گزشتہ چالیس برسوں سے طلبا یونینوں کی بندش نے طلبا کے نہ صرف تعلیمی مشاغل کو مجروح کیا ہے بلکہ پورے علمی ماحول پر سنگین ضرب لگائی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تعلیمی اداروں سے ہٹ کر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ایک طویل عرصہ گزرگیا کہ تعلیمی اداروں میں ہفتہ طلبا کے نام کی کوئی شے موجود نہیں جب کہ ایک زمانہ تھا کہ ہفتہ طلبا میں کھیل کود کے علاوہ ڈرامے، مباحثے، تقریری مقابلے اور فنون لطیفہ کے دیگر پروگرام ہوا کرتے تھے۔ جن کی بدولت طلبا میں جھجھک کا عنصر جاتا رہتا تھا اور برجستگی کا عنصر ان کی رگوں میں پیوست ہوجاتا تھا۔ طلبا یونینوں کی بدولت صرف طالب علم رہنما ہی پیدا نہیں ہوتے تھے بلکہ فنون لطیفہ سے مربوط لوگ بھی نمایاں نظر آتے تھے۔
ایسا نہیں کہ اگر کوئی سوال کرے کہ کیا آپ اس سال پروموٹ ہوگئے ہیں۔ تو جواب یہ دیا جائے کہ میں تو داخلہ لینے آیا ہوں۔ اس قسم کے فاصلے اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ تعلیم سے مربوط تمام شاخیں خشک ہوچکی ہیں اور محض طلبا نصاب کی پٹڑی پر چل کر فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ جس زمانے میں طلبا یونینیں ہوتی تھیں۔
تو ہفتے یا پندرہ دن پر سینئر طلبا کسی پرائیویٹ جگہ پر چھٹی کے روز سماجی اور سیاسی موضوعات پر کلاسیں لیا کرتے تھے۔ ان میں ادبیات کا موضوع، مضمون نگاری، شاعری اور مصوری بھی نمایاں ہوتے تھے۔ اسی لیے ایسے دور میں بعض طلبا سائیکلو اسٹائل رسالے بھی نکالتے تھے۔ جن میں بہت سے طلبا کے مضامین، ٹائٹل، خطاطی اور دیگر حوالے شامل ہوتے تھے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ 1963میں ڈاؤ میڈیکل کالج کے طالب علم قمر عباس ندیم اسی سیڑھی پر چڑھ کر نوجوانی میں ہی اچھے افسانہ نگار بنے اور بڑے ادیبوں کی صف میں پہچانے جانے لگے۔ تعلیم کے درمیان عالمی سطح پر رائج راستوں کو مسدود کرنے سے ایسے نتائج سامنے آئے ہیں کہ لوگ نصابی طور پر تو اعلیٰ گریڈ رکھتے ہیں۔ مگر غیر متعلقہ موضوعات پر بالکل دسترس نہیں رکھتے اور اگر یہ کہا جائے کہ متعلقہ موضوعات میں بھی سوال و جواب کی تشنگی موجود ہوتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔
جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو اس کے متعلق یہ کہنا تو سراسر غلط ہوگا کہ اس میں کسی قسم کی کمی آئی ہے۔ بلکہ اگر نصابی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو خصوصاً اردو اور انگریزی کتب کے معیار خاصے بلند ہوگئے ہیں۔ اب جو نصابی کتب آرہی ہیں۔ ان میں ماحولیات اور فلکیات کے مضامین بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ الیکٹرونک آلات نے معلومات کو وسعت دی ہے لہٰذا ایک طریقے سے نصاب کا دائرہ وسیع تر ہوگیا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن برجستگی، منطقی استدلال اور ان سے منسلک تعلیم میں کمی آئی ہے۔ جس کی وجہ سے مباحثوں کی جگہ تشدد نے لے لی ہے۔
