اتفاق سے دنیا کے جس حصے میں ہم رہتے ہیں وہاں اچھی خبریں کم کم ہی دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں اور بہت زیادہ اچھی خبریں یا دنیا کے نقشے پر ملک و قوم کے نام اور مقام کو بلند کرنے والی چیزیں تو شاذو نادر ہی چہرہ نمائی کرتی ہیں۔
بلاشبہ اس میں سارا قصور ہمارا نہیں کہ دنیا کے کاروبار اور نظام پر حاکم لوگ، طبقے اور ملک بھی غریب کمزور اور پسماندہ ملکوں اور ان کے باشندوں کو نہ تو ترقی کے یکساں مواقعے دیتے ہیں اور نہ اُن کے کارناموں اور صلاحیتوں کا کھلے دل سے اعتراف اور احترام کرتے ہیں جس کی ایک واضح مثال نوبل پرائز کی شکل میں ہم سب کے سامنے ہے کہ جس میں all are equal but some are more equalکو بطور ایک اصول کے اختیار اور استعمال کیا جاتا ہے جو یقیناً الفرڈ نوبل کبھی نہیں چاہتا ہوگا۔
کہنے کو کولونیل زمانہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد بتدریج ختم ہوگیا ہے مگر اُس سے متعلق حاکم طبقوں کی ذہنیت آج بھی تقریباً وہی ہے جو ستّر اسّی برس پہلے تھی۔ اس ہمہ گیر دھندلکے میں کہیں کہیں جب روشنی کے آثار یامظاہر سامنے آتے ہیں تو دل کو ایک انجانی سی خوشی ہوتی ہے اور اگر اس روشنی کا تعلق اپنے وطن، قوم، زبان یا حلقہ احباب سے ہو تو اس کو واقعتاً چار چاند لگ جاتے ہیں اور حُسن اتفاق سے اس خوشخبری کا تعلق ان چاروں سے ہے۔
1958 میں فلپائن میں وہاں کے ایک عظیم اور غیر معمولی انسان اور قومی رہنما ریموں میگ سائے سائے کے نام پر ایک ایوارڈ کا آغاز ہوا جسے اگر نوبل پرائز کا ایشیائی ورژن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ میگ سائے سائے فاؤنڈیشن ہر سال ایشیا کے چالیس ممالک میں سے چار غیر معمولی شخصیات کا انتخاب کرکے انھیں اس ایوارڈ سے نوازتی ہے۔
اس کے ایوارڈ یافتگان کی فہرست میں مدر ٹریسا، دلائی لامہ اور ڈاکٹر محمد یونس کے نام شامل ہیں جب کہ اس برس یعنی 2021ء میں ہمارے آپ کے محبوب اور ہردلعزیز دوست اور اپنی نوعیت کے ایک سماجی اور معاشی انقلاب کے روحِ رواں ڈاکٹر امجد ثاقب کو اس ایوارڈ کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے۔
اگرچہ ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے لوگوں کے لیے کوئی بھی ایوارڈ بڑا نہیں ہوتا کہ وہ اپنی شخصیت اور خدمات کے زور پر ہر طرح کے اعزاز سے بڑے، بالاتر اور بے نیاز ہوجاتے ہیں مگر زندہ معاشروں کا یہ فرض بہرحال اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے کہ وہ اپنے عہد کے ان بڑے لوگوں کی اُن کی زندگی ہی میں تحسین اور پذیرائی کریں۔ سو یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری یا کسی اور کی مبارکباد سے ڈاکٹر صاحب کو شائد کوئی فرق نہ پڑے مگر جو اُن کا حق بنتا ہے اُس کا اظہار اور اقرار نہ کرنا بھی کوئی شریفانہ بات نہیں۔
نوبل پرائز کی طرح یہ ایوارڈ بھی انسانیت کے لیے بے لوث اور غیر معمولی خدمات کے لیے پیش کیا جاتاہے، میگ سائے سائے فاؤنڈیشن نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ یہ ایوارڈ غربت کے خاتمہ، انسانی وقار کی بحالی اور بلاسود قرضوں کے ماڈل کی بنیاد رکھنے پر ڈاکٹر امجد ثاقب کو بطور خراجِ تحسین پیش کیا جارہا ہے۔
