اب سے صرف دو صدیاں پہلے تک پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک طرح کی بجلی کا ہی ذکر ملتا ہے جسے آسمانی بجلی کہا جاتا ہے جس کے حوالے سے غالبؔ کا یہ شعر بھی بجلی کی طرح ذہن میں کوند کوند جاتا ہے۔
قفس میں مجھ سے رُودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
آج بجلی کے بلوں کے حوالے سے پاکستانی عوام کی جو حالت کردی گئی ہے اگر کسی طریقے سے ایڈیسن کے علم میں لائی جاسکے تو شاید وہ بھی "تو استعفیٰ مرا بہ حسرت دیاس" کا راستہ اختیار کرلے، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ آج کی انسانی زندگی سے اگر اس ایجاد نما دریافت کو منہاکردیا جائے تو ہر چیز ایک ایسی نیم تاریکی میں ڈوب جائے گی کہ جس کا عملی طور پر تصّور کرنا بھی مشکل ہے کہ اب یہ کم و بیش آکسیجن کی طرح ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکی ہے۔
ہمارے جیسے ترقی پذیر اور سائنسی حوالے سے پسماندہ ملکوں میں روزافزوں آبادی کی کثرت اور بجلی کے ضیاع کی بلند تر شرح کی وجہ سے اس کی آسان، سستی اور مسلسل فراہمی ایک سنگین مسئلے کی شکل اختیار کر چکی ہے کہ ہمارے یہاں معمول کے معمولی لائن لاسز کے علاوہ بھی اس کی کمی اور مہنگائی کے بہت سے اسباب ہیں اور اس حمام میں بجلی کے محکمے سمیت اس کے مختلف استعمال کنندگان اور چور سب ایک سے ننگے ہیں کہ اگر لائن مین گھروں کے میٹروں کی ریڈنگ کو مُک مُکا کے ذریعے کچھ سے کچھ کر دیتے ہیں تو اُن کے افسران بڑی بڑی فیکٹریوں کے مالکان سے "سمجھوتہ" کرکے وہاں استعمال ہونے والی بجلی کو جادو کی ٹوپی پہنا دیتے ہیں اور جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ شہر وں میں "کُنڈا کلچر" یا بعض علاقوں میں زبردستی کی مفت بجلی کے باعث اس صُورتِ حال کو مزید گھمبیر بنا دیتے ہیں، رہی سہی کسر حکومتیں پورا کردیتی ہیں کہ ان سارے نقصانات کو جمع کر کے کسی حکم یا فیصلے کے ذریعے سے عام اور ایمانداری سے بل ادا کرنے والوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے جو انھیں تسلیم ا ور ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ عدم ادائیگی کی صورت میں اُن کا حُقہ پانی بند ہوجاتاہے یعنی بجلی کے بلبوں اورٹیوبوں کے ساتھ ساتھ فریج، فریزر، واشنگ مشین، ہیٹر، اے سی، کُولر، موبائل کے چارجر اور دروازے کی گھنٹی تک کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یہ وہ سزا ہے جو فی زمانہ اگر موت سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔
اس ساری رام کہانی اور تمہید کا مقصد مزید واضح کرنے کے لیے میں سب سے پہلے آپ سے نومبر 2021کے بل کے مندرجات شیئر کرتا ہوں کہ جس میں استعمال شدہ بجلی کی اندازاََ 20روپے فی یونٹ کے حساب سے 4956/-روپے قیمت لگائی گئی ہے جو اپنی جگہ پر ایک سوالیہ نشان ہے مگر فی الوقت ہم اس کی بحث میں پڑے بغیر اُن ٹیکسز کی بات کرتے ہیں جن کے اصل ناموں کا پتہ لگانا شاید خدا اور ان ٹیکسوں کے عائد کرنے و الوں کے سوا کسی اور ذِی روح کے بس کی بات نہیں، سو میں ان کو من و عن درج کر رہا ہوں۔
LESCO Charges 435
