کہا جاتا ہے کہ انیسویں صدی کے وسط میں انگریز مصنف لارڈ ولیم میور نے جب Life of Muhammad کے نام سے ایک ایسی کتاب لکھی جس میں رسول پاکؐ کی ذاتِ مبارک کے متعلق کئی غلط، گمراہ کن اور قابلِ گرفت باتیں درج تھیں تو سرسیّد احمد خان جو اُس وقت اپنی عمر کی پانچویں دہائی میں بھی داخل نہیں ہوئے تھے اور بذات خود انگریزی سرکار کے تنخواہ دار ملازم تھے اس صورتِ حال پر بہت دل تنگ اور پریشان ہوئے اور اُس وقت کے تقریباً تمام جیّد علما کے پاس یہ درخواست لے کر گئے کہ چونکہ وہ خود بوجوہ ان غلط مگر علمی حوالوں سے پیچیدہ اعتراضات کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
اس لیے وہ بزرگ جو متعلقہ دینی مسائل اور رسول پاک ؐ کی زندگی اور سیرت کے بارے میں گہری معلومات رکھتے ہیں آگے آئیں اور علمی حوالوں سے ولیم میور کے عائد کردہ الزامات اور اعتراضات کے جواب دیں، بدقسمتی سے کسی نہ کسی وجہ سے یہ عالمانِ دین خاموش رہے اور سرسیّد نے یورپ اور عالمِ اسلام کی لائبریریوں میں ڈیڑھ دو برس کی مسلسل تحقیق کے بعد اس کتاب کا مدلل اور موثر جواب "خطبات احمدیہ" کی شکل میں ایسی اچھی طرح سے دیا کہ کئی برس بعد تک کسی کو دوبارہ ایسی گستاخی اور غلط بیانی کی ہمت نہیں ہوئی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ سائنس، ٹیکنالوجی اور تحریک احیائے علوم کے باعث نہ صرف خود مذہب سے دور ہو رہا تھا بلکہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اپنی نو آبادیوں میں بھی اسی رجحان کو ہوا دے رہا تھا، اس ضمن میں سب سے زیادہ مخالفت اور مزاحمت کا سامنا انگریز کو برصغیر میں کرنا پڑا اور اس کے لیے یہ بات بہت عجیب اور ناقابلِ یقین تھی کہ مسلمان قوم اپنے ہمہ جہت زوال اور مذہبی فرقہ پرستی کے باوجود ناموسِ رسالت کے نام پر نہ صرف نیک دل اور یک جان ہوجاتی ہے بلکہ تمام تر اختلاف بُھلا کر اُن کے نام پر جان دینے کو تیار ہوجاتی ہے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے انھوں نے بھارت میں جس طرح کی مکروہ کارروائیاں اور سازشیں کیں اُن کی تفصیل میں جانے کا یہ وقت نہیں لیکن امرِواقعہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر چالاکی اور منصوبہ سازی کے باوجود وہ حُبِ رسول کے مسئلے پر مسلمانوں کو تقسیم کرنے میں ایک خاص حد سے زیادہ کامیاب نہ ہوسکے۔
ا ب اگرچہ نو آبادیاتی دور کو ختم ہوئے ستر برس سے زیادہ ہوچکے ہیں مگر آج بھی وہاں ایک محدود مگر انتہائی متعصب اور اسلام دشمن ایسا طبقہ موجود ہے جو مختلف حوالوں سے اپنے خبثِ باطن کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے اور رسول پاکؐ کے کردار اور شخصیت پر رکیک، گمراہ کن اور من گھڑت جملوں سے نہ صرف جان بوجھ کر ملتِ اسلامیہ کی دل آزاری کرتا ہے بلکہ اپنے اُن کروڑوں عام ہم وطنوں کو بھی آزادی تحریر کا جھانسا دے کر ان کو ساتھ ملا لیتاہے۔
جن کے لیے مذہب اب ایک ایسا ذاتی مسئلہ بن چکا ہے جس سے عملی طور پر اُن کا تعلق نہ ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے کہ وہ آنکھیں بند کرکے، بغیر سوچے سمجھے اور تحقیق کیے نہ صرف اس پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں بلکہ ان کے دانشور اور پالیسی ساز تک اس مکروہ دھندے میں اُن کے شریکِ کار بن جاتے ہیں۔