علم کا زیور مجموعی طور پر بکھرسا گیا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ہر شخص پر نصابی تعلیم اور علم میں دوری نمایاں ہوجائے گی۔ نصاب دراصل علم کی ترتیب وار جہتوں کا مجموعہ ہے جو عمر کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا ہے۔ تاکہ شعور کے اعتبار سے اور عمر کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے تعلیم کا حصول ممکن ہو اور اساتذہ نے عمر کے اعتبار سے نصاب تیار کیے ہیں جب کہ علم دھیان گیان اور ندرت ِ خیال کا نام ہے جس پر فہم و ادراک کا پرتو ہوتا ہے۔
یہ علم ہی تھا جس نے ہر علاقے کے موسمی حالات، ماحولیاتی اثرات، باد صبا ونسیم کے آہنگ کو سمیٹتے ہوئے انسان کو زبان کا تحفہ دیا۔ ایسے تحفہ دینے والی شخصیات کو علم کا درجہ دیا جاتا ہے اور جو لوگ زبان اور کلام کے حسن کو مزید خوب صورتی بخشتے ہیں ان کو بھی ہم عالم کہہ سکتے ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو آپ کو اس کا علم ہوجائے گا کہ آپ کی زبان اردو کن کن منزلوں سے گزری ہے اور انشا پردازوں کی کیا خدمات ہیں۔ زبان انسان کا وہ وصف ہے جس نے اس کو جانوروں سے جدا کرکے تہذیب کے فانوس میں ڈھال دیا۔ دنیاکی جتنی بھی زبانیں ہیں۔ وہ اپنے اپنے علاقائی آہنگ میں رچی بسی ہیں۔
گویا ان پر علاقائی عالموں کے ترتیب دیے ہوئے آہنگ ہیں۔ اب انھی زبان دانوں نے ایجادات کے ذریعے قربت کے آلات سے انسانوں کو مربوط کردیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دنیا عالمی زبان اور ثقافت کے علاوہ غذائی ذائقوں کی طرف بھی دوڑ رہی ہے اور دنیا ایک عالمی تہذیب کا گہوارہ بننے جارہی ہے۔ یہ سب عطیات عالمی علوم کے ہیں۔ جس نے وقت اور رفتار (Speed and Time)کو اپنی ہتھیلی میں جکڑ دیا ہے۔
یوں تو ہمارے یہاں بھی علم کے مدارج میں پی ایچ ڈی شامل ہے جس سے کسی تخلیق کاری کا اندازہ نہیں ہوتا لیکن نصاب کی منزلوں میں کسی ندرت کی جھلک محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہ سب ایک آزاد خیال، ترقی یافتہ دنیا کے مظاہر ہیں مگر ان ملکوں کا کیا کیا جائے جہاں معاشی بد حالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور عام آدمی کی آمدنی فی کس ایک ڈالر روزانہ سے بھی کم ہے۔
اور حکومتوں کو اس بات کا خیال بھی نہیں کہ ان کی آزادی محض فوجی قوت سے نہیں بلکہ معاشی قوت سے ہی برقرار رہ سکتی ہے۔ ورنہ ان کے خزانے پر بیرونی ناگ آکر بیٹھ جائیں گے۔ لہٰذا انسانی زندگی کے بنیادی مسائل جب تک حکومتیں حل نہیں کرتیں۔ پرامن تعلیمی فضا بحال نہیں ہوتی۔ علم تو دور کی بات ہے۔ نصابی تعلیم کے غنچوں میں مہک پیدا نہیں ہوسکتی۔
گزشتہ چالیس برسوں سے تعلیمی ماحول پر پہرے لگے ہوئے ہیں۔ بحث مباحثے کی روشنی ماند پڑگئی ہے۔ علم کے فانوس کا تصور معدوم ہوچکا ہے۔ حکمراں کہتے ہیں کہ تعلیمی فضا کے تمام دریچے کھول دیے جائیں گے۔ مگر ان پر حدود و قیود کی اخلاقی پابندیاں بھی لگادی جائیں گی۔ ایسی صورت میں علم کا تصور تو تعلیمی اداروں سے کوسوں دور رہے گا۔
غریب ممالک اس لیے غریب نہیں کہ ان کے ملک کے معدنی ذخائر نہایت محدود ہیں بلکہ ان کے معدنی ذخائر تو لامحدود ہیں لیکن کوئی حکومت ایسی نہیں آتی جو ان ذخائر کی ترسیل اور تقسیم کو منصفانہ انداز میں پیش کرے۔ اس کے علاوہ ان کی زرعی پیداواری صلاحیت بھی لامحدود ہے بشرطیکہ ان کے حاکم زرعی زمین کی تقسیم اور زرعی پالیسی بنانے میں سنجیدہ ہوں۔
