Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Jo Barf Mein Barf Ho Gaye

Jo Barf Mein Barf Ho Gaye

8جنوری کی رات برفباری کے ایک طوفان نے مری اور اس کے گردونواح میں جو قیامت ڈھائی اُس کی تفصیلات نے دل اور دماغ دونوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے دل کو یوں کہ مختلف وجوہات کی بنا پر بہت سے لوگوں نے رات اپنی اپنی گاڑیوں میں گزارنے کا فیصلہ کیا تھا اور صبح کا سُورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے22لوگ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے شدید سردی میں مدد کے لیے پکارتے پکارتے ٹھٹھر ٹھٹھر کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئے اوردماغ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہلکان ہوگیا کہ اکیسویں صدی میں ملک کے دارالحکومت سے صرف تیس چالیس میل کے فاصلے پر ہونے کے باوجود کیوں اُن لوگوں کو بچایا نہیں جاسکا۔

اس میں شک نہیں کہ قدرتی اور سماوی آفات کی وجہ سے سب سے زیادہ باوسائل اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی بعض اوقات ایسے حادثات ہوجاتے ہیں جن میں بہت سی معصوم انسانی زندگیاں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں اور کوئی اُن کوبچا نہیں پاتا حالانکہ اُن کے سسٹم بھی عام طور پرٹھیک کام کر رہے ہوتے ہیں۔

مری میں ہونے والے اس دلگداز حادثے پر میڈیا کی بیشتر رپورٹوں اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے لیڈرانِ کرام کے بیانات، تبصروں اور گھن گرج کو دیکھا جائے یا حکومتی اداروں اور اُن کے نمایندوں کے بیاناتِ صفائی کے انداز پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہر دو کے لیے اگر "شرمناک" نہیں تو انتہائی "غیر ذمے دارانہ" کا تاثر بے جا نہ ہوگا۔ قدرے غور سے دیکھا جائے تو اس واقعے میں یک دم پارکنگ کی بساط سے بہت زیادہ گاڑیوں کے داخلے اور دباؤکے علاوہ کوئی بھی الزام ایسا نہیں تھا جو کم و بیش پاکستان سے فوراً بعد سے لے کر اب تک کی ہر حکومت پر عائد نہ ہوسکتا ہو۔

مثال کے طورپر جو چند باتیں بار بار سامنے آرہی ہیں اُن میں سڑکوں کی حالت، ہوٹلوں میں بستروں کی کمی اور اُن کی خراب حالت کے باوجود آسمانوں کو چُھوتے ہوئے کرائے، اشیائے خورونوش کی ظالمانہ مہنگائی، برفباری سے پہلے درمیان اور بعد میں متعلقہ عملے کی غیر ذمے داری سیاحوں کے لیے سہولت اور تربیت کی کمی اور اپنی تفریح کے لیے دوسروں کے واسطے خواہ مخواہ کے مسائل پیدا کرنا وہ مسئلے ہیں جن کا ہمیشہ رونا رویا جاتا ہے مگر کوئی اس کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دیتا تنگ اور کم سڑکوں اور متبادل راستوں کی کمی اور دوہری تہری فری فار آل قسم کی پارکنگ کی وجہ سے عام حالات میں بھی وہاں امدادی کارروائیاں بہت محدود، تاخیری اور مشکل ہوتی ہیں جب کہ اطلاعات کے مطابق برفانی طوفان کے بعد بہت سے لوگ اپنی گاڑیاں سڑک پر ہی چھوڑ کر پناہ گاہ کی تلاش میں نکل گئے تھے چھ چھ فٹ برف سڑک پر جگہ جگہ گرے ہوئے درختوں اور گاڑیوں کے گزرنے کا رستہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ صورتِ حال مزید پیچیدہ ہوتی گئی جس کے نتیجے میں نہ صرف بے شمار خلقِ خدا نے وہ رات بہت تکلیف میں گزاری بلکہ 22 قیمتی جانیں تلف بھی ہوگئیں۔

