Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Iran Israel Tanaza, Agla Marhala Kya Hoga?

Iran Israel Tanaza, Agla Marhala Kya Hoga?

آج کا کالم لکھنے سے پہلے واٹس ایپ چیٹ پرانڈین امورپر اتھارٹی اور ہمارے ساتھ کالم نگار محترم افتخار گیلانی صاحب سے ڈسکشن چلتی رہی۔ گیلانی صاحب میرے لئے بھائیوں کی طرح محترم ہیں، ان کی تحریریں میں ہمیشہ بڑی دلچسپی سے پڑھتا ہوں، بھارتی سیاست اور پاور پالیٹکس کی اِن سائیڈ سمجھنے کے لئے جناب افتخار گیلانی کے کالموں سے بڑھ کر معاونت کسی اور چیز سے نہیں ملی۔

افتخار گیلانی صاحب نے گفتگو میں ایک اہم نکتہ اٹھایا کہ جس طرح 1973کی جنگ رمضان (یوم کِپور)میں مصری، شامی مشترکہ افواج نے حملہ کرکے اسرائیل کو سرپرائز دیا اور اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا امیج پاش پاش کیا تھا، بالکل اسی طور ایرانی میزائل حملے نے اسرائیل کے حال میں ناقابل تسخیر اور مضبوط ترین دفاع کا حامل ہونے کا امیج متاثر کیا ہے۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ امریکہ بھی تب یہی چاہتا تھا کہ اسرائیل پر حملہ ہوتاکہ اس کا طنطنہ کم ہو اور وہ عملیت پسندی پر مائل ہو۔ کیا آج بھی امریکی یہی چاہ رہے تھے؟

یہ اہم نکتہ ہے، اس بات پر غور کرنا چاہیے۔ ایران کے ڈرونز اور میزائلوں نے اسرائیل کو اس وقت نقصان پہنچایا ہوا یا نہ ہو، یہ بہرحال بتا دیا ہے کہ وہ دوبارہ بھی ایسا حملہ کر سکتا ہے اور اسرائیل ایسے حملے کو روکنے کے لئے امریکہ اور یورپی اتحادیوں کا محتاج ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اردن کی مدد کے بغیر اسرائیل اپنے آئرن ڈوم اور ایروایریل ڈیفنس سسٹم سے تمام ڈرون اور میزائل تباہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ یہ اندازہ ہوگیا کہ اگر اتنے بڑے پیمانے پر کہیں سے یہ میزائل پھینکے جائیں تو ان میں سے کچھ (دس پندرہ فیصد)یقینی طور پر اسرائیلی علاقوں پر گر کر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ جو لوگ ایرانی حملے کا تمسخر اڑا رہے ہیں، انہیں اس نکتہ کو زیرغور لانا چاہیے۔

ایرانی حملے نے اسرائیل کے ناقابل شکست، ناقابل تسخیر اور سب سے بہتر ٹیکنالوجی رکھنے کا زعم ضرور متاثر کیا ہے۔ اسرائیلی فیصلہ سازوں کو یہ بھی اندازہ ہوا ہوگا کہ وہ کس پانی میں ہیں اور انہیں امریکی اور یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ہی چلنا پڑے گا۔ یہ اس لئے اہم ہے کہ اسرائیل پچھلے کچھ عرصے سے غزہ کے علاقہ رفاہ پر حملے کا اعلان کر رہا تھا، امریکی اسے ایسا کرنے سے روک رہے ہیں کیونکہ اگر اسرائیل نے رفاہ پر بڑا حملہ کیا تو بہت زیادہ جانی نقصان ہوسکتا ہے، اس لئے کہ غزہ کا نصف سے زیادہ علاقہ تو تباہ ہوچکا اور دس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو کر رفاہ میں مقیم ہیں۔ یہ وہی رفاہ ہے جہاں سے رفاہ کراسنگ کے ذریعے غزہ سے مصر جایا جا سکتا ہے۔ اس وقت جو بھی مالی مدد غزہ بھیجی جا رہی ہے، وہ سب مصر سے رفاہ کراسنگ کے رستے ہی جا رہی۔ امریکی دبائو کے باوجود اسرائیلی اپنے منصوبے سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ البتہ اب ایران کے ساتھ تنازع نے اسرائیل کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے اوران کا وزیراعظم نتن یاہوغزہ کے علاقہ رفاہ پر حملے کے بجائے اپنی تمام تر توجہ ایران کے جانب مبذول کرنے پر مجبور ہوگیا۔

سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا، اس پر بات کرنے سے پہلے مختصراً یوم کپور جنگ پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ نصف صدی پہلے کا واقعہ ہے، یوم کپور یہودی، اسرائیلیوں کے نزدیک ایک مقدس دن، مذہبی تہوار ہے۔ اس سال یوم کِپور دس رمضان (چھ اکتوبر) کو آ رہا تھا۔ اسی دن جب مصری اور شامی افواج نے مشترکہ پلان کے طور پر اسرائیل پر اچانک حملہ کر دیا، کئی عرب ممالک بشمول سعودی عرب پوری طرح سے عرب افواج کے ساتھ تھے۔ مصر نے سوئز کینال عبور کرکے سیناپینی سولا پر حملہ کیا جبکہ شام نے گولان کی پہاڑیوں پر پیش قدمی کی۔ یاد رہے کہ 1967کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے اسی مصری علاقہ اور گولان یاجولان پہاڑیوں پر قبضہ کیا تھا۔ اس حملے کو اسرائیل کے بڑی انٹیلی جنس ناکامی کے طور پر دیکھا گیا۔