مجھے یاد آیا کہ نوّے کی دہائی میں اطہر طاہر ڈپٹی کمشنر جھنگ نے دریائے چناب کے کنارے ایک تاریخی اور روایتی انداز کے مشاعرے کا اہتمام کیا تھا ڈاکٹر امجد ثاقب جو اُس وقت سول سروس کا امتحان پاس کرکے تازہ تازہ اسسٹنٹ کمشنر مقرر ہوئے تھے یکے از منتظمین تھے اور یہیں اُن سے پہلی ملاقات کا موقع ملا جو بفضل خدا آج تک چلتی چلی آرہی ہے کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ انھوں نے میڈیکل کی پریکٹس کی طرح بیوروکریسی سے بھی فاصلہ کرلیا ہے اور اب اپنے آپ کو خدمتِ خلق سے وابستہ کرکے باقی کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، یہ فیصلہ اپنی تمام تر نیک نیتّی کے باوجودہمارے معروضی حالات کے پیشِ نظر بظاہر ایک مجہول قسم کا فیصلہ تھا جس پر میں نے تمام تر تنقید دل ہی دل میں کی کہ ابھی اُن سے بے تکلفی کا آغاز نہیں ہوا تھا۔
اخوت کے بالکل ابتدائی دنوں میں مجھے اُن کے ساتھ بلا سود قرضِ حسنہ کے ایک پروگرام میں شعیب سلطان اور منو بھائی کے ساتھ شمولیت کا موقع ملا جو لاہور کے ایک نزدیکی گاؤں میں ترتیب دیا گیا تھا اور جس کے دوران ڈاکٹر امجد ثاقب سے باتیں کرتے ہوئے مجھے علامہ اقبال کا یہ شعر بار بار یاد آیا کہ
عقابی رُوح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں
تب سے اب تک "اخوت" خواب سے حقیقت بننے کے ساتھ ساتھ قرض حسن کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا اور معتبر ادارہ بن چکی ہے اور بیس برس قبل دو لاکھ روپے کے چند قرضوں اور بغیر کسی دفتر یا عملے کے چلنے والی اخوت اب 50 ارب روپوں کے بلاسود قرضے جاری کرنے کے بعد تقریباً 49لاکھ خاندانوں اور اڑھائی کروڑ غریب اور کم وسیلہ لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
ان بیس برسوں میں ڈاکٹر امجد اُن کے رفقا اور اخوّت کے اور بھی بہت سے کارنامے ہیں لیکن میرے نزدیک اخوت یونیورسٹی کا قیام سب پر بازی لے گیا ہے جس طرح انھوں نے اس عمومی ردّعمل کو کہ بلاسُود قرضوں کا نظام ناقابلِ عمل ہے اور یہ کہ لوگ ان کو واپس نہیں کریں گے غلط ثابت کر دکھایا، اُسی طرح اُن کا یہ دعویٰ بھی اب عملی شکل میں مکمل ہوکر ہمارے سامنے ہے کہ فِیس کے بغیر بھی تعلیم دی جاسکتی ہے اور یہ کام ایک یونیورسٹی کی سطح پر بھی کیا جاسکتا ہے۔
آخرمیں ایک بار پھر میں ڈاکٹر امجد ثاقب اور اُن کے احباب سمیت پوری پاکستانی قوم کو اس ایوارڈ کی مبارک دینا چاہتا ہوں کہ یہ ایوارڈ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ساتھ ہم سب کا بھی ہے کہ اس کی وجہ سے دنیا کے نقشے پر ایک بار پاکستان کا نام چمکا اور جگمگایا ہے کچھ برس پہلے میں نے "اخوت" کے لیے ایک ترانہ نما نظم لکھی تھی اُس کے ایک بند کے ساتھ اس خوش خبری کا مل کر استقبال کرتے ہیں۔
آؤ قریب آؤ، ہاتھوں میں ہاتھ دے کر، زنجیر سی بناؤ
بے کس کی بے زبان کی طاقت کہیں جسے
انسانیت کا دردِ محبت کہیں جسے
پیمانِ دوستی ہے "اخوت" کہیں جسے