طیبہ، نسیم رحمت، نور مجسم نعتیہ مجموعے، علامہ محمد اقبال کے تمام اشعار کی شرح (یہ علامہ سے ان کے بے پناہ روحانی لگاوَ کی عکاسی کرتا ہے) حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کا پیغام مسلمانوں (خصوصا اہل دیوبند) کے نام، شاعری کا مذہبی و فلسفیانہ عنصر دکنی دور جدید عہد تک، دہلی بارہویں صدی عیسوی کا شاعرانہ ماحول جو انہوں نے اپنی وجدانی کیفیت میں ڈوب کر لکھا تھ۔ آپ کی زندگی میں ہی آپ کی شخصیت پر ایک مقالہ بھی لکھا گیا لیکن اس سلسلے میں 2002 کے بعد کوئی مزید معلومات مجھ تک پہنچ نہ سکیں۔ اگر کوشش کی جائے توآپ کی روحانی شخصیت کے بارے میں ایک مکمل کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ آخر میں آپ کے چندنعتیہ اور غزل کے اشعار
شوق میں تیرے نعرہ زن بزمِ جہانِ چار سو
عشق میں تیرے دم بخود خلوتیانِ دہشتِ ہو
سینہ کائنات میں جتنے پڑے ہوئے تھے چاک
سو زنِ فکر چارہ ساز نے تیری کر دیے ر فو
کبھی طالب بھی مطلوب سے جدا ہوتا ہے
جہاں رسول خداکا ہو خدا ہوتا ہے۔
غربت کی بات ہے نا امارت کی بات ہے
دیدارِ طیبہ ان کی عنایت کی بات ہے
کرنا ہے کس طرح سے مدینے کا احترام
اپنے اپنے حسنِ عقیدت کی بات ہے