عرب افواج کا حملہ بڑا شدید اور زور دار تھا، انہوں نے اسرائیلی افواج کو پیچھے دھکیل دیا، مصری افواج تقریباً اس پورے علاقے پر قابض ہوگئی جو ان سے پہلے چھن گیا تھا۔ جنگ کے پہلے تین دن مکمل طور پر عرب افواج کے حق میں گئے۔ پھر امریکہ کی انٹری ہوئی۔ امریکیوں نے دل کھول کر جدید ترین اسلحہ اسرائیل کو سپلائی کیا جس نے جنگ کا توازن بدل دیا۔ اسرائیلی افواج نے بعد میں اپنے شدید جوابی حملے میں مصری اور شامی افواج کو پسپا کر دیا، اپنے علاقہ پر قبضہ واپس لیا اور اپنے جدید ہتھیاروں سے دمشق کو بھی ہدف بنایا۔ یہ جنگ چھ اکتوبر سے پچیس اکتوبر تک چلی۔ اٹھارہ روزہ جنگ میں ڈرامائی نشیب وفراز آئے مگر آخر میں یہ جنگ اسرائیل کے حق میں گئی۔ امریکہ اور روس میں بھی کشیدگی بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ بعد میں امریکہ نے جنگ بندی میں اہم کردار ادا کیا۔

یوم کِپور جنگ نے اسرائیل کو اپنے سخت اور بے لچک سابق موقف سے نیچے آنے پر مجبور کر دیا۔ اس جنگ میں اسرائیل مکمل تنہا ہوگیا تھا، یہ شدید اور جان لیوا احساس اسے پہلی بار ہوا۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ اپنی تمام تر جنگی قوت اور عسکری برتری کے باوجود وہ خطے میں امن قائم نہیں رکھ سکتا اور کسی بھی وقت اس پر شدید حملہ ہوسکتا ہے۔ یہ بھی اسے پتہ چل گیا کہ وہ امریکہ کے بغیر کسی کام کا نہیں۔ اس بات کو بھی اسرائیلی منصوبہ سازوں نے سمجھ لیا کہ مسئلے کے پائیدار حل کے لئے انہیں کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ یہی وہ سوچ تھی جو بعد کے برسوں میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کا باعث بنی۔ اسرائیل نے مصر کو سینا کا علاقہ بھی واپس کر دیا۔ ایک عشرے بعد اوسلو معاہدے بھی اسی سوچ کا نتیجہ تھا، تاہم بعد میں شدت پسندانہ اسرائیلی سیاسی سوچ کے غلبہ نے بہت کچھ الٹ پلٹ کر دیا۔

دو دن قبل ہونے والے ایرانی میزائل حملے نے بھی اسرائیلی منصوبہ سازوں اور فیصلہ سازوں کو کئی چیزیں ازسرنو سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کر دیا ہوگا۔ اسرائیلی اچھی طرح جانچ رہے ہیں کہ وہ اپنا اگلا قدم کیا اٹھائیں؟ ایران کو بھرپور انداز میں نشانہ بنائیں؟ یا پھر ایران کے بجائے لبنان میں ایرانی زیراثر تنظیموں کو شدید حملوں کا نشانہ بنا کر اپنی طرف سے بدلہ لے لینے کا اعلان کریں مگروہ ایسا ہو کہ ایران جوابی حملہ کرنے پر مجبور نہ ہو۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس سمیت کئی مسلمان ملک بھی یہی چاہتے ہیں۔ ان سب کی خواہش ہے کہ ایران کو جنگ میں نہ گھسیٹا جائے کیونکہ اس سے صورتحال بہت سنگین ہوسکتی ہے۔

البتہ ایک بہت سنگین اور پریشان کن منظرنامہ یہ بن سکتا ہے کہ اسرائیلی شدت پسند عسکری منصوبہ سازوں کی سوچ غالب آ جائے اور ایران پر شدید حملے کا فیصلہ ہوجائے۔ ممکن ہے انہیں لگے کہ ایران کو ڈیمیج کرنے اور اس کی عسکری قوت تباہ کرنے کا یہ موقعہ ہے۔ سردست ہمیں کچھ اندازہ نہیں کہ امریکی خفیہ پلان کیا ہے؟ بظاہر تو امریکی جنگ پھیلانا نہیں دینا چاہتے، مگر امریکہ منصوبہ سازوں کے پاس لمبے چوڑے پلان ہوتے ہیں اور وہ ان کے لئے اتنی ہی گہری پلاننگ کرتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ایران پر آگ برسانے اور اسے تباہ کرنے کا منصوبہ کہیں پنپ رہا ہے تو یہ پورے خطے کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔

بہرحال ایسالگ رہا ہے کہ مڈل ایسٹ کا بحران جو غزہ پر حملہ یا کہیں لیں حماس اسرائیل تصادم سے شروع ہوا تھا، اب وہ فیصلہ کن موڑ پر ہے۔ ایک غلطی سے آگ مزید بھڑک سکتی ہے۔ مڈل ایسٹ ایک بڑی جنگ کی طرف جا سکتا ہے۔ تھوڑے تحمل اور بردباری سے اگر ہینڈل کیا جائے تو بحران بڑھنے کے بجائے کم ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے اسی سے فلسطینیوں کے لئے بھی کوئی راستہ نکل آئے اور پھر آگے جا کر جو عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہ رہے ہیں، ان کے لئے آسانی پیدا ہوجائے۔ ایسی کسی صورت میں پھر پاکستان پر بھی دبائو آئے گا۔ سردست تو ہمارے لئے کرنے کو کچھ نہیں۔ ہم بس سکون سے بیٹھ کر صورتحال دیکھیں۔ اچھے کی امید کریں اور بدترین کے لئے تیار رہیں۔