یہ ہے وہ صورتِ حال جسے اگر امرِواقعہ مان لیا جائے تو بجائے اس کے کسی موثر اور مشترکہ حل کی تلاش کے ایک دوسرے پر روائتی، رسمی اور انتہائی بے معنی تنقید اور اس صورتِ حال کا ہمیشہ کے لیے اور مستقل سدِّباب کرنے کے بجائے حکومت مخالف جماعتوں اور افراد نے اسے بھی حساب برابر کرنے کا ایک موقع سمجھا اور اس طرح کا شور مچایا کہ اُن کے مسلسل اور اکثر غیر تصدیق شدہ بیانات کے نتیجے میں حکومت اور انتظامیہ کی نالائقی، نا اہلی، غیر ذمے داری، سنگدلی اور پتہ نہیں کس کس کمزوری اور خرابی پر جی بھر کر گولہ باری تو ہوگئی مگر کسی ایک طرف سے بھی صورتِ حال کی اصلاح کا کوئی ذکر سننے میں نہیں آیا، بھلے لوگو! پی ٹی آئی ہو یا کوئی اور جماعت یہ تو آتے جاتے ہی رہیں گے پاکستان کے عوام کا نقصان تو ہم سب کا نقصان ہے افسوس صد افسوس کہ ہمارے میڈیا نے بھی زیادہ تر اسی روّیئے کو جگہ اور ہوا دی۔

عثمان بزدار میں ہزار خرابیاں ہوں گی جن پر گرفت اپوزیشن کا جائز حق ہے مگر اس طرح کی خبریں اور سُرخیاں کم از کم میری سمجھ سے باہر ہیں کہ "وہ چالیس منٹ کی ڈرائیوکے دوران ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے رہے"ارے بندہ ئِ خدا یہ کوئی کرنے والی بات ہے؟

بدقسمتی سے مری کے بیشتر ہوٹل مالکان اور دکان داروں کا روّیہ ہمیشہ سے سیاحوں کے حق میں بہت بُرا اور قابلِ اعتراض رہا ہے کہ بقول اُن کے جو لوگ اُن کے سال بھر کے رزق کا انتظام کرتے ہیں وہ انھیں آسامیوں اور بکروں جیسے القابات سے سرفراز کرتے ہیں اور انھیں لُوٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جب کہ اُن کی سروس اور پیش کردہ سہولیات بھی عام طور پر بہت ناقص ہوتی ہیں سو جہاں سڑکوں، موٹروں کی تعداد اور پارکنگ کی سہولیات وغیرہ پر توجہ دی جارہی ہے وہاں مقامی لوگوں کے اس روّیے اور بے حد ناجائز منافع پرستی کا بھی کوئی انتظام ہونا چاہیے۔

اگر یہ بات درست ہے کہ پانچ ہزار کرائے والے کمرے کا ایک رات کا کرایہ پچاس ہزار طلب کیا گیا اور تیس روپے کے انڈے کے تین سو روپے وصول کیے گئے تو ایسے تاجروں اور دکانداروں پر سخت سے سخت چیک کا کوئی نظام وضع کرکے اس کی پابندی بھی کرائی جائے۔ وہ 22اللہ کے بندے تو اب اپنے مالکِ حقیقی کے پاس چلے گئے ہیں اور ہم شائددُعا کے علاوہ اُن کے لیے کچھ اور کر بھی نہیں سکتے البتہ اس طرح کے واقعات کے سدِّباب اور آیندہ کے لیے احتیاط بلاشبہ ضروری بھی ہے اور یہ حکومت اور انتظامیہ کا فریضہ بھی ہے۔

میں نے ایک فوری تاثر کے تحت اس موضوع پر کچھ شعر لکھے ہیں جنھیں میرے بیٹے علی ذی شان نے میرے فیس بُک پیج پر بھی لگادیا ہے احباب کے تاثرات اور کمنٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس حادثے نے ہر دل کو غمگین اور ہر آنکھ کو آبدیدہ کر دیا ہے میں یہ اشعار اُن احباب کے لیے جن کی نظر سے وہ پوسٹ نہیں گزری۔ یہاں اس کالم میں درج کررہاہوں کہ یہ صرف میرے نہیں ہم سب کے دلوں کی آواز ہے۔

برف سے کھیلتے ہوئے برفِ مثال ہوگئے

کیسے وہ ایک رات میں خواب و خیال ہوگئے

حدِّ نگاہ تک کُھلا برف کا مرگِ زار تھا

جائے اماں کو ڈھونڈتے لوگ نڈھال ہوگئے

نام و مقام گُھل گئے برف میں برف کی طرح

کل تھے جو دُرِّ بے بہا مفت کا مال ہوگئے

برف کے جال میں پھنسے کتنے تھے زندہ لوگ جو

موت سے پہلے موت کے واقفِ حال ہوگئے

برف کے اس حصار سے نکلیں گے کس طرح سے اب؟

اس کا جواَب ڈھونڈتے آپ سوال ہوگئے

وہ جو سفر میں کھوگئے اُن کا بھی حال دیجیے

رستے جو تھے رُکے ہوئے مانا بحال ہوگئے

آنکھ میں جیسے مستقل برف نے کرلیا ہے گھر

سمجھے تھے جن کو مشغلے جی کا وبال ہوگئے