اُردو نثر اور شاعری دونوں میں طنزومزاح کے انداز میں لکھنے والے گنتی میں تو بہت ہیں لیکن جن لوگوں نے شعری اور اخلاقی معیار کو قائم رکھتے ہوئے عمدہ شاعری کی ہے ان کی تعداد اتنی کم ہے کہ ایک طرح سے انگلیوں پر گِنی جاسکتی ہے اگرچہ کلاسیکی اساتذہ کے یہاں بھی کہیں کہیں اسی نوع کے اشعار مل جاتے ہیں کہ قاری بے ساختہ ہنسنے پر مجبور ہوجائے مگر میرے خیال میں اُردو کا پہلا باقاعدہ مزاح گو شاعر اکبر الٰہ آبادی ہی بنتا ہے اب اگر اس صف میں سید محمد جعفری، سید ضمیر جعفری، طحہٰ خان، نذیر احمد شیخ، ظریف جبل پوری، سرفراز شاہد اور انور مسعود کو شامل کر لیا جائے تو اسے باآسانی پہلی اور نمایندہ صف قرار دیا جاسکتا ہے۔
سرفراز شاہد چند روز قبل اپنا سفرِ حیات مکمل کرکے اس دنیا سے پردہ کرگئے ہیں وہ مزاج میں تو دھیمے تھے مگر اُن کا طنز اور مزاح دونوں کی کاٹ دیدنی تھی اس پر وہ پڑھتے بھی ایک مخصوص انداز میں تھے جس میں وہ پھکڑ پن نہیں ہوتا تھا جس میں آج کے بہت سے مزاحیہ شاعر گرفتار ہیں۔
میں ذاتی طور پر علیحدہ سے مزاحیہ مشاعروں کے حق میں نہیں کہ ان سے دو طرح کے نقصانات ہوتے ہیں ایک تو سامعین کا ذوقِ شعری خراب ہوتا ہے اور دوسرے ان شعرا کو بھی انھیں ہنسانے کے لیے ایسے موضوعات اور ہتھکنڈوں پر زور دینا پڑتا ہے جو مشاعرے کو آج کل کے بیشتر نام نہاد مزاحیہ اسٹیج ڈراموں کی سطح پر لے آتا ہے میری رائے میں ان شعرا کو ماضی کے اور باقاعدہ مشاعروں کی طرح اپنا کلام سنانا چاہیے جس سے نہ صرف مشاعروں کے رنگ اور دلچسپی میں اضافہ ہوگا بلکہ وہ بھی مزاحیہ مشاعرے کے لیبل سے آزاد ہوکر بہتر انداز میں اپنی شاعری پیش کرسکیں گے۔
سرفراز شاہدمرحوم کی شاعری کا سب سے بڑا کمال اسی معیار اور توازن کو قائم رکھنا تھا کہ وہ سامعین کو محظوظ بھی کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اور پھکڑ پن میں اُلجھے بغیر نِت نئے اور خیال افروز مضامین کو بھی بڑی مہارت اور خوش اسلوبی سے سامنے لاتے چلے جاتے تھے اُن کے یہاں سکہ بند مزاحیہ موضوعات کے ساتھ ساتھ زندگی کے ایسے شعبوں پر بھی مزاحیہ اور دلچسپ تبصرے ملتے ہیں جن سے اُن کی ذکاوت، مطالعے اور مشاہدے کا وہ بھر پور اظہار ہوتا تھا جو انھیں دیگر ہم عصر شعرا سے واضح طور پر ممتاز کرتا تھا۔
مجھے اُن کے ساتھ بے شمار مشاعرے پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے انھیں ہمیشہ متبسم اور ملنسار پایا، خواتین ا ور خصوصی طور پر اپنی ہی بیویوں سے چھیڑ چھاڑ آج کل کے مزاح کا عمومی ٹرینڈ بن چکا ہے۔
سرفراز شاہد نے بھی اس موضوع پر بہت لکھا ہے لیکن ایسے سنبھلے ہوئے اور دلچسپ انداز میں کہ انھیں زیادہ داد مشاعرے میں موجود خواتین سے ہی ملتی تھی۔ اُن کے لیے مغفرت کی دُعا کے ساتھ جستہ جستہ کچھ چوکے چھکے کہ وہ چار اور چھ مصرعوں والے قطعات کو انھی الفاظ میں بیان کیا کرتے تھے، عنوانات کے انتخاب میں بھی اُن کی حسِ مزاح خوب چمکتی تھی مثلاً اس پہلے چھکے کا عنوان ہی آپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لے آتا ہے "دو اُداس اور غمگین شوہروں کی گفتگو"
ایک نے یوں کہا میری بیوی
پچھلے شوہر کا ذکر کرتی ہے
دوسرے نے کہا کہ شکر کرو
گزرے شوہر کا ذکر کرتی ہے
میری بیوی تو گھر میں روزانہ
اگلے شوہر کا ذکر کرتی ہے
……
جنابِ شیخ اپنے وعظ میں روزانہ برسوں سے
سناتے جارہے ہیں ایک ہی افسانہ برسوں سے
مگرکیبل کے رستے روز آتی ہیں مرے گھر میں
وہ حُوریں جن کے چکر میں ہیں یہ مولانا برسوں سے
……
عالمی طاقتوں خدا کے لیے
جنگ کا اب نشان مٹا ڈالو
امن کے پھول جو کہ برسائے
کوئی ایسا بھی بم بنا ڈالو
پڑھائی چھوڑ کرکٹ میں نام پیدا کر
تعلقات حسینوں سے عام پیدا کر
تو بن شعیب ملک ثانیہ سے کر شادی
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
……
انسان تو کرتا ہے خطا اور طرح کی
قدرت اُسے دیتی ہے سزا اور طرح کی
جو مرد کہ ہوتا ہے ذرا اور طرح کا
بیوی اُسے دیتا ہے خدا اور طرح کی
……
بولے گی جھوٹ کیسے اب کے وہ برتھ ڈے پر
مشکل یہ آپڑی ہے عورت کی زندگی میں
جو بیسیوں صدی میں رہی بیس کی مسلسل
اکیس کی تو ہوگی اکیسویں صدی میں
……
جب سے نوراں بنی ہے مِس نورین
محفلوں میں کھڑاک کرتی ہے
پہلے اُردو میں بات کرتی تھی
اب وہ انگلش میں ٹاک کرتی ہے
وہ جو ہرنی کی چال چلتی تھی
آج کل کیٹ واک کرتی ہے
……
روزِ ازل سے مل گئی طبع کی روشنی ہمیں
پیار کے حادثے مگر دل کو اُداس کرگئے
جاناں تمہاری عمر تو تھرٹی پہ آکے رُک گئی
ہم تیرے انتظار میں ایٹی کراس کرگئے