Taxes، Charges
TV Fees 35
GST 95
Fc Surcharge 113-52
واضح رہے کہ یہ صرف 264یونٹ کا بِل ہے جس میں Off Peak اورPeak کے مختلف ریٹس بھی شامل ہیں یہاں تک تو یہ بات کسی نہ کسی طرح قابلِ فہم و برداشت تھی مگر جب اس میں 6900/- روپے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر مزید ڈالے گئے تو یہ بل 13472/- روپے کا ہوگیا یعنی پانچ ہزار کی پہلے سے مہنگی بجلی پر صارف کو تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار اضافی اداکرنے پڑے، پرانے وقتوں میں اس طرح کے حساب صرف لطیفوں یا پہیلیوں میں ہو اکرتے تھے، میرا سوال صرف اتنا ہے کہ سامنے نظر آنے والے کُنڈوں، بل نہ دینے و الے علاقوں اور شعبوں اور افسروں اور نچلے عملے کی بے جا مراعات اور اوپر کی کمائی کو پکڑنے اور روکنے کے بجائے اُن کے حصے کی سزا آپ اُن صارفین کو کیسے اور کیوں دے سکتے ہیں جو اکثر صورتوں میں اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر آپ کے بل بھرتے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت کی اصلی مجبوریاں یعنی ٹیکسوں کی کم وصولی، کورونا، عالمی مہنگائی اور درآمدی اشیاء کی ترسیل اور اُن کے کرایوں میں غیر معمولی اضافے کے باعث ہونے والی مہنگائی، سب تسلیم بجلی کی پیدوار میں ان کی وجہ سے زیادہ لاگت بھی برحق مگر وہ فرق تو استعما ل ہونے والی بجلی کی بنیادی قیمت میں اضافے سے پورا کرلیا جاتا ہے، مسئلہ زیرِ بحث تو یہ ہے کہ آپ کمپنی کے چارجز اور مستقل ٹیکسوں کے بعد یہ فیول ایڈجسٹمنٹ کس حساب میں اور کس اصول کے تحت وصول کرتے ہیں، یہ تو حامد کی سزا محمود کے سر والا معاملہ ہے کہ آپ اپنا گھر ٹھیک کرنے کے بجائے جب بھی چاہے مجبور عوام پر نہ صرف اس کا بوجھ ڈال دیتے ہیں بلکہ یہ بوجھ اصلی سے بھی زیادہ بھاری ہوجاتا ہے۔
میں نے لیسکو کے کچھ سینئر افسران سے جن میں سے ایک دو سے صاحب سلامت بھی ہے، اس ضمن میں رابطہ کیا تو انھوں نے مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اخلاقی اور اصولی اعتبار سے آپ کی شکائت بجا ہے مگر قانونی طور پر رولز اینڈ ریگولیشن کے مطابق آپ کو بھیجا جانے والا بل بالکل درست ہے اور یہ کڑوا گُھونٹ آپ کو پینا ہی پڑے گا۔ سو میں نے مرتا کیا نہ کرتا کہ تحت اُن کے مشورے پر ہی عمل کیا ہے کیونکہ افسران نے قاعدے قوانین کی پابندی تو کرتی ہوتی ہے، اس لیے میں انھیں قصور وار قرار نہیں دے سکتا جب کہ اسی گفت و شنید کے دوران میں ایک غزل بھی ہوگئی، اب غور کرتا ہوں تو اس کے مطلع میں یہی کالم ایک اور رنگ میں بولتا سنائی دے رہا ہے کہ
منزل پہ کررہا ہے وہ اعلان مختلف
ہم سے ہوئے تھے وعدہ وپیمان مختلف
میری معلومات کے مطابق عمران خان کو شعرو شاعری سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں لیکن میری خواہش ہے کہ کوئی انھیں اسی غزل کا یہ شعر ترجمے کے ساتھ سنا دے کہ میں اتفاق سے رجائیت پسندوں کے اُس گروہ سے تعلق رکھتا ہوں جو کسی بھی حال میں مکمل مایوس نہیں ہوتے اور جسے اب بھی اس حکومت سے بہتری کی اُمید ہے
تو کیوں نہ پھر یہ زخمِ جگر پھیلتا رہے
ہم کر رہے درد کا درمان مختلف