دوسری طرف اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ اور بعض حکومتیں باوجوہ یا تو اس مسئلے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں یا اس طرح کا احتجاج کرتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی البتہ برصغیر اور بالخصوص پاکستان کے مسلمان چیخ و پکار، غم و غصے کا اظہار اور خود اپنے وسائل کی توڑ پھوڑ تو بہت کرتے ہیں مگر کہیں سے بھی کوئی ایسا موثر، بامقصد اور نتیجہ خیز جواب سامنے نہیں آتا جس کی وساطت سے دنیا کو اصل صورت حال سے آگاہ کیا جاسکے اور اسے احساس دلایا جاسکے کہ ان کے اس طرز عمل سے نہ صرف ڈیڑھ ارب انسان ذہنی اور روحانی تکلیف سے دوچار ہوتے ہیں بلکہ نادانستگی میں وہ ایک ایسی عظیم بلکہ عظیم ترین شخصیت کی بھی ناقدری اور توہین کے مرتکب ہوتے ہیں جو صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ساری خلقت کے لیے رحمت، ہدایت اور شرفِ انسانیت کی عظمت کے نمایندہ اور پیغام برتھے۔
اس خرابی اور مکالمے میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ ہم نے اہلِ مغرب سے (یہاں اہلِ مغرب سے مراد وہ چند مخصوص شرپسند عناصر نہیں جو اس مکروہ عمل میں پیش پیش ہیں بلکہ وہ کروڑوں عام، مذہب سے کم واقفیت رکھنے والے اور مادی ترقی کو ہی اپنی منزل سمجھنے والے لوگ ہیں جن کو آج تک کسی نے تصویرکا دوسرا اور اصل رُخ اُن کے مائنڈ سیٹ اور موضوع سے عدم واقفیت کو سامنے رکھتے ہوئے دکھایا ہی نہیں اور اگر کسی نے کوئی سرسری سی کوشش کی بھی ہے تو اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ اُن سے بات کس زبان، پیرائے اور سطح پر کرنی چاہیے۔
اس سے قطع نظر کہ وہ خدا اُس کے پیغمبروں اور مذہب کو مانتے ہیں یا نہیں، دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس چیز کو عزت اور وقعت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مثلاً اگر اُن کو مثالیں اورثبوت دے کر یہ سمجھایا اور بتایا جائے کہ انسانی زندگی کی دس ہزار سالہ محفوظ تاریخ میں جن لوگوں نے انھیں پتھر کے زمانے سے اُٹھا کر اُس مہذب اور متمدن دور تک پہنچایا ہے جس میں اُن کو بنیادی انسانی حقوق، تحریر و تقریر کی آزادی، جنگ اور امن کے اصول، تعلیم اور خواتین کی حرمت اور سوشل سیکیورٹی جیسی نعمتیں حاصل ہیں تو ان عظیم اور تاریخ ساز لوگوں کی فہرست میں نسل انسانی کی ترقی کے ہر شعبے پر سب سے اُوپر جس ایک شخص کا نام اور مقام ہے وہ عرب کا وہی صحرا نشین ہے جس نے آج سے چودہ صدیاں قبل کہنے کو صرف 63 سال اس زمین پر گزارے مگر جس کا نقش آج بھی قائم و دائم ہے سو ایسے محسنِ انسانیت کے بارے میں کوئی منفی بات کرنے سے پہلے انھیں دس دفعہ سوچنا چاہیے۔
یہ ہے بنیاد اُس ڈاکیومنٹری فلم کی جس کا افتتاح 23 اکتوبر کو پنجاب یونیورسٹی کے الرازی ہال میں ہوا اور جو انگریزی اور اُردو کے علاوہ دنیا کی آٹھ بڑی زبانوں میں مختلف طرح کے میڈیاز کی معرفت انشاء اللہ آیندہ ایک ماہ میں اُن کروڑوں لوگوں تک پہنچ جائے گی جو اس کے مخاطبِ صحیح ہیں اور دنیا جان سکے گی کہ رسول پاکؐ صرف مسلمانوں کے ہی نہیں ساری خلقِ خدا کے رہنما تھے۔