برادر عزیز عدنان بیگ سے پہلا تعارف ہم سب کے محترم احمد ندیم قاسمی صاحب کے ادبی مجلے "فنون" کی معرفت ہوا ہے تو یہ تیس پنتیس برس پرانی بات مگر کل کی لگتی ہے کہ تب سے اب تک اس عزیز سے متعلق ہر بات اطلاع اور خبر اپنے ساتھ کوئی خوش آیند پہلو لیے ہوتی ہے لیکن اردو نظم سے اپنے خصوصی تعلق کی وجہ سے مجھے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس کی نظموں نے متاثر کیا کہ غیر معمولی تخلیقی صلاحیت کے ساتھ ساتھ وہ عالمی ادب کا ایک بہت سنجیدہ قاری اور پارکھ بھی تھا۔
طالب علمی کے چند برس لاہور میں گزارنے کے بعد وہ اپنے آبائی علاقے گوجرہ میں واپس چلا گیا اور یوں اس سے براہ راست ملاقات کے مواقعے محدود تر ہوتے چلے گئے البتہ خالد احمد اور نجیب احمد کی معرفت یہ پتہ چلتا رہا کہ اب اس کی زیادہ توجہ اپنے بزنس کی طرف ہے، پھر ایک دن اچانک خبر ملی کہ مہ رخوں کے لیے نہ سہی مگر وہ نہ صرف مصوری سیکھ چکا ہے بلکہ اس میدان میں بھی اسے بہت توجہ اور احترام سے نوازا جا رہا ہے۔
چند برس قبل مجھے اس کی بنائی ہوئی تصویروں کی ایک سولو نمائش دیکھنے کا موقع ملا تو اس کی اس فن لطیف پر گرفت اور تخلیقی صلاحیت نے بے حد متاثر کیا، نمائش میں میری بیگم بھی میرے ساتھ تھیں، انھوں نے ایک تصویر پر بالخصوص اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا، میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اگلے روز اس نے وہ 6X8 کی پینٹنگ ہمارے گھر بھجوا دی جو اب بھی میری لابی میں آویزاں ہے اور جسے میں دن میں کئی بار آتے جاتے دیکھتا ہوں اور ہر بار اس کی محبت کا نقش میرے دل پر مزید گہرا ہو جاتا ہے۔
چند دن قبل اس کا پیغام ملا کہ وہ فیصل آباد کے ایک بہت عمدہ مال میں شالوں کی ایک نمائش کا اہتمام کر رہا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ میں اس کا رسمی افتتاح کروں۔ اتنا تو میرے علم میں تھا کہ بعض علاقوں میں انتہائی قیمتی اور نایاب شالوں پر فن کار ہاتھوں سے ایسے پیچیدہ، خوب صورت اور خوش رنگ ڈیزائن بناتے ہیں کہ پوری دنیا میں انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے مگر عملی طور پر اس فن کی گہرائی اور تاریخ کے بارے میں معلومات بہت محدود تھیں کہ ہمارا تجربہ زیادہ تر مشینی شالوں تک محدود تھا۔
وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ نہ صرف یہ سارا شاپنگ مال عدنان کی فیملی کا ہے بلکہ اس نے اس کے تیسرے اور چوتھے وسیع فلورز کو صرف اور صرف شالوں کے شوروم کی شکل دے دی ہے۔ جہاں ہر طرح اور ہر قیمت کی شالیں چاروں طرف دامن دل کو اپنی طرف کھینچ رہی تھیں مگر سب سے زیادہ حیران اور متاثر کن وہ شالیں تھیں جن پر کیا گیا کام بلاشبہ معجزہ فن سے کم نہیں تھا، ان میں سے کچھ شالوں کی قیمت تین سے چھ لاکھ کے درمیان تھی مگر ان کی کوالٹی اور ان پر کی گئی محنت نے ان کو ایک کولیکٹرز آئٹم کا درجہ دے دیا تھا یوں ان کا تعلق ان صاحب نظراں سے تھا جو ان ہی کی طرح تعداد میں کم ہوتے ہیں۔
اگلے روز مجھے اور عباس تابش کو سندھ رینجرز کی یوم اقبال کے حوالے سے ترتیب دی گئی تقریب میں شرکت کرنا تھا، رات گئے فیصل آباد سے لاہور اور پھر صبح گیارہ بجے کراچی کے لیے فلائٹ پکڑنے کے تھکا دینے والے عمل کے باعث جب ہم ایئرپورٹ پہنچے تو معلوم ہوا کہ فلائٹ دو گھنٹے لیٹ ہے۔
گزشتہ ایک ماہ میں کراچی کے تین ہوائی سفر ہوئے مگر ہر بار فلائٹ میں تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے کئی لوگوں کی آگے کی connecting فلائٹس متاثر ہوئیں، سنا ہے کہ اس ماضی کی بہت کامیاب اور شاندار ایئر لائن کو پھر سے پہلی صف میں لانے کے لیے پروگرام بنائے جا رہے ہیں، امید ہے کہ ان پروگراموں میں وقت کی پابندی بھی شامل ہو گی۔
کراچی آرٹس کونسل کے مدار المہام برادرم احمد شاہ اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ندیم ظفر کے انتظامات حسب معمول بہت عمدہ تھے۔ رینجرز کے نارتھ ناظم آباد ہیڈ کوارٹر کے وسیع و عریض سبزہ زار میں ایک طرف خواجہ میر درد سے لے کر جون ایلیا تک کی قد آدم تصاویر آویزاں تھیں۔ یہ پروگرام بزم اردو کے جھنڈے تلے منعقد کیا گیا تھا اور اس کی تھیم اقبال، اردو اور پاکستان تھی۔
پہلے حصے میں آٹھ شاعروں پر مشتمل ایک مشاعرہ تھا جس میں بیرون شہر سے آئے ہوئے دو شاعروں یعنی میرے اور عباس تابش کے علاوہ عنبرین حسیب عنبر، اجمل ستار، فاطمہ حسن، خواجہ رضی حیدر، انور مسعود اور ڈاکٹر پیرزادہ قاسم شامل تھے۔
تقریباً ڈیڑھ برس کے تعطل کے بعد اب براہ راست سامعین سے مخاطب ہو کر شعر سنانا بہت اچھا لگ رہا ہے۔ مشاعرے کے بعد دو گلوکاروں انتظار حسین اور کرم عباس نے اپنی خوب صورت آوازوں کا جادو جگایا جب کہ تیسرے اور آخری حصے میں احمد شاہ اور ڈی رینجرز کابرمحل خطاب تھا اگرچہ دونوں کا انداز اپنا اپنا تھا مگر باتیں بہت گہری بروقت اور برعمل تھیں جن میں اقبال کی مستقبل بینی کی غیر معمولی صلاحیت کو بہت سلیقے سے اجاگر کیا گیا تھا اور ان تقاریر میں اقبال کے ان اشعار کی گونج صاف سنائی دے رہی تھی۔
عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
جس مہارت، خوش اسلوبی اور محنت سے سندھ رینجرز نے گزشتہ چند برسوں میں ہمارے اس خوب صورت شہر کی لٹی ہوئی رونقوں کو بحال کیا ہے اس کا ذکر بھی بار بار آیا جو بلاشبہ کسی کارنامے سے کم نہیں اور آخر میں ڈاکٹر ہما میر نے جمیل الدین عالی کا لکھا ہوا مشہور قومی گیت "جیوے جیوے پاکستان" گا کر محفل کو ایک خوب صورت موڑ تک پہنچا دیا، جہاں سے آگے اب انشاء اللہ روشنی ہی روشنی ہو گی۔