یو ٹرن یعنی اپنی بات سے پھرنا اور جب عمل کا وقت آئے تو وہ کچھ کرنا جو بالکل الٹ ہو اُس سے جس کا پہلے وعدہ کیا گیا ہو، کو اپنے لیے فخر اور کامیابی کا باعث جاننے والے وزیراعظم عمران خان سے کوئی یہ پوچھے کہ جب یو ٹرن پر اس طرح فخر کیا جائے گا اور یوں ایک کے بعد ایک اپنی بات، عہد اور وعدہ سے پھرا جائے گا تو پھر ایسا شخص کیسے قابلِ اعتبار رہ سکتا ہے، اُس کی کسی بات پر کوئی کیوں بھروسہ کرے گا۔ پھر تو ہر کوئی یہی سمجھے گا کہ جو بات یا وعدہ وہ آج کر رہا ہے وہ کل اُس سے پھر جائے گا اور کہہ دے گا کہ یوٹرن تو اچھے ہوتے ہیں اور وہ تو Idiotsہوتے ہیں جو یو ٹرن نہیں لیتے۔ اگر جو کچھ پہلے کہا گیا یا جس کا وعدہ کیا گیا، اُس کے برخلاف کرنے کو یو ٹرن کہہ کر Justifyکیا جائے گا تو پھر وعدہ خلافی کسے کہتے ہیں!!! یہ جھوٹ اور غلط بیانی کے زمرے میں نہیں آئے گا!!!
تحریک انصاف کی حکومت کے گزشتہ ایک سال کے دوران یو ٹرنز کو اگر کوئی گننے بیٹھے تو آسانی سے سنچری مکمل ہو جائے گی۔ بہت سی باتوں اور وعدوں کے برخلاف عمل کرنے کو تسلیم کرتے ہوئے اُسے یو ٹرن کی "خوبی" گردانتے ہوئے اس کا دفاع بھی کیا گیا۔ لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ ریاستِ مدینہ کا خواب دکھانے والے وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت نے اپنے اس وعدہ سے بھی یو ٹرن لے لیا ہو۔ اگرچہ کوئی اعلان تو نہیں کیا گیا لیکن عملاً جو ہو رہا ہے وہ اُن اصولوں اور روایات کے بالکل برخلاف ہے جو ریاستِ مدینہ اور اسلام ہمیں سکھاتا ہے۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا حکومت کا ایک وفد آذربائیجان گیا۔ مقصد صوبہ میں بیرونی سرمایہ کاری کا فروغ تھا لیکن اس انویسٹمنٹ کانفرنس کی جس چیز نے سوشل میڈیا اور لوگوں کی توجہ حاصل کی وہ خواتین کے نیم برہنہ فحش ڈانس تھے جو کانفرنس کے موقع پر منعقد کیے گئے۔ سرکاری سطح پر فحاشی و عریانیت کو فروغ دینے کے اس عمل پر سوشل میڈیا پر تو کافی تنقید بھی ہوئی اور سوال بھی اٹھائے گئے لیکن نہ کسی ذمہ دار نے معاف مانگی، نہ کسی وزیر مشیر جو کارنفرنس میں شریک تھے، نے شرمندگی کا اظہار کیا اور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا۔ ہاں! ایکشن لیا گیا لیکن لاہور میں اُس حکومتی اہلکار کے خلاف جس نے شہر میں ایک ایسے ریسٹورنٹ کو سیل گیا جہاں شراب کھلے عام فروخت کی جاتی تھی۔ متعلقہ افسر کو شاباشی دینے کے بجائے عہدہ سے ہی ہٹا دیا گیا۔
لاہور ہی کے ایک اہم تعلیمی ادارے نے اپنے طلباء و طالبات کے لیے الگ الگ کیفے ٹیریاز قائم کرنے کا نوٹس جاری کیا لیکن مغرب سے مرعوب دیسی لبرلز کے ایک گروہ کی جانب سے اس اسلامی اقدام پر تنقید کے بعد متعلقہ تعلیمی ادارے کی انتظامیہ نے اُس نوٹس کو واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے ایک اہم انگریزی اخبار کو بتایا کہ اُس افسر کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی جس نے یہ نوٹس جاری کیا۔ ایک ایسی ریاست جو ریاستِ مدینہ کا بار بار حوالہ دے، کیا اُس میں اس طرح اسلامی اقدامات کرنے پر متعلقہ افراد کی تعریف ہونا چاہئے یا وہ تادیبی کارروائی کے مستحق ٹھہرائے جانا چاہئیں۔ اس واقعہ میں بھی اگر ایکشن ہونا چاہئے تو تعلیمی ادارہ کی اُس انتظامیہ کے خلاف جنہوں نے ایک اسلامی نوٹس پر عمل درآمد کرنے کے بجائے اُسے واپس لیتے ہوئے اخبار کے ذریعے یہ بتایا کہ نوٹس جاری کرنے والے کے خلاف کارروائی ہو گی۔
چند روز قبل خیبر پختونخوا کے علاقہ ہری پور میں محکمہ تعلیم کی طرف سے ایک بہت خوش آئند حکم نامہ جاری ہوا، جس میں علاقہ کے اسکول کی طالبات کو ہدایت جاری کی گئی کہ وہ پردہ کا خیال رکھیں، جس پر ایک بار پھر ہمارے کچھ دیسی لبرلز سٹپٹا اٹھے۔ اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے کہ کہیں پھر کسی پریشر میں آکر ہری پور انتظامیہ کے اس قابلِ تحسین اقدام پر بھی یوٹرن نہ لے لیا جائے، گزشتہ روز سے پردہ کے حق میں سوشل میڈیا کے ذریعے ایک مہم چلائی گئی۔ دیسی لبرلز کے ایک چھوٹے سے طبقہ سے ڈر کر اسلامی اصولوں کی پاسداری سے انحراف کرنا، وہ بھی اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان کی اکثریت اسلام کے نفاذ، اسلامی احکام، شرم و حیا کی حامی، شراب پر پابندی اور بے حیائی کے خلاف ہے، بہت بدقسمتی کی بات ہے۔
وزیراعظم کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے گزشتہ جمعہ کو مظفر آباد گئے اور جلسے سے خطاب کیا اور ساتھ گلوکاروں اور فلمی اداکاروں کو بھی لے گئے۔ میں ریاست ِمدینہ کے نام لیوائوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا اسلامی ریاست میں فلمی اداکار اور گلوکاروں کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے؟ مجھے چھوڑیں، یہاں تو امتیاز عالم صاحب نے مظفر آباد میں جو دیکھا اُس پر سوال اٹھاتے ہوئے ٹویٹ کر دیا: "آج کیا تماشا بپا کیا گیا؟ کیا پکنک منائی جا رہی تھی اور اسٹیج پر شوبز کی شخصیات کے ساتھ سیلفیاں بنا کر خوش گپیاں ہو رہی تھیں۔ مظلوم کشمیریوں سے شراکت ِ غم اور انسانی یکجہتی اور مودی کے فاشزم کے خلاف غم و غصہ کا یہ کیسا غیر سنجیدہ مظاہرہ تھا؟ دنیا اور کشمیری آج کیا سوچیں گے؟"