پاکستان میں زرعی پالیسی بنانے میں کوئی حکومت سنجیدہ نہیں۔ اس کے معاشی معاونین اور مالیاتی وزارت سبز انقلاب کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔ ان کا اپنی زرعی پیداوار پر انحصار نہیں ہے وہ صرف آئی ایم ایف سے قرض لے کر ملک چلانے میں کوشاں ہیں۔ اس لیے ان کا معاشی استحکام زبوں حالی کا شکار ہے اور وہ کبھی بھی ان حالات میں آزاد خارجہ پالیسی نہیں بناسکتے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک انگریزی دور اور اس سے قبل کی ہی زرعی پالیسی آج تک لاگو ہے۔ پاکستان کے کسی بھی حکمران نے سبز انقلاب کا خواب نہیں دیکھا۔ پھر بھی پاکستان کو زرعی ملک گردانا جاتا ہے۔ رہ گیا صنعتی پالیسی کا تو اب کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ ملک کے انرجی کے ٹیرف اس قدر مہنگے ہوگئے ہیں کہ پاکستان کی صنعتی پیداوار ایکسپورٹ کے قابل ہی نہ رہی اور چین کی دوستی اور صنعتی پیداوار کی وجہ سے چینی مصنوعات جو کہیں سستی ہیں لہٰذا مارکیٹ میں ہماری مصنوعات نہیں ٹھہرسکتیں اس لیے پاکستان کی صنعت روبہ زوال ہی رہے گی۔
اس لیے کوئی نیا انقلابی قدم نہ اٹھایا جائے کیونکہ ملک میں تعلیمی ٹیرف روبہ زوال ہے۔ اس لیے کسی صنعتی انقلاب کا تصور بھی بے سود ہے۔ موجودہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں قدیم سرمایہ دارانہ نظام میں ہی اپنی فلاح کو دوام بخش رہی ہیں۔ البتہ حکومت سندھ قدامت پرستی میں دیگر صوبوں جیسی ہی ہے مگر بعض تضادات کی بنیاد پر اس نے ہمارے تعلیمی نصاب کے خلا کو طلبا یونینوں کی بحالی سے پر کردیا ہے۔ حکومت سندھ اس بات پر مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے چالیس سال پرانے قانونی شکنجے کو توڑ کر طلبا یونینیں بحال کردیں۔ اب صرف نوٹیفیکشن کے اجرا کی کمی رہ گئی ہے۔
جس میں حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے یونین کی بحالی پر مہر ثبت کردی ہے۔ جن کو وزیراعلیٰ سندھ اور مسٹر بلاول بھٹو کی حتمی حمایت حاصل ہے۔ اس طرح حکومت سندھ نے مرکزی حکومت اور دیگر صوبوں کی حکومتوں کو اسٹوڈنٹس یونین جلد بحال کرنے کی راہ دکھا دی اور اب محسوس ہوتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے صدارتی آرڈیننس کے دن پورے ہوگئے۔
اس طرح پاکستان کی صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومت میں ایک نئے قسم کے تضادات قریب تر آگئے ہیں کیونکہ طلبا یک جان ہوکر بڑی سرعت سے اپنے حقوق کی بحالی کے لیے سرگرم ہوچکے ہیں۔ حکومت پنجاب کی طرف سے چونکہ طلبا کے مرکزی جلوس پر جس ناپسندیدگی کا اظہار کیاگیا ہے۔
اس سے آنے والے وقت میں تصادم کی شکلیں نظر آرہی ہیں لیکن اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ تعلیم، نصاب اور علم کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ اور ایک جامع اسٹوڈنٹس پالیسی طلبا کا آئینی حق بن چکی ہے جو ملک کی ترقی کی ضامن ہوگی۔ خواہ اس راستے میں کتنی ہی دشوار گزار رکاوٹیں کیوں نہ پیدا ہوں اب وقت آگیا ہے کہ حکومت پاکستان نئی تعلیمی پالیسی کا اجرا کرے جس میں عوام کی اجتماعی آبادی کی رضامندی شامل